کہیں آپ کو پرائیڈ آف پرفارمنس تو نہیں مل گیا؟
محمد شہزاد
یہ تحریر پچھلے سال کی ہے جب ہمارے دوست، رہبر اور ناصح وجاہت مسعود (جنہیں ہم احترام میں وجاہت بھائی اور پیار میں نہ جانے کن کن القابات سے نوازتے رہتے ہیں اور وہ چنداں برا نہیں مانتے) کو بدنام زمانہ پرائیڈ آف پرفارمنس ( تمغہ حسنِ کارکردگی) ملا تھا۔ اسے انہوں نے اپنی ویب سائٹ ’ہم سب‘ پر نہیں چھاپا۔ درست فیصلہ تھا۔
کوئی بھی درویش اپنی تعریف خود نہیں چھاپتا۔ ہم بھی بھول گئے۔ آج فائل ایکسپلورر میں کوئی چیز تلاش کرتے کرتے یہ مل گئی ۔ موجودہ حالات کے پیشِ نظر کچھ ردو بدل کیا گیا ہے۔
وجاہت بھائی کو پرائیڈ آف پرفارمنس مل گیا! پہلے تو یقین نہ آیا۔ کیلینڈر دیکھا کہ کہیں یکم اپریل تو نہیں۔ اپنے دوستوں سے کوئی بعید نہیں۔ کیا معلوم اپریل فول منانے کے لیے فیس بک پران کی تصویر پرائیڈ آف پرفارمنس کے ساتھ لگا دی ہو۔ مگر یقین کرنا پڑا جب ڈان جیسے معتبر روزنامے میں یہ خبر پڑھی کہ سرکار نے ان کو صحافتی خدمات کے صلے میں یہ ایوارڈ دے دیاہے۔
لیکن دل پھر بھی مطمئن نہ ہوا۔ سوچتا رہا کہ کیوں ملاانہیں یہ ایوارڈ؟ یہ تو بہت عمدہ لکھتے ہیں۔ انتہائی قابل ہیں۔ انگریزی اور اردو دان ہیں۔ صاحبِ علم ہیں۔ سچ لکھتے ہیں۔ لبرل ہیں۔ سیکولر ہیں۔
ایسی باتیں کہتے ہیں جو ریاست اور حکومت کو ہضم کرنا مشکل ہوتی ہیں۔ ہاں خبر اگرکچھ ایسے ہوتی کہ راتوں رات بھائی لوگوں نے انہیں بیڈ روم سے اٹھا لیا ہے، نجم سیٹھی کی طرح اور اب غداری کا مقدمہ چلے گا ۔ یا آتے جاتے ان کے بستے سے دو بوتل شراب برآمد ہو گئی ہے تو ہمیں حیرت نہ ہوتی۔ پرائیڈ آف پرفارمنس اور وجاہت مسعود! یقین نہیں آتا!
ہمارے دوست سرمد صہبائی نے واشنگٹن ڈی سی ساؤتھ ایشین فلم فیسٹیول 2016 میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ملنے پر ہم سے کہا: یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ مجھے کوئی پاکستانی ایوارڈ نہیں ملا!
پرائیڈ آف پرفارمنس تو ایسے لکھاریوں، مراثیوں یا بھانڈوں کو ملتا ہے جو پرلے درجے کے نالائق ہوں؛ اول درجے کے خوشامدی ہوں اور جوتے چاٹنے اور دم ہلانے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہوں۔ وجاہت بھائی میں تو دور دور تک ایسا کوئی گن موجود نہیں۔ پھر بھی انہیں مل گیا! کیوں!
پھر سوچ نے پلٹا کھایا اور زبان سے نکلا شکریہ عدالتِ عظمیٰ! یہ یقیناً صادق اور امین والی شق کی ایک کڑی ہو گی۔ کیونکہ نواز شریف کی عدلیہ کے ہاتھوں رخصتی کے بعد اب پاکستان وہ پاکستان نہیں رہا۔ بدل گیا ہے۔ تاریخی فیصلے نے نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے ۔ لہٰذا اب ایوارڈ چمچہ گیری کے بجائے اہلیت پر ملیں گے۔
لیکن یہ صرف ہمارا خیال تھا۔ بہرحال کوئی چارہ نہ تھا سوائے اس کے کہ سمجھوتہ کرلیا جائے اس حقیقت سے کہ وجاہت بھائی کو واقعی یہ ایوارڈ مل گیا ہے۔ سو دل پر پتھر رکھ کر کر لیا یقین !
