گُڈ بائے مسٹر چپس پر بے جا تنقید
از، نبراس سہیل
جیمز ہلٹن کے ناول گُڈ بائے مسٹر چپس کو پاکستانی کالجوں میں ہائیر سکینڈری سطح پر پڑھائے جانے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ اگر ایک طرف اس کے پچیس سال سے زائد عرصہ سے پڑھائے جانے پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے تو دوسری طرف اس پہ ایک شدت پسندانہ نظریہ سے تنقید کی جا رہی ہے۔
برائے اعتراضِ اولیٰ، یہ کتاب خود ثابت کرتی ہے کہ یہ ماڈرن فکشن میں سب سے محبوب تخلیق ہے جس نے کئی نسلوں کو اپنے سحر میں مبتلا رکھا۔ ۱۹۳۴ میں اپنی تخلیق سے لے کر آج تک یہ کتاب کبھی طباعت سے باہر نہیں رہی۔ ایک استاد کی زندگی کا سادہ زبان میں بیان طلباء کے دل کو چھو جاتا ہے اور وہ ہمیشہ کے لیے اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ اعتراضِ موئخرہ کی ضمن میں البتہ بات کو سمجھنے کے لیے ادبی رویّہ چاہیے۔ کتاب پر اعتراض اس بنیاد پر ہے کہ حقیقی زندگی کے ہیروز کو نظر انداز کر کہ ایک فرضی کردار مسٹر چپس کو پڑھنا ایک بے کار عمل ہے۔
یہ لوگ ناول گڈ بائے مسٹر چپس کی بجائے رسول اللہ ﷺ کی شخصیت اور ان کی حیاتِ طیبہ کو پڑھانے کی وکالت کرتے ہیں۔ مجھے کہنے دیجیے کہ یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے اور ایک انتہائی غیر مناسب تقاضہ ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ گڈ بائے مسٹر چپس ایک فرضی تخلیق ہے اور وہ بھی انگریزی ادب کی۔ یہ انتہائی نا معقول بات ہے کہ مذہبی شخصیات کو انگریزی ادب کی تخلیقات کی بجائے پڑھائے جانے کی بات بھی کی جائے۔ ہمارے سلیبس میں دیگر بہت سے ایسے مضامین ہیں جہاں ان کو جگہ دی جا سکتی ہے۔ کیا ہم نے یہ ان کو وہاں صحیح مقام دے دیا؟
ناول پہ کیے جانے والے اعتراضات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ چونکہ مسٹر چپس ایک فرضی کردار ہے، اس سے طالب علموں کو کیا فائدہ پہنچے گا؟ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہمیشہ سے استعاراتی کہانیاں بچوں کے ابتدائی سالوں میں اپنے فرضی کرداروں سے اخلاقی قدریں پیدا کرتی نہیں رہیں؟ مگر آئیے ، اس کو اس انداز سے دیکھتے ہیں۔۔۔کیا مسٹر چپس محض ایک فرضی کردار ہی ہے؟ یا کوئی حقیقی مسٹر چپس تھا جس نے جیمز ہلٹن کو متاثر کیا؟ یہی سوال کئی بار جیمز ہلٹن سے بھی کیا گیا۔ ہلٹن کا جواب بتاتا ہے کہ کوئی بھی کردار جو ایک مصنف تخلیق کرتا ہے، دراصل کہیں نہ کہیں ہمارے ارد گرد موجود ہوتا ہے۔ ہلٹن کے والد کے علاوہ’ مسٹر ٹاپلس‘، جنھوں نے ہلٹن کو لاطینی ، تاریخ، اور انگریزی پڑھائی۔ اور ’لیز‘ سکول کے’ مسٹر بلگارنی‘، اس انتہائی محبوب کردار مسٹر چپس میں جھلکتے ہیں۔ ادب کا طالب علم کسی بھی کردار کو دراصل حقیقت کا آےئنہ جان کر اس سے سیکھتا ہے۔یہی طریقہ ہوا کرتا ہے۔
