یونانی فلسفے و سائنس کے عرب ترجمہ کاروں کے انتہائی اہم ذیلی اثرات
(ترجمہ: یاسر چٹھہ)
ضروری نوٹ:
اس مضمون کا اصل انگریزی متن aeon.com پر شائع ہوا۔ اس سلسلے میں مصنف کے تمام حقوق محفوظ ہیں۔ مصنف، پیٹر ایڈمسن، لڈوگ میکسمیلین یونیورسٹی، میونخ میں فلسفہ کے پروفیسر ہیں۔ آپ بہت ساری کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں The Arabic Plotinus (2002) Great Medieval Thinkers: al-Kindi (2007) اور Philosophy in the Islamic World (2016) نمایاں ہیں۔ آپ History of Philosophy نام کے پاڈکاسٹ (podcast) کی میزبانی بھی کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(پیٹر ایڈمسن)
قدیم یورپ کے بہترین فلسفیوں میں سے زیادہ تر ذریعہ اظہار یونانی زبان تھی۔ رومیوں کی بحیرہ روم کے ارد گرد کے علاقوں کی فتح، اور مظاہر پرستی (paganism) کے زمانے کے بیت جانے کے بعد بھی فلسفہ کلاسیکی یونانی ثقافت کے ساتھ مضبوطی سے منسلک رہا۔ رومی دنیا کے سربرآوردہ مفکر مثلا، سیسرو اور سینیکا بھی یونانی فکریاتی ادب کے اندر ہی گندھے تھے۔ یہاں تک کہ سیسرو تو ایتھنز بھی گئے تاکہ وہاں اپنے لئے فلسفے کے مرشدوں کا سا درجہ رکھنے والا اصحاب کو خراج تحسین پیش کرسکیں۔ اس مشاہدے میں بھی بہت معانی ڈھکے ہیں کہ شہنشاہ مارکس اوریلیئس (Marcus Aurelius) نے اپنے عمیق ترین خیالوں کے اظہار کے لئے بھی یونانی زبان کو ہی منتخب کیا۔ سیسرو، اور ان کے بعد بوئتھیئس (Boethius) نے لاطینی زبان میں فلسفے کی روایت کو قائم کرنے کی اپنے طور پر بہت کوششیں کی۔ لیکن ازمنہ وسطٰی کے اولین سالوں میں صورتحال یہ تھی کہ یونانی فکریات کا جس قدر حصہ بخرہ لاطینی میں میسر تھا وہ صرف جزوی اور بالواسطہ طور پر ہی کسی حد تک لاطینی زبان کی آغوش میں پہنچنے میں کامیاب ہوا۔
البتہ دنیا کے کچھ اور گوشوں میں صورتحال ایسی نا تھی، بلکہ کافی بہتر تھی۔ سلطنت رومہ کے مشرقی حصے میں یونانی زبان بولنے والے بازنطینی باشندے، افلاطون اور ارسطو کی تصنیفات کو ان کی اصل زبان میں پڑھنے پر اس وقت بھی قادر تھے۔ اسلامی دنیا کے فلسفیوں کو بھی کلاسیکی یونانی ادب کے دانشی ورثے سے غیر معمولی حد سے بھی کسی قدر بڑھ کر رسائی حاصل تھی۔ دسویں صدی کے بغداد میں عربی زبان کی خواندگی کے قابل کسی فرد کو ارسطو کی تصنیفات سے کسی طور بھی ایسی رسائی سے کم تر ہر گز نا تھی جیسی آج کسی انگریزی زبان کی خواندگی کے حامل فرد کو میسر ہے۔
یہ ترجمہ کاری کی اس مالی طور پر کشادہ دل استعانت کی مرہون منت تحریک کی دین تھی۔ ترجمہ کاری کی یہ روایت آٹھویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں عباسی دور خلافت میں رواں ہوئی۔ یہ تحریک اس قدر بلند سطحوں پر سرپرستی کی حامل تھی کہ اس میں خلیفہ اور اس کے خاندان کے لوگ بھی مالی معاونت کرتے تھے۔ اس تحریک کا مطمح نظر، یونانی فلاسفہ اور سائنسی علوم کو اسلامی ثقافت کے عین بیچ لا کھڑا کرنا تھا۔ ان کی اس وقت کی سلطنت ( یا خلافت کہہ لیجئے) کے پاس اس اہم کام کے سرانجام دینے کے لئے مالی اور ثقافتی، ہر دو قسم کے، انتہائی ضروری وسائل و ذرائع اور حالات میسر تھے۔ قدیم زمانے سے لے کر اسلام کے بام عروج پر آنے کے وقت تک، عیسائی علماء میں یونانی بطور علمی اور دانش کی زبان کے خود کو زندہ رکھے ہوئے تھی؛ اس بابت ملک شام کی صورتحال بطور مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ اس لئے جب مسلمان امراء اس فیصلے پر پہنچے کہ انہوں نے یونانی سائنسی علوم اور فلاسفہ کو عربی زبان کی آغوش کے اندر لے کر آنا ہے، تو انہوں نے یونانی زبان کے ان عیسائی علماء سے ہی رجوع کیا۔ بعض اوقات تو ایسے ہوا کہ یونانی علوم کو پہلے مقامی شامی زبان Syriac میں ترجمہ کرکے لایا جاتا، اس کے بعد اسے عربی زبان میں منقلب کیا جاتا۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ یونانی زبان، سامی زبانوں کے گروہ کی زبان نہیں تھی۔ انہیں ایک زبانوں کے گروہ کے تخیل سے، دوسرے گروہ کی زبانوں کے تخیل کو گرفت میں لانا درپیش تھا۔ ان سب چیزوں سے بڑھ کر ان وقتوں میں فلسفیانہ خیالات کو عربی میں ڈھالنے کے لئے بنیادی تصورات، اصطلاحات و ذخیرہ الفاظ کی مشترک قدروں کی حامل روایت بھی موجود نا تھی۔
اسے بھی ملاحظہ کیجئے: سائنس کی سیاست یا روحانیت؟
ایک اہم سوال یہ بنتا ہے کہ آخر عباسی دور کی سیاسی اشرافیہ کو اس انتہائی مشکل البتہ نمایاں منصوبہ کی جانب کون سی چیز یا سوچ لے آئی؟ اس امر کی جزوی وضاحت بلاشبہ سائنسی علوم کے ذخیرے کی افادیت میں تھی: انجینئرنگ اور طب کے میدانوں کے بنیاد گذار درجے کی اہمیت کے متنوں کے واضح اور سامنے پڑے عملی فوائد تھے۔ لیکن یہ وضاحت ہمیں اس حقیقت کی بابت تشنہ رکھتی ہے کہ ترجمہ کاروں کو اچھی خاصی رقوم، ارسطو کی مابعد الطبیعیات یا افلوطین (Plotinus) کی Enneads جیسی کتابوں کو عربی میں ڈھالنے پر کیوں دی جانا گوارا تھی۔ یونانی سے عربی میں ترجمہ کاری کے محققین، ان میں بطور خاص دیمیتری گوتاژ کی کتاب (Greek Thought, Arabic Culture جو 1998 میں شائع ہوئی) کے مطابق اس ترجمہ کاری کے پیچھے محرکات در اصل گہرے سیاسی نوعیت کے تھے۔ عباسی خلفاء، فارس اور اپنی ہمسائیگی میں موجود بازنطینی ثقافتوں کے مقابلے میں اپنی ثقافتی بالادستی قائم کرنا چاہتے تھے۔ بہ نسبت ان یونانی بولنے والے بازنطینیوں کے جو عیسائیت کی غیر منطقی مذہبی فکریات کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے تھے، عباسی خلفاء یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ وہ کلاسیکی یونانی ثقافت کو بہتر انداز سے جاری رکھ اور آگے بڑھا سکتے ہیں
