اب آگے شہنشاہیت گو عوام گو کا نعرہ بلند کرائے گی؟
مُنو بھائی
تین دفعہ ملک کا وزیراعظم بننے کی اہلیت رکھنے والے نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا۔ جس ملک میں کسی منتخب وزیراعظم نے اپنے پانچ سال پورے نہیں کیے۔ اس میں اس بار بھی ساڑھے چار سال میں گو نواز گو سے گون نواز گون ہو گیا ہے۔ نااہلی کے بعد نواز شریف نے وزارت اعظمیٰ چھوڑ دی ہے اور ان کی جگہ شاہد خاقان عباسی وزیراعظم کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کے پاس قانونی طور پر 9 ماہ باقی ہیں۔ چنانچہ قانون کی رو سے امید لگائی جا سکتی ہے کہ وہ بھی پانچ سال پورے نہیں کریں گے لیکن ملکی تاریخی میں قانون کے مطابق صرف لاقانونیت کے راستے ہی نکالے جاتے رہے ہیں۔ چنانچہ یہ امید بھی لگائی جا سکتی ہے کہ جو کچھ ہوتا آیا وہی ایک بار اور ہو گا اور آنے والے وقت میں کئی بار ہوتا چلا جائے گا۔
گو نواز گو کے سب سے بڑے علمبردار عمران خان رہے ہیں۔ عمران خان کا نواز شریف سے اختلافات کا سلسلہ 2013ء سے پہلے سے چل رہا ہے لیکن گو نواز گو کے نعرے میں تیزی 2013ء کے الیکشن کے بعد آئی اور پھر ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ جب گو نواز گو گون نواز گون ہو گیا۔ تو اپنے آپ کو عوام کے مسائل کی سمجھ رکھنے والے حقیقی اپوزیشن لیڈر کہلانے والے عمران خان کے پاس کرنے کا کوئی کام نہیں رہ گیا۔
ان کا اپنی نیوز کانفرنس میں کہنا تھا 2013ء کے الیکشن سے شروع ہونے والے جدوجہد، دھرنے کے دنوں کی مشکلات اور سپریم کورٹ میں ہونے والی کوششیں آج رنگ لے آئی ہیں۔ گو یا عوام کی سب سے بڑی مشکل آسانی میں تبدیل ہو گئی ہے اور ان کے ہر مسئلے کا حل نکل آیا ہے۔
گو نواز گو کے گون نواز گون ہوتے ہی غیر ملکی قرضوں کی لعنت سے نجات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کی بھیگی بِلی سے ’’عالمی شیر‘‘ بنانے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہ گئی۔ عوام کے مسائل حل کرنے اشیاء ضرورت کی چیزوں کو عام لوگوں کی پہنچ میں لانے اور ملک کی امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول میں لانے میں درپیش مشکلات کے دور کرنے میں اب کوئی بہانہ اور کوئی عذر نہیں رہ گیا۔
ہماری قومی تاریخ میں یہ کئی بار ہوا کہ ملک کی دو شخصیات میں پائے جانے والے یا پیدا ہونے والے اختلافات کی وجہ سے باقی ماندہ 22 کروڑ عوام کے معاملات رک گئے۔ ممدوٹ دولتانہ اختلافات، خواجہ ناظم الدین غلام محمد اختلافات، سکندر مرزا جنرل ایوب اختلافات، جنرل ایوب بھٹو اختلافات ، بھٹو جنرل ضیاء اختلافات، ضیاء الحق جونیجو اختلافات، بے نظیر غلام اسحاق اختلافات، غلام اسحاق نواز شریف اختلافات، لغاری زرداری اختلافات، نواز شریف جنرل مشرف اختلافات اور آج کل نواز شریف عمران خان اختلافات۔
اگر ہم قیام پاکستان سے پہلے کی تاریخ کے صفحات کا جائزہ لیں تو اس قسم کے اختلافات مغلیہ خاندان کے دور حکومت میں بھی رونما ہو چکے ہیں اور شاہجہان شہنشاہ کی اولاد کے باہمی اختلافات نے تو تاریخ کے علاوہ ملک کا جغرافیہ بدل کے رکھ دیا۔ شہنشاہیت سے نجات پانے اور غیر ملکی غلامی کا طوق اتار پھینکنے والے جن ملکوں نے جمہوری نظام کو اپنایا، وہاں دو شخصیتوں کے اختلافات اتنی زیادہ اہمیت نہیں حا صل کر سکتے کہ قومی ترقی کا پہیہ ہی جام کر کے رکھ دیا، تاریخ کا چہرہ بگاڑ دیں اور جغرافیہ کا حلیہ ہی تبدیل کر دیں۔ جمہوری نظام کو اپنانے والے ملکوں میں تمام فیصلے جمہوریت ہوتے ہیں۔ لوگوں میں اختلاافات ہوتے بھی ہیں تو نظریاتی، آئینی اور قانونی ۔ ذاتی، گروہی، مفاداتی، جاگیر دارانہ عالمی طاقتوں کے اشاروں کو بنیاد بنا کر نہیں ہوتے اور کبھی اتنی شدت نہیں اختیار نہیں کر سکتے کہ حکومتوں کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے۔
سوچنا پڑے گا اور غور کرنا پڑے گا کہ ہمارےملک میں کچھ ارباب اختیار کو اتنے زیادہ اختیارات تو حاصل نہیں ہو گئے کہ وہ شہنشاہیت کے درجے پر پہنچ چکے ہیں اور جن کی وجہ سے ہماری جمہوریت جس کو بھی وزارت اعظمیٰ کی کرسی کا اہل قرار دیتی ہے، وہ کچھ عرصے میں نظام کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔ یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ کیا اپوزیشن کو کسی ایک شخص کو نشانہ بنانے کی اجازت ہونی بھی چاہیے یا نہیں۔ غور تو شاید اس بات پر بھی کرنا پڑے گا کہ کس کی طرف سے یہ چاہا گیا ہے کہ گو نواز گو کے بعد گو زرداری گو کا نعرہ لگے اور کہیں آنے والے وقت میں گو عمران گو اور پھر آخر کار گو عوام گو کا نعرہ تو نہیں لگایا جائے گا۔