آئیے اب ناول پر تکنیکی اعتبار سے بات کرتے ہیں کہ کیوں یہ ناول ہمارے نو جوان ذہنوں کے لئیے ایک اچھا انتخاب ہے۔
۱۔۔۔کیا انگریزی ادب میں کوئی اور ایسا ناول موجود ہے جو ’گڈ بائے مسٹر چپس ‘ کی جگہ پڑھایا جا سکے؟ یقیناً، آپ کو لاتعداد ایسی تحریری تخلیقات ملیں گی۔ چونکہ ہم ناول کی بات کر رہے ہیں ( اس صنف کی جس کا انتخاب گیارہویں جماعت میں افسانے اور ڈرامے پڑھ لینے کے بعد کیا گیا) تو میں بھی اسی صنف یعنی ناول کی بات تک محدود رہوں گی۔ اصل کام یہ ہے کہ انگریزی ادب سے ایسا ناول منتخب کیا جائے، جو نوجوانوں کی اس حسّاس عمر میں ہمارے اصولوں کے مطابق اخلاقی تربیت کرتا ہو۔
چارلس ڈکنز کے ناول ان کے مضامین کے لحاظ سے عموماً ابتدائی جماعتوں میں پڑھادیے جاتے ہیں ( اکثر مختصر کہانی کی صورت) ۔ جین آسٹن عمومی طور پہ طالبات کو متاثر کرتی ہے اور آئنندہ سالوں میں پڑھے جانے کے لیے زیادہ موضوع معلوم ہوتی ہے۔ دیگر نصابات ( جو دیگر کالجوں میں پڑھائے جا رہے ہیں مثلاً انڈین اور برٹش کریکلم ) میں پڑھائے جانے والے ناولوں میں شامل ہیں، H.G. Wells کا سائنس فکشن ناول ’ دا اِنوزیبَل مین‘ ۔۔۔جہاں ایک سائنسدان غیر مرئی وجود میں تبدیل تو ہو جاتا ہے مگر پھر اس حالت کو بدل نہیں پاتا۔ ’میٹا مورفوسس‘ ۔۔۔فرانز کافکا کی لکھی ناولٹ بھی اس سطح پر پڑھائی جا رہی ہے، جس میں ایک دن مصنف صبح جاگتا ہے تو خود کو ایک مکڑے کے روپ میں پاتا ہے اور یوں معاشرے سے کٹ جاتا ہے۔ ایملے برونٹے کا ’وودرنگ ہائٹس‘ ۔۔۔متنازعہ ناول گردانا جاتا ہے۔اس میں موجود ذہنی اور جسمانی ظلم کی سفّاک منظر کشی اس عمر کے بچوں کے لیے مناسب نہیں۔
اگر آپ تھومس ہارڈی کی طرف جائیں، تو اس کے یہاں موجود واضح قنوطیت نوجوانوں کی دلچسپی کی راہ روکتی ہے ۔ان کالج کے طلباء کی بالیدہ ہوتی سوچ ’روولڈ ڈیہل‘ او ر ’ اینِڈ بلائٹن ‘ کے تخیلاتی دنیا پر مشتمل ماڈرن ناولوں سے تسکین نہیں پاتی۔ دیگر پڑھائے جانے والے ناولوں میں سے ’سیلاس میرینر‘ کی پیچیدہ کہانی ایک بہتر آپشن ہے نہ ہی اس عمر کے طلباء کو ’سکارلٹ لیٹر‘ ۔۔زنا کے موضوع پہ لکھے گئے ناول سے متعارف کرا یا جا سکتا ہے۔ ( وہ بھی اگر ہم امریکی ادب کو شامل کرنے کی بات کریں تو) ۔ ہینری فیلڈنگ کی ٹام جونز میں پیش کردہ جنسیت اس عمر کے لیے ایک اور ناقابلِ فہم موضوع ہے۔
میرا خیال ہے کہ اس ناول کو ہٹا دینے کے سوال کی بجائے، بحث اس بات پہ کی جانی چاہیے کہ ہمیں اس کتاب کو کیوں پڑھنا چاہیے یا یہ کہ ہم گزشتہ تین نسلوں سے اسے کیوں پڑھ رہے ہیں؟ (پھر بھی اس کا سحر قائم ہے)۔ ادب میں کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ مصنف کا قلم زندگی کا ہر پہلو ؛ جوانی، عشق، شادی، ایک عام آدمی کی خوبیاں اور خامیاں، تاےئد اور تردید کا یوں حق ادا کرے کہ کسی مقام پر جنسی میلان کی طرف لے کر جائے نہ ہی بہت سخت اخلاقی تعلیم کا تاثر دے۔ اس کتاب کی یہ ایک منفرد خوبی ہے۔ مسٹر چپس کی سادگی ایک اضافی جوہر کی طرح ابھرتی ہے ،اس کی شریف النفسی اور دانا رہبری کے تانے بانے میں بنی۔۔ جو طلباء کو ایک استاد سے محبت اور احترام کے رشتے میں باندھ دیتی ہے او استاد کے کردار کو ہمیشہ کے لیے امر کردیتی ہے۔