مسلمان دانشوروں کو یونانی متنوں کی مد دسے خود اپنے مذہب کو بہتر طور پر سمجھنے اور اس کا دفاع کرنے کی سبیل بھی دکھائی دی۔ ان امکانات کا ادراک کرنے والے سابقین میں سے الکندی تھے۔ الکندی (متوفی سنہ 870 عیسوی) کے بارے میں روایت یہ کہتی آئی ہے کہ وہ عربی زبان میں لکھنے والے پہلے فلسفی تھے۔ آپ اقتدار کے ایوانوں تک دسترس و رسائی رکھنے والے طبقئہ امراء سے تعلق رکھتے تھے۔ الکندی نے ان عیسائیوں کی یونانی علوم کو عربی میں ڈھالنے کے کام کی نگرانی کا فریضہ انجام دیا۔ نتائج، ملی جلی نوعیت کے تھے۔ اس حلقے کی جانب سے ارسطو کی مابعد الطبیعات کا گیا ترجمہ بعض جگہوں پر تو تقریبًا ناقابل فہم ہوجاتا ہے: (البتہ دیانت داری کا تقاضا ہے کہ ہمیں اس بات کو بھی یاد رکھنا ہو گا کہ یونانی مابعد الطبیعیات خود بھی کئی جگہوں پر فہم سے کہیں دور پرے چلی جاتی ہے۔) جبکہ اس حلقے کی جانب سے افلوطین (Plotinus) کی تحریروں کا ترجمہ اکثر مواقع پر ان متنوں کی سلاست کے ساتھ اپنی الفاظ میں بیان کرنے کی صورت میں ڈھل جاتا ہے۔ اس عمل میں بعض جگہوں پر نیا اضافی مواد بھی شامل ہوا ملتا ہے۔
یہ مشاہدہ خاص طور پر یونانی سے عربی میں ترجمہ کاری کے عمل کی خصوصیات کی بابت ڈرامائی مثالوں میں سے ایک ہے۔ لیکن کسی بھی سیاق و سباق میں فلسفیانہ متنوں کی ترجمہ کاری، اس جیسی مثالوں سے اجنبی نہیں۔ جنہیں غیر ملکی زبانوں میں فلسفیانہ تحریروں کا ترجمہ کرنے کا تجربہ رہا ہے، وہ جانتے ہی ہونگے کہ اس طرح کے موضوعات کا ترجمہ کرنے کی کوشش کرنے کے لئے اپنے زیر مطالعہ برائے ترجمہ موضوع کا گہرا فہم و ادراک ہونا ضروری امور میں سے ہوتا ہے۔ ترجمہ کرنے کے عمل کے دوران آپ کو کئی ایک مشکل فیصلے بھی کرنا ہوتے ہیں۔ آپ کو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کس طریقے سے اصل متن کو ترجمہ والی زبان میں ڈھالنا چاہئے؛ خاص طور پر جب آپ کے ترجمہ شدہ مواد سے مستفید ہونے والے قاری کی اصل متن تک رسائی قریب قریب ناممکن ہو: ان حالات میں ترجمہ کے نتیجے میں ترتیب پانے والا متن، مترجم کے ان بنیادی نوعیت کے فیصلوں کی جہت کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔
یہاں مجھے اپنی ایک پسندیدہ مثال پیش کرنے دیجئے۔ ارسطو یونانی لفظ، eidos،کی برت دو مختلف معنوں میں کرتے ہیں: جیسا کہ بناوٹ (form) کے معنی میں، مطلب یہ کہ اشیائے مادی ہیئت اور مادہ کے باہمی ربط سے مل کر بنی ہوتی ہیں؛ اس کے علاوہ ارسطو اس لفظ کو اس طرح بھی برتتے ہیں، جیسے species ہوتا ہے۔ لیکن عربی اور انگریزی زبانوں میں اس کے لئے الگ الگ دو الفاظ ہیں: صورت اور نوع۔ نتیجتا، جب بھی عربی کے ان ترجمہ کاروں کے سامنے یہ لفظ، eidos، آتا تو وہ اس گنجلک میں پڑ جاتے کہ اس کا ترجمہ وہ نوع کریں یا صورت۔ انہیں اس فیصلے کو بہرحال کرنا پڑتا تھا۔ کبھی کبھی تو یہ صورتحال سیدھی سادی شکل میں سامنے آتی، لیکن کبھی کبھی بہت ہی مبہم شکل میں۔ عربی زبان میں منقلب ہونے والی افلوطین (Plotinus) کی تحریروں کے متعلق بات تو اس اصطلاحات کے انتخاب کی بابت لئے گئے فیصلوں سے کہیں آگے چلی جاتی تھی۔ یہاں تو ترجمہ کاروں کو بنیادی متن کے مندرجات کے اندر تک ڈرامائی انداز کی دخل اندازی کرنا بھی جائز تھی۔ ایسی متن کے اندر کی دخل اندازیوں کا مطمح نظر یہ ہوتا تھا کہ کس طرح افلوطین (Plotinus) کی تعلیمات کی عقیدہ توحید پر مبنی مذہبی فکریات سے تعلق داری نبھائی اور ثابت کی جا سکے۔ ان دخل اندازیوں میں بر ترین اور سیدھے سادے اصول اولین (first principle) جیسے نو افلاطونی آدرش کی نئی مقصدیت تراشنا بھی مقصود ہوتا؛ ایک ایسا دخل جو ابراہیمی مذاہب کے طاقتور ترین خالق کائنات کے تصور پر کسی طور منطبق ہو سکے۔
