کلاسک فلمیں، دی گاڈ فادر
از، سفیان مقصود
سٹار کاسٹ: مارلن برانڈو، ال پچینو، جیمز کین، رابرٹ ڈیوال
ہدایت کار: فرانسس فورڈ کوپولا
ریلیز کا سال: 1972
“جب میں مر جاؤں گا تو وہ تمھیں صلح کرنے اور معاہدہ کرنے کو کہیں گے، وہ تمھارے پاس کسی ایسے شخص کو بھیجیں گے، جس پر تم اعتماد کرتے ہو، ہمارے گروپ یا خاندان میں سے کسی ایک کو، تا عمر قیامِ امن کے لیے اجلاس منعقد کرنے کی تاریخ مانگیں گے۔ اس ملاقات کے دوران تمھیں قتل کر دیا جائے گا! جس شخص کو بھی وہ تمھارے پاس میٹنگ طے کرنے کے لیے بھیجیں، اس سے بچ کر رہنا، در اصل وہی غدار ہو گا۔
سال 1969 میں ادب کی دنیا میں ایک بھونچال برپا ہوا اور اس بھونچال کا نام تھا “گاڈفادر”
ماریو پوزو کا یہ شاہ کار فکشن کی دنیا کو ہلا کر رکھ گیا اس ناول کو اتنی پذیرائی ملی کہ مسلسل 67 ہفتوں تک یہ “بیسٹ سیلنگ” ناول رہا اور دو سالوں میں اس کی 9 ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔
ہالی وُڈ کے سب سے کام یاب اور معتبر پروڈکشن ہاؤسز میں سے ایک پیراماؤنٹ پکچرز نے اس ناول کی کام یابی سے قبل ہی اس پہ فلم بنانے کے لیے اس کے حقوق خرید لیے تھے اور سال 1972 میں اس ناول کے قد کے عین مطابق دنیائے سِینَما کی عظیم ترین فلم “دی گاڈ فادر” ریلیز ہوئی۔
گاڈفادر ایک فلم نہیں بل کہ پورے کا پورا دبستاں ہے، اس فلم کے بنانے سے لے کر ریلیز تک اور ریلیز کے بعد کی بھی کئی دیو مالائی کہانیاں ہیں۔ جن دنوں اس فلم کو بنانے کا منصوبہ بن رہا تھا ان دنوں پیرا ماؤنٹ پکچرز انتہائی برے حالوں کا شکار تھی ان کی بیش تر فلمیں فلاپ ہوئیں تھیں اور کمپنی گھاٹے میں جا رہی تھی، اس پہ پیراماؤنٹ کی آخری فلم جو کہ گینگسٹر ژانرا پہ ہی تھی بری طرح فلاپ ہو چکی تھی ایسے میں کمپنی نیا رسک لینے کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔
“دی گاڈفادر” کے لیے اس وقت کے سبھی بڑے فلم میکرز کو آفر کیا گیا، لیکن ایک کے بعد ایک سبھی نے اس فلم کو کرنے سے انکار کر دیا ایسے میں ایک بندے نے انتہائی سستے مگر انتہائی معیاری فرانسس فورڈ کوپولا کا نام پیش کیا جو نو آموز تھے اور ان کی بھی آخری فلم ناکام ہوئی تھی۔ پہلے پہل کوپولا نے بھی اس فلم کو کرنے سے انکار کر دیا لیکن اپنی کَسمَ پُرسی کی وجہ سے بالآخر انھوں نے اس فلم کو کرنے کی ہامی بھر لی۔ کوپولا نے ماریو پوزو کے ساتھ مل کر اس فلم کا سکرین پلے لکھا اور اپنے انداز سے “گاڈفادر” کی کہانی کو پیش کیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ماریو پوزو صرف ایک ناول نگار تھے اور انھوں نے زندگی میں کبھی کسی فلم کا سکرین پلے نہیں لکھا تھا لیکن اس فلم کے سکرین پلے کے لیے وہ بہترین سکرین پلے کا آسکر جیت گئے۔ بہ قول ماریو پوزو اس فلم کی کامی ابی اور آسکر جیتنے کے بعد ماریو پوزو نے باقاعدہ سکرین پلے لکھنے کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس ضمن میں جو پہلی کتاب ان کو میسر آئی اس کے پہلے صحفے پہ لکھا تھا کہ اچھا سکرین پلے لکھنا سیکھنے کے لیے “گاڈفادر” کے سکرین پلے کا مطالَعہ کریں، یہ پڑھ کر ماریو پوزو نے سکرین پلے لکھنے کا ہنر سیکھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔
اس فلم پہ اتنا کچھ کہا، لکھا، پڑھا اور سنا جا چکا ہے کہ شاید ہی اس فلم کا کوئی پہلو ہو جسے اہلِ علم اور اہل ذوق نہ جانتے ہوں، اس فلم میں گاڈفادر کا مین کردار دنیا کے عظیم ترین اداکاروں میں سے ایک مارلن برانڈو نے نبھایا اور ان کے ساتھ ایک نوجوان اداکار ال پچینو کو ان کے سب سے چھوٹے بیٹے اور فلم کے دوسرے مین کردار مائیکل ویٹو کارلیون کے لیے چنا گیا۔
مارلن برانڈو اور ال پچینو ان دونوں کرداروں کے لیے کبھی بھی پہلا انتخاب نہ تھا بل کہ کم و بیش پوری انڈسٹری کی جانب سے یہ کردار ٹھکرائے جانے کے بعد یہ کردار ان تک پہنچے۔ ال پچینو ان دنوں وہ ال پچینو نہ تھے جو آج ہیں بل کہ ایک نیا چہرہ تھے اس وجہ سے پیراماؤنٹ ان پہ اعتماد کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار تھی لیکن پھر کوپولا کی وجہ سے بالآخر یہ کردار ال پچینو کو مل گیا۔ آج گاڈفادر کو اداکاری کے مِعیار پہ سند مانا جاتا ہے اور اس کی وجہ مارلن برانڈو اور ال پچینو کی جان دار اداکاری ہے، فلم کے دونوں مین کرداروں نے اس فلم میں حقیقت سے قریب تر اداکاری کے ایسے جوہر دکھائے کہ لگتا ہی نہیں یہ مارلن برانڈو اور ال پچینو ہیں بل کہ ہر سین میں ویٹو کارلیون اور مائیکی کارلیون نظر آتے ہیں۔
گاڈفادر کا ژانرا “گینگسٹر” ہے لیکن میں اسے ایک “فیملی ڈراما” مانتا ہوں، اس فلم کی کہانی نیویارک کی سب سے مضبوط مافیا فیملی کی کہانی ہے جس کے سربراہ کو “گاڈفادر” کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ ایک منشیات کی ڈیل سے انکار “گاڈفادر” اور اس کے خاندان کی زندگی کو ایک لمحے میں بدل کر رکھ دیتا ہے، وہ گاڈفادر جس کے نام سے دنیا کانپ جاتی تھی دن دیہاڑے اس پہ قاتلانہ حملہ ہوتا ہے اور پھر ہر طرف سے مصیبتیں اس خاندان کو گھیر لیتی ہیں ان ساری مصیبتوں سے نکلنے، خاندان کے وقار کو بحال کرنے اور باپ پہ ہوئے حملے اور بھائی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے کیسے سب سے چھوٹا بیٹا نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے بوڑھے اور کم زور باپ کا کاروبار سنبھالتا ہے اور اسے واپس اپنے مقام پہ کھڑا کرتا ہے اس کہانی کا نام ہے “گاڈفادر”۔