قاری ، ایک عمر رسیدہ ریٹائرڈ سکول ٹیچر کی یادوں کے بہاؤ میں بہتا چلا جاتا ہے۔۔ماضی اور حال کے بیچ ہچکولے کھاتا، غم اور خوشی، جنگ و امن کے بین بین زندگی کے بوجھ کو محسوس کیے بغیر۔۔ اور یوں یہ ناول زندگی کے درس دیتا چلا جاتا ہے ۔۔خاموشی اور متانت سے ۔۔ اپنے قاری کو جذباتی سطح پر مضبوط اور باعمل بناتا جاتا ہے۔
۲۔۔۔ دوسری بات جو قابلِ غور ہے وہ یہ کہ؛ کیا ہم ناول کے ساتھ صحیح طریقے سے بر سرِ پیکار ہیں؟ معذرت کے ساتھ۔۔جواب نفی میں ہے۔ ہمارے امتحانی نظام نے اس سادہ مگر پر تاثیر کتاب کو تسخیر کرنے کے مواقع محدود کر رکھے ہیں۔ ذرا سوال دیکھیے جو امتحانی پرچوں میں پوچھے جاتے ہیں: مسٹر ویدربی نے سکول (برووک فیلڈ) کس سال میں جوائن کیا؟ کس سال میں مسٹر چپس ریٹاےئر ہوئے؟ برووک فیلڈ نے انھیں ریٹاےئرمنٹ کے موقع پر کیا تحائفدیے؟ یا یہ کہ پوچھا جائے کہ گریٹ گیبل جاتے ہوئے کون مسٹر چپس کے ساتھ تھا؟ یہ سوال طلباء کو کسی بھی طرح کا علمی فائدہ دینے سے قاصر ہیں۔ یہ سوا ل اکتسابی درجوں میں سب سے نچلی سطح کے ہیں جو کہ محض ناول کا سطحی علم پرکھتے ہیں جس کا تعلق بچوں کی یادداشت سے ہے۔
ناول کو اس انداز سے دیکھا جائے تو یہ محض ایک ریٹائرڈ سکول ٹیچر کی بوسیدہ کہانی دکھتی ہے۔ کسی بھی ناول کو پڑھنے کا مقصد صرف اس کی سطحی تصویر دیکھنا ہر گز نہیں ہوتا بلکہ اس کے تناظر میں زندگی کو دیکھنا ہوتا ہے۔ کہانی کی زیرِسطح ایک مصنف کا فلسفہ اپنے کرداروں اور واقعات کے ذریعے اس سے بڑھ کر کچھ بیان کر رہا ہوتا ہے۔بجائے ایسے سوالوں کے جو کہ طلباء کی یادداشت کی جانچ کریں، ایسے سوال کیے جانے چاہےءں جو انھیں تنقیدی جائزے اور ریسرچ کی طرف لے جائیں۔مثال کے طور پہ کچھ ایسے موضوعات کو اجاگر کیا جا سکتا ہے ۔۔۔ کیتھرین کا تدریس کے شعبے کو سب سے معتبر شعبہ بیان کرنا ان الفاظ میں،’ سکول ماسٹر ہونا ایک انوکھی، ایک اہم بات ہے‘،۔۔۔ اساتذہ کے درس و تدریس کے دوران ہلکے پھلکے مزاح کی اہمیت۔۔۔مسٹر چپس کی اپنے طلباء کے ساتھ گہری جذباتی وابستگی کے حوالے سے اساتذہ اور طلباء کے تعلق پر بات چیت۔۔۔کیتھرین کا کردار بمقابلہ انگلینڈ کے انیسویں صدی میں آزادیء نسواں پر دقیانوسی خیالات ۔۔۔ برنارڈ شاء ، ولیم مورس اور ابسن کے ترقی پسند افکار جنھوں نے کیتھرین اور اس جیسے بیشمار لوگوں کو متاثر کیا۔۔۔ وہ فرق جو جیمز ہلٹن روائتی طرزِ تعلیم اور جدید طرزِ تعلیم میں دکھاتا ہے۔۔۔اور سب سے بڑھ کر آج کا سب سے اہم مسئلہ ’کمرشلائزڈ ایجوکیشن ‘کا۔