اس سلسلے میں الکندی کا اپنا کیا کردار اور دخل تھا؟ دراصل اس متعلق پورے وثوق سے ہم کچھ کہنے کے قابل نہیں ہیں۔ البتہ اس بابت ایک بات تو واضح ہے کہ انہوں نے خود تو یونانی سے عربی میں کچھ ترجمہ نہیں کیا؛ کہ وہ یونانی زبان کے متعلق کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے۔ بہر کیف یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ انہوں نے عربی میں ڈھلی افلوطین (Plotinus) کی تحریروں کے اولین مسودوں کی ‘درستی’ ضرور کی؛ اس ‘درستی’ کے دوران عین ممکن ہے کہ ان کے اپنے خیالات بھی متن میں داخل ہوگئے ہوں۔ دستیاب شواہد واضح کرتے ہیں کہ الکندی اور ان کے شریک ہائے کار اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ‘سچا’ ترجمہ وہی ہوتا ہے جو ‘سچ و حق’ کا ابلاغ کرے، نا کہ ایسا ترجمہ جس کا مطمح نظر محض اصل متن سے وفا شعاری ہو۔
لیکن الکندی محض اپنے اس فہم و یقین پر مبنی ترجمہ شدہ متنوں سے بھی مطمئن نا ہوئے۔ انہوں نے اپنی طبع زاد تصنیفات کا پورا ایک سلسلہ بھی ضبط تحریر کیا۔ یہ تصنیفات عام طور خطوط و مکاتیب کی شکل میں ہوتیں تھیں جن کے مخاطبین الکندی کے مختلف سرپرست ہوتے تھے، جن میں خلیفہ تک کی ذات شامل تھی۔ یہ خطوط یونانی خیالات کی طاقت و اہمیت کو واضح کرتے تھے؛ اس کے ساتھ ساتھ یہ خطوط اس بات کو بھی باور کرانے کی کوشش کرتے تھے کہ، کیونکر یہ خیالات نویں صدی عیسوی کے اسلام کو درپیش سوالوں کے جوابات پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس عمل کے دوران الکندی کی حیثیت کلاسیکی یونانی خیالات کے تعلقات عامہ کے خدمت گذار کی سی بن جاتی ہے۔ اس چیز کا ہر گز یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ قدماء کی جانب سے یونانی زبان میں لکھے خیالات کی انہوں نے بغیر کسی نقد و فکر کے غلامانہ پیروی کی۔ بلکہ اس کے بر عکس، ان کے حلقے کی تخلیقیت کی نہج اس بات میں ہے کہ انہوں نے کسی حد تک تو ان کلاسیکی یونانی خیالات کو اختیار کیا، اور ایک حد تک ان خیالات کو کاٹ خراش کر اپنے سیاق و سباق کے حالات کے مطابق ڈھالا۔ جب الکندی نے ارسطو اور افلوطین (Plotinus) کے اصول اولین (first principle) کے آدرش کا اطلاق، قرآنی تصور کے خالق سے کرنے کی کوشش کی ہے، تو انہوں نے اس سے قبل اصول اولین اور قرآن کے تصور خالق کو منطبق کرنے والی یونانی ترجمہ شدہ تحریروں کے متنوں کے ذریعے سے اپنے لئے راہ ہموار کی ہے۔ الکندی اس بات سے بخوبی آگاہ تھے جس بات کو ہم زمانہ حال میں بھول جاتے ہیں کہ: فلسفیانہ تصنیفات کے ترجمے کا عمل بھی فلسفہ تشکیل دینے کا ایک طاقتور ترین ذریعہ ہے۔
تحرِیر دِلچسپ اور معلُوماتی ہےمگر چُونکہ مُوضوع بُہت وُسعت کا حامِل ہے اِس لِیۓ اِس پرمزِید بات ہونا چاہِیۓ-