دی گاڈ فادر اور پانامہ فیصلہ
(بینش عباس زیدی)
پاناما کیس کا فیصلہ آگیا۔کیس کے مقدمے کے549 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے کے آغاز میں مشہور ناول گاڈ فادر کا اقتباس شامل کیا گیا ہے۔۔ جس کے مطابق ہر عظیم خزانے کے پیچھے کوئی جرم ہوتا ہے۔ کامیاب جرم اس لئے نہیں پکڑا جاتا کیونکہ وہ اس انداز میں انجام دیا جاتا ہے کہ اس میں کوئی جھول نہیں ہوتا۔
مشہور ناول گاڈ فادر 1969میں شائع ہوا۔ اس کے مصنف اطالوی نژاد ماریو پوزو ہیں۔ اور 1972 میں اس ناول پر فلم بھی بن چکی ہے۔ کہانی کے مرکزی کردار مافیا ڈان اور اس کے خاندان کے پاس بے تحاشہ غیر قانونی دولت تھی جس کے کرنسی نوٹس باندھنے کے لیے ہر ماہ ڈھائی ہزار ڈالر کے ربر بینڈ آتے تھے۔ ڈان کی موت کے بعد جب غیرقانونی دولت کا تخمینہ لگایا گیا تو ہفتہ وار کمائی 44 کروڑ ڈالر سے زیادہ نکلی۔
گاڈ فادر نامی ناول میں ذہانت، فراست، ڈپلومیسی، قتل و غارت، چالاکی، بہادری اور مافیا کی زیر زمین دنیا کی سفاکیاں سب کچھ شامل ہے۔ ناول میں جج ایک کردار کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تمہاری کامیابیاں اور وہ راز جن کا تم حساب نہیں دے پا رہے دراصل وہ جرائم ہیں جس کو صیح طریقے سے جانچا نہیں جاسکا کیونکہ و سب بڑی منصوبہ بندی سے انجام دیا گیا۔
پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس ناول سے ہی اقتباس کیوں لیا گیا۔پانامہ کیس کے فیصلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ پانامہ کیس بھی گاڈ فادر کے اس جملے کے گرد گھومتا ہے۔ عدالتی فیصلے میں سوال کیا گیا کہ رقم قطر کیسے گئی؟ حسین نواز اور حسن نواز نے کم عمری میں فلیٹ کیسے خریدے ؟ لندن میں جائیداد اور دبئی میں اسٹیل مل کیسے بنی؟
عدالت اپنے سوالات پر ن لیگ کے دلائل سے مطمئن نہیں ہوئی اور وزیراعظم کے خاندان کی لندن میں جائیداد، دبئی میں گلف سٹیل مل اور سعودی عرب اور قطر بھیجے گئے سرمائے سے متعلق تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے اپنی درخواست میں الزام لگایا تھا کہ نواز شریف طویل عرصے تک اقتدار میں رہے۔ وزیراعظم اور ان کے خاندان نے جتنی دولت اور اثاثے بنائے ہیں وہ غیر قانونی اور ناجائز ذرائع سے بنائے گئے۔
وکیل رہنما عاصمہ جہانگیر نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے کی ابتدا گاڈ فادر سے کی گئی، اگلا فیصلہ چارلی ولسن سے شروع ہونا چاہیئے۔
پاناما لیکس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی پہلی لائن نے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کیونکہ کامیاب جرم اس لئے نہیں پکڑا جا سکتا کیونکہ وہ اس انداز میں سرانجام دیا جاتا ہے کہ اس میں کوئی جھول نہیں ہوتا۔