بچیوں کا حق ہے کہ انہیں پورا بچپن ملے
(وسعت اللہ خان)
کم عمر لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں عالمی سطح پر مہم چلانے والی پاکستانی بچی ملالہ یوسف زئی کے بارے میں آپ کا جو بھی نظریہ ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں اٹھارہ برس سے کم عمر کی زیادہ تر بچیوں کے مسائل اس دنیا کے ذمے دار افراد کے لیے سنجیدگی سے قابلِ توجہ ہیں کیونکہ انہی بچیوں نے آگے چل کے ماں بننا ہے اور انہی ماؤں نے اگلی نسلوں کی تربیت کرنی ہے۔ آج اگر آپ ایک نوعمر بچی کا خیال رکھیں گے تو اس کا پھل اگلی نسل کی اچھائیوں کی شکل میں سامنے آئے گا۔
ان کم عمر بچیوں کا یہ بنیادی حق ہے کہ انھیں پورا بچپن ملے۔ تعلیم، صحت اور سماجی حقوق میں مساویانہ سلوک ملے تا کہ وہ آج کی عورت سے زیادہ بہتر عورتیں ثابت ہوں۔ ایک نوعمر بچی کو دن میں چھتیس بار یہ نہ بتایا جائے کہ وہ ایک عورت ہے۔ یہ بات اسے قدرت آپ سے پہلے ہی بتا چکی ہے۔ اسے یہ بھی نہ جتایا جائے کہ اس کی حدود و قیود کیا ہیں۔ یہ راز اس پر فطرت پہلے ہی افشا کر چکی ہے۔ کیا اس سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ وہ گڈے گڑیوں سے کیوں کھیلتی ہے اور اس کے بھائی گلی ڈنڈا کیوں کھیلتے ہیں؟
کیا اپنی ہی سگی بیٹی کو اپنے سگے بیٹے کے مقابلے میں کم، باسی یا بچی کھچی غذا دینے یا بیماری آزاری میں دوا دارو کے تعلق سے نظر انداز کرنے کے بعد اس بیٹی سے یہ توقع رکھنا جائز ہو گا کہ وہ تندرست و توانا اولاد پیدا کر سکے۔ کیا اسے ان پڑھ رکھ کے یا بالکل ہی واجبی سی تعلیم دینے کے بعد یہ امید باندھنا مناسب ہے کہ اپنی اگلی نسل کو دلجمعی سے تعلیم یافتہ بنائے۔ کیا جائیداد و شادی بیاہ سے متعلق اس کے وہ حقوق جو مذہب نے دیئے ہیں غصب کرنے کے بعد اس سے بھی آپ یہ توقع رکھیں گے کہ کل کلاں اپنے بھائیوں کی طرف سے اپنے حقوق دبانے کے عمل کو جائز سمجھے اور اُف بھی نہ کرے اور اپنی بیٹیوں کو بھی یہی سکھا کر جائے۔
اگر آپ یہ سب نہیں چاہتے تو پھر خود سے پوچھئے کہ اس دنیا کے دو سو تیس ممالک اور خطوں میں صرف چھ ملک (فن لینڈ، ناروے، آئس لینڈ، لکسمبرگ، لیچنسٹائین اور اینڈورا) ہی ایسے کیوں ہیں جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کی شرح تعلیم برابر برابر یعنی سو فیصد ہے۔
خود ہی سے پوچھئے کہ مذہب ِاسلام میں بلا جنسی تفریق سب سے زیادہ زور حصولِ تعلیم پر ہی کیوں دیا گیا؟ کیا کوئی ایسا متبادل ہے کہ بنا تعلیم کوئی بھی زن و مرد قرآن پڑھ اور سمجھ سکے۔ اردگرد جو کچھ ہو رہا ہے اس کا صرف جبلی ہی نہیں عقلی شعور بھی رکھ سکے۔ محض جبلی شعور تو جانور بھی رکھتے ہیں۔ آخر یہ کیوں کہا گیا کہ کائنات کے اسرار و رموز پر غور و تدبر کرو، ان کی حقیقت تک پہنچو اور انھیں مسخر کرو۔ کیا یہ کام ایک ان پڑھ معاشرہ کرسکتا ہے؟ اور کیا معاشرہ اپنے آدھے حصے کو ان پڑھ رکھ کے اور آدھے حصے کو تعلیم دے کر سوچ اور زندگی میں توازن پیدا کر سکتا ہے؟ اگر ان سوالات کا جواب اثبات میں ہے تو پھر تو مسئلہ ہی حل ہو گیا لیکن اگر جواب نفی میں ہے تو پھر ان اسباب کو سمجھ کر دور کرنے کی انفرادی و اجتماعی کوشش کو جنم دیجئے۔
کیا یہ سن کے اچھا لگتا ہے کہ ایسے دس ممالک جن میں عورتوں کی تعلیم کا تناسب سب سے کم ہے ان میں سے آٹھ ممالک مسلم اکثریتی ہیں (افغانستان بارہ فیصد، نائجر پندرہ فیصد، مالی بیس فیصد، برکینا فاسو اکیس فیصد، چاڈ پچیس فیصد، گنی تیس فیصد، گیمبیا چالیس فیصد، پاکستان بیالیس فیصد)۔