یہ ناول طلباء کے مابین اعلیٰ درجے کی بحث کے لیے ایک زمین مہیّا کرتا ہے۔ اس ناول کی تعلیم، اس سے سیکھے حقائق کے ذریعے بین النصابی موافقت پیدا کرنے کے لیے خاصی گنجائش رکھتی ہے۔
اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ناول کے پسِ پردہ چلنے والے جنگی حالات و واقعات۔۔۔ معرکہ لآراء واقعہ ، جنگِ عظیم اوّل اور دنیا پر اس کے جغرافیائی، سیاسی، اور معاشرتی اثرات کو زیرِ بحث لاتا ہے۔ جنگِ عظیم میں انگلینڈ اور فرانس کے الحاق پر جو قریباً ایک صدی ایکدوسرے سے لڑتے رہے تھے مسٹر چپس کے گہری سوچ میں ڈوبے الفاظ ؛ ’ حیران کن بات ہے نا! کس طرح ایک نسل کی قربانیاں ، دوسری نسل کی قربانیوں کو ضائع کر دیتی ہیں‘ ۔۔۔یہ الفاظ کاروبارِ جنگ کی تلخ حقیقت بیان کر جاتے ہیں۔ آج کے دور کی جنگی صورتحال اور انتہا پسندی اس موضوع کے تحت زیرِ بحث لائی جا سکتی ہے۔ ۔۔ ’ آپ وقعات کی اہمیت کا اندازہ ان کے شور سے نہیں لگا سکتے‘۔۔۔ بم دھماکوں کی آواز پر کہے گئے مسٹر چپس کے یہ الفاظ نوجوان ذہنوں کو کئی طرح کی دانائی عطا کر جاتے ہیں۔
ملکۂ وکٹوریہ نے ۱۸۵۱ میں ’ عظیم نمائش‘ کا جوآغاز کیا ، آج وہی مشینیں دنیا کو ٹیکنالوجی کی نمائشات کے ایک تسلسل کے ذریعے تیز رفتاری سے آگے بڑھتی آئندہ رونما ہونے والی اکسپو۔۲۰۲۰ کی طرف لے جا رہی ہیں جو دبئی میں منعقد کی جائے گی۔ جس کی کہ پوری دنیا منتظر ہے۔ ناول کو آج کی اس بڑی تصویر کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ناول کے مطابق، مسٹر چپس کی طویل عمر، اس بیسویں صدی کی جدید دنیا کو ابھرتے اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے پیش رفت کرتے سالوں کا احاطہ کرتی ہے۔ ٹیکنالوجی سے قبل اور بعد کے دور کا ایک نہایت احسن تقا بلی جائزہ نوجوان ذہنوں کو ایک تحقیقی سفر پہ لے جا سکتا ہے۔
ناول کا سب سے خوبصورت پہلو، ہیروئن کیتھرین برجز کا مختصر کردار، یہ دکھاتا ہے کہ کیسے ایک سچا عشق انسان کو بدل کہ رکھ دیتا ہے۔ مسٹر چپس کے روائتی ، سخت مزاج ، مردانہ بالادستی کے حامل خیالات کی جدید ، روادار اور ترقی پسند شخص میں تبدیلی ناول کا ایک سخت پہلو ہے جسے نہایت ہی آسانی سے بیان کر دیا گیا۔ یہ اس ناول کا کمال ہے۔ ایسا مرد معاشرے میں عورت کے کردار۔۔۔عورت کا اپنی منطق کے اظہار ۔۔۔اور مواقع کے حصول کے حق کو تسلیم کرتا نظر آتاہے۔ ناول کا یہ پہلوآج کے روشن خیال ذہنوں کے لیے بحث کے کئی در وا کرتا ہے۔کیا حقوقِ نسواں کے یہ مسائل پاکستان میں ہمیں درپیش نہیں؟