گاڈفادر ایک ایسی فلم ہے جس نے دنیا جہاں کے فلم میکرز کو متأثر کیا ہے، اس فلم میں کہانی کی بُنَت نے دنیا کی عظیم ترین فلموں کو متأثر کیا ہے۔ کتنی ایسی فلمیں ہیں جنہیں میں جانتا ہوں جو گاڈفادر سے متأثر ہیں یا ان پہ کہیں نہ کہیں گاڈفادر کی چھاپ موجود ہے۔
اس فلم نے دنیائے سینما کو “تشدد” اور بے پناہ تشدد کو ایک نئے انداز سے پیش کرنے کا ہنر سکھایا، اس فلم نے فلم میکنگ میں نئی نئی جہتیں متعارف کروائیں جن کا اثر آج تک سینما کی دنیا پہ نظر آتا ہے۔
اس سب کے باوجود اس فلم کی شروعات سے لے کر تکمیل تک فلم کے ڈائریکٹر کوپولا اور پروڈیوسرز کے درمیان بے جا اختلافات رہے، کوپولا کے بہت زیادہ مطالبات اور مانی مانیوں سے تنگ کر پیراماؤنٹ نے کوپولا کو فلم سے ہی نکالنے کا تہیہ کر لیا لیکن یہاں مارلن برانڈو کا غصیل لہجہ کام آ گیا انھوں نے اعلان کیا کہ اگر کوپولا کو فلم سے ہٹایا جائے گا تو وہ بھی فلم چھوڑ دیں گے۔
گاڈفادر ایک ایسی فلم ہے کہ اس کے ایک ایک سین پہ ایک نشست رکھی جا سکتی ہے۔ فلم کی شروعات میں گاڈفادر سے ملنے آنے والے فریادیوں کا تانتا اور اس سب کے بیچ گاڈفادر کی بیٹی کی شادی اور اس کا ہنگامہ انتہائی عمدہ لگتا ہے، یہ سین در اصل فلم کی بنیاد بنتا ہے کہ گاڈفادر چاہے کتنا ہی سنگ دل، سفاک اور گینگسٹر کیوں نہ ہو اس کے لیے اپنا خاندان سب سے زیادہ مقدم ہے۔ جس طرح سے کوپولا نے اس فلم میں موجود “تشدد” کو دکھایا وہ قابلِ داد تھا، مائیکل کارلیون جب ہوٹل میں اپنے دو دشمنوں کو بے رحمی سے قتل کرنے کے لیے بندوق چلاتا ہے عین اسی وقت پاس سے ایک تیز رفتار ٹرین گزرتی ہے جس کی آواز میں گولی کی آواز دب جاتی ہے، یہ سین ایسا لرزہ خیز تھا کہ اس کے بعد کئی فلموں میں اس طرح ٹرین کی آواز کا استعمال کیا گیا۔
مارلن برانڈو نے گاڈفادر کے کردار کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر کر دیا آج دنیا کا کوئی ایسا اداکار نہیں جو “میتھڈ اداکاری” پہ یقین رکھتا ہوں اور برانڈو کی گاڈفادر کا گرویدہ نہ ہو۔ شاید ہی کوئی فلم میکر ہو گا جو فرانسس فورڈ کوپولا سے متأثر نہ ہو گا، مارٹن سکورسیزی سے لے کر رام گوپال ورما اور انوراگ کشیپ سے لے کر وشال بھردواج تک شاید ہی کوئی فلم میکر ہو جس نے اپنی فلموں میں “گاڈفادر ایفیکٹ” کا استعمال نہ کیا ہو۔
ناول کی طرح اس فلم نے بھی فقید المثال کام یابی اور تعریفیں سمیٹیں، اس فلم کو ایک ماسٹر پیس مانا جاتا ہے، باکس آفس پہ یہ فلم سال کی کام یاب ترین فلم ٹھہری اور اس فلم نے پانچ آسکر بہ شُمول بہترین اداکار اور بہترین فلم، جب کہ پانچ گولڈن گلوب بہ شُمول بہترین اداکار، بہترین ہدایت کار اور بہترین فلم کے ایوارڈ حاصل کیے۔ دنیائے سینما کی عظیم ترین اور کلاسک فلم “گاڈفادر” اور اس کے بنانے والوں کو سلام۔