اگر عالمِ اسلام کی واحد جوہری قوت اور آبادی کے اعتبار سے انڈونیشیا کے بعد دوسرے بڑے مسلمان ملک پاکستان پر ہی فوکس کیا جائے تو تعلیم کے معاملے میں عموماً اور لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں بالخصوص حالات خاصے مایوس کن ہیں۔ ہر حکومت نئے نئے جوش میں یہ وعدہ کر بیٹھتی ہے کہ وہ تعلیم کی اہمیت سے بدرجہ اتم واقف ہے لہذا سرتوڑ کوشش کی جائے گی کہ تعلیم کا بجٹ ڈھائی فیصد سے بڑھا کر کل قومی آمدنی کے چار فیصد تک لایا جائے جو کہ اقوامِ متحدہ کی کم از کم تعلیمی بجٹ کی سفارش کے مطابق ہو۔ مگر ستر برس گزرنے کے بعد بھی یہ خواب کوئی بھی سویلین یا فوجی حکومت پورا نہ کر سکی۔
بہرحال جو بھی بجٹ منظور ہوتا ہے اس کا بیشتر حصہ بنیادی تعلیم پر لگانے کے بجائے اعلی تعلیمی اداروں پر خرچ ہو جاتا ہے اور اس میں سے بھی بیشتر تنخواہوں اور غیر ترقیاتی تعلیمی اخراجات کی نذر ہو جاتا ہے۔ بجٹ کا ایک بڑا حصہ پرائمری کے بجائے اعلی تعلیم پر خرچ کرنا ایسے ہی ہے جیسے آپ قمیض سلوا لیں مگر پاجامہ سلوانا بھول جائیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ تعلیم کے لیے اندرونی اور غیرملکی مدد کے باوجود حقیقی خواندگی کا تناسب بڑھ کے نہیں دے رہا۔
پاکستان کی سرحدیں جن ممالک سے ملتی ہیں ان میں سوائے افغانستان دیگر تمام ممالک میں خواندگی کا تناسب پاکستان سے زیادہ ہے۔ جیسے پاکستان کے پچاس فیصد خواندگی کے دعوے کے مقابلے میں چین میں یہ تناسب ترانوے فیصد، ایران میں اکیاسی فیصد اور بھارت میں ساڑھے پینسٹھ فیصد ہے۔ سارک کی سطح پر اگر دیکھا جائے تو بھوٹان اور افغانستان چھوڑ کے باقی سارک ممالک پاکستان سے زیادہ خواندہ ہیں۔
اگر ان دس ممالک کی فہرست بنائی جائے جہاں سب سے زیادہ بچے پرائمری اسکول سے باہر گھوم رہے ہیں تو اس فہرست میں پاکستان، افغانستان اور نائجر کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔ اس وقت یہاں پانچ برس کی عمر کے پچاس لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں اور ان میں لگ بھگ تیس لاکھ بچیاں ہیں۔ غربت اور بدامنی ان بچوں کو تعلیم سے روکنے میں سب سے بڑا عامل کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں اگر تعلیمی ترقی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اسماعیلی اور شیعہ ہزارہ کمیونٹی میں خواندگی کا تناسب نوے فیصد سے اوپر ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں شیعہ ہزارہ کمیونٹی کی اکثر لڑکیاں جان کے خوف سے کالجوں یونیورسٹیوں تک بھی نہیں جا پا رہیں اور گھر میں بیٹھ گئی ہیں۔ وفاق کے زیرِ انتظام قبائیلی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کا تناسب پہلے ہی پاکستان کے دیگر حصوں کے مقابلے میں سب سے کم یعنی ساڑھے بارہ فیصد کے لگ بھگ ہے لیکن ان علاقوں میں دہشتگردی، تعلیمی ڈھانچے کی بربادی اور لاکھوں کی دربدری کے بعد شاید خواندگی کی شرح ساڑھے بارہ فیصد کا بھی آدھا رہ گئی ہے۔
عملاً یوں ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت وفاقی حکومت نے بنیادی تعلیم کا شعبہ صوبوں کے حوالے کر دیا اور صوبوں نے اسے حالات کے سپرد کر دیا۔ اس خلا کو تیز رفتاری سے قائم ہونے والے مختلف مسالک کے مدرسے تندہی سے پورا کر رہے ہیں اور فیصلہ ساز اس سوچ میں غرق ہیں کہ عوام آخر روز بروز بے صبرے اور شدت پسند کیوں ہوتے جا رہے ہیں۔ حل تو دور کی بات ہے کیا لمبے چوڑے دعوے کرنے والی حکومتیں اور سیاسی مصلحین اس مسئلے کو کوئی سنجیدہ قومی مسئلہ سمجھنے سے بھی معذور ہیں؟ فی الحال تو الف سے انتشار، ب سے بدگوئی، ت سے تماشا اور پ سے پانامہ چل رہا ہے؟ ت سے تدبیر اور ت سے تعلیم ابھی بہت دور ہے۔
(بشکریہ مصنف اور ایکسپریس نیوز)