اب اگلا مرحلہ یہ تھا کہ ان سے اظہارِ افسوس کیا جاوے یا مبارکباد دی جاوے! دو دوستوں والا قصہ ذہن میں آیا۔ دونوں پائے کے شاعر تھے۔ ایک کو پرائیڈ آف پرفارمنس مل گیا۔ دوسرے کو نہ ملا۔ جسے ملاوہ روزانہ دوسرے کو فون کرتا اور ایک ہی سوال پوچھ کر فون بند کر دیتا۔
سوال تھا: ’ابے تجھے مل گیا پرائیڈ آف پرفارمنس ؟‘ دوسرا کہتا ’نہیں‘ ۔ اب کب تک کوئی یہ بھانڈ پن برداشت کرتا۔ ایک دن تنگ آ کر دوسرے نے پوچھ ہی لیا کہ بھائی تجھے مسئلہ کیا ہے۔ کیوں تو روزانہ فون پر ایک ہی سوال کرتا ہے اور جواب ’نہیں‘ پا کر فون بند کر دیتا ہے۔
ایوارڈ یافتہ شاعر نے جواب دیا : ’یار اصل میں یہ ذلت اکیلے برداشت نہیں ہو رہی!‘ خیر ہم سوچ رہے تھے کہ انہیں فون کیا جائے اور مبارک باد دی جائے۔ مگر نہلے پہ دہلا۔ ان کا فون آ گیا ۔ نہ سلام نہ دعا۔ فوراً یہ سوال داغ دیا: ’کیا آپ کو پرائیڈ آف پرفارمنس مل گیاہے!‘
مزاح ایک طرف۔ سچ تو یہ ہے کہ پرائیڈ آف پرفارمنس ایک بے وقعت ایوارڈ بن چکا ہے۔ آج کی تاریخ میں کسی کی قابلیت اور اہلیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ کہیں اسے پرائیڈ آف پرفارمنس تو نہیں ملا ہوا! مجھے سرمد صہبائی کا ایک قصہ یاد آ رہا ہے۔
جنرل ضیاء کا زمانہ تھا۔ جنرل کے ایم عارف ضیاء کے چہیتے تھے۔ یہ حضرت شاعر بھی تھے۔ کسی ملاقات میں سرمد کو کہہ بیٹھے کہ شاعروں اور ادیبوں کے لیے ضیاء حکومت ایک سونے کا قلمدان بطور ایوارڈ جاری کرنے کا سوچ رہی ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے۔ سرمد نے کہا کہ جناب بہت اچھا قدم ہے۔ کم از کم اتنا تو آسانی سے پتہ چل جائے گا کہ کس کس کو نہیں پڑھنا! جنرل صاحب نے سر ہلادیا۔ یقیناً ان کے سر سے گذر گیا ہو گا جواب!
ایوارڈوں کے ساتھ کھلواڑ صرف پاکستان میں نہیں ساری دنیا میں ہو رہا ہے۔ خود ہی دیکھ لیں : اوبامہ کو امن کا نوبل انعام۔ اوبامہ خود پریشان ہو گیا کہ اس نے ایسا کیا کیا ہے جو نوبل یافتہ بنا دیا گیا ہے۔
وجاہت مسعود اور ان کے پائے کے لکھاریوں کا فن پرائیڈ آف پرفارمنس سے نہیں جانچا جا سکتا۔ یہ پرائیڈ آف پرفارمنس جیسے دو ٹکے کے ایوارڈ کے لیے عزت کا مقام ہے کہ وجاہت یا ان جیسے لوگوں کے پاس جا رہا ہے!
ہر تخلیقی شعبے سے منسلک لوگوں کے لیے ایسا ایوارڈ ہونا چاہیے جو انہیں اس فن سے جڑے لوگوں کی سفارشات سے ملے۔ ایک فن کار کی دوسرے کو بے ساختہ دادہی اصلی ایوارڈ ہے۔