حیرت انگیز طور پر، جیمز ہلٹن، تعلیمی کاروبار پر اس ناول کے ذریعے ایک صدی قبل روشنی ڈالتا ہے، جو آج ہر فرد کو متاثر کر رہا ہے۔ کیا یہ ہمارے آج کے تعلیمی مسائل کی بات نہیں؟ ہم مسٹر چپس کے الفاظ کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔۔۔’ وقار اور رواداری جیسی اقدار آج کے جنونی دور میں ناپید ہوتی جا رہی ہیں‘۔۔۔۔ ناول کے کلائمیکس میں، آج کے دور کا جدید طرزِ تعلیم کا بڑھتا ہوا رجحان جو اس تعلیمی کاروبار کو چلا رہا ہے، بڑے ہی متاثرکن انداز میں پیش کیا گیا۔ طلباء کے مابین روائتی طرزِ تعلیم بمقابلہ جدید طرزِ تعلیم جیسے موضوع پر بحث کے در وا کیے جا سکتے ہیں۔ دونوں ہی کے مثبت اور منفی پہلووءں پر ناول کے ذریعے بات کی جا سکتی ہے۔۔۔ ایک استاد کا رتبہ، وقار اور ’اختیار‘ جو آج کے جدید دور میں چیلنج کیا جا چکا ہے، اس پر ناول میں بڑے پرزور انداز میں آواز اٹھائی گئی ہے ۔ استاد کے احترام کے استحقاق کو چیلنج کرنے والا ، غیر معقول جدید اندازِ فکر، اس کتاب کا سب سے اہم موضوع ہے ۔ اس اخلاقی قدر کو ناول کے ذریعے بڑی خوبصورتی سے نوجوانوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ ہم ایک استاد کو لیکچر کے دوران، اپنے شاگردوں کو بے ضرر مزاح سے محظوظ کرتے دیکھتے ہیں جس کے بدلے وہ شاگردوں سے عقیدت سمیٹتا ہے۔
’کبھی مجھے یاد کیا کرنا۔۔۔ میری یادوں میں تو آپ یقیناً رہو گے‘۔۔۔ مسٹر چپس کے یہ خوبصورت الفاظ اپنے اساتذہ کے لیے اُس جذباتی یاد کے عکّاس ہیں جس کے حصار میں ہم تمام عمر رہا کرتے ہیں۔
بقول لانجائنس کے، ’اصل فن، فن کو پوشیدہ رکھنے میں ہے‘ ۔۔۔ ہم یہ خراجِ تحسین جیمس ہلٹن کو پیش کر سکتے ہیں جس نے بظاہر ایک سکول ماسٹر کی کہانی بیان کی ، جو اپنے روزو شب اپنے طلباء کے ساتھ گزارتا ہے ، مگر یہ کہانی درپردہ کئی فکر انگیز خیالات کو جنم دیتی ہے۔۔ اگر اس کتاب کو محض سطحی اعتبار سے بھی دیکھا جائے، تو بھی یہ طلباء کو بہت سے سبق سکھاتی نظر آتی ہے۔ یہ ناول انھیں زندگی کے سفر پہ لے جاتا ہے ۔۔۔جہاں وہ سیکھتے ہیں کہ صرف جسمانی طور پہ مضبوط یا ذہنی طور پہ شاطر شخص ہی ’ہیرو‘ نہیں ہواکرتا۔۔۔ جہاں وہ یہ سیکھتے ہیں کہ زندگی ظاہری چکا چوند نہیں بلکہ انسان کے اس دھرتی پر سادہ، خا موش اور باوصف وجود کا نام ہے۔۔ ۔جہاں وہ اپنے اساتذہ پہ اعتماد کرنا سیکھتے ہیں کہ یہی وہ گہرا اور پاکیزہ تعلق ہے جو تمام عمر ایک معتبر یاد اور راہنمائی کی صورت ان کے ساتھ چلنے والا ہے۔
اس بات کا اختتام یہ کہتے ہوئے کرونگی کہ وسیع مطالعہ کی عادت کو پروان چڑھانے کے لیے ایک یا دو مزید ناول ( انگریزی یا امریکی ادب سے) شامل کیے جا سکتے ہیں۔ مگر جہاں تک گڈ بائے مسٹر چپس کی بات ہے، یہ ہمارے بچوں کے لیے انگریزی ادب سے ایک بہترین انتخاب ہے۔
( انگریزی میں آرٹیکل پڑھنے کے لیے بلاگ کے انگریزی سیکشن میں جائیے)
( ناول کی ڈرامائی تشکیل سے حظ اٹھانے کے لیے نیچےدیے گئے لنک کو کلک کیجیے ۔۔۔ اس پرفارمنس میں پسِ پردہ دبئی میں موجود پاکستانی کالج کے تمام طلباء ہیں۔۔۔ تحریر سے، سیٹ ڈیزائننگ اور کاسٹیومز سے ڈائرکشن تک۔۔۔ جبکہ انوویشن کے طور پہ اساتذہ سے اسٹیج پر پرفارم کرایا گیا)