گلناز اور اس کی نظمیں
از، نسیم سید
زندگی کے کچھ سفر، کچھ ملاقاتیں، کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جیسے کسی درخت کے تنے پر کھدے ہوئے نام ۔ وقت کی موج کا ان جانا ہاتھ موج میں آ کے ہمای ہریالی کا شریک کر دیتا ہے۔ کسی نام یا کسی ملا قات کو اور پھر وجود میں سانس لیتا وہ لمحہ اپنے جڑ سے اکھڑنے تک دھڑکتا رہتا ہے۔ ہم میں اور نئی سانسیں عطا کرتا رہتا ہے۔
یہ سفرجس نے مجھے گلناز سے ملوایا کچھ ایسا ہی تھا۔ گلناز ہُو بہ ہُو اپنی نظموں جیسی ہو گی، میں نے یہ کب سوچا تھا۔ گلناز کی نظمیں پڑھتے ہوئے سوچا کرتی تھی کتنے صحرا، کتنے باغات کتنے جھرنے کیسی کیسی شادابیاں اور ویرانیاں ہیں اس لڑکی کے وجود میں۔
نظموں کے وہ باغات جہاں تتلیاں بسیرا کرتی ہیں۔ جن میں لائیلیک کی کاسنی خوش بو کے کھیتوں کی مست مہک تھی، نارنجی رنگ اس کے لفظوں سے چھلک چھلک جاتا، لیکن پھر اچانک ہی نظم کوئی نیا موڑ لیتی اور جیسے کسی صحرا کی ریت سب ملیا میٹ بھی کر دیتی اور نظم میں لُو کےجھکڑ چلنے لگتے۔
یہ کھیت کھلیان سی، رنگ و خوش بو سی، کسی شکستہ عمارت سی جو شاعری یا جو نظمیں تھیں انہوں نےاس سے ملنے کے شوق کو آرزو بنا دیا تھا۔
ملاقات ہوئی اورادھر ادھر پڑھنے کے بجائے دھیان سے پڑھا۔ اس نظم کو جو گلناز کے نام سے جانی جاتی ہے۔
میں نے گلناز کے ساتھ تین دن گزارے اور تین دنوں میں وہ بھی جانا جو اس نے بتایا اور وہ بھی جو اس نے نہیں بتایا۔
اس نے نہیں بتایا کہ وہ کن کٹھن راستوں سے گزر کے اس مقام پر پہنچی ہے جہاں پہنچ کےانسان اپنے اندر جڑیں پکڑ لیتا ہے۔ یہ جڑیں اس کو اس طرح تھام لیتی ہیں ایسا جھماٹ پیڑ جیسا کر دیتی ہیں کہ ارد گرد کی سرد مہری،کانا پھوسی، الزام تراشیوں کے بے لحاظ موسم اس کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے۔
اب وہ ایک عجب بے خودی اور بے نیازی کے عالم میں دنیا والوں کی تمام چالاک تراکیب اور مشاق پھندوں سے بے نیازانہ گزر جاتی ہے۔ میں نے جانا کہ گلناز محبت عبادت کی طرح کرتی ہے۔
شام تھی اور ہم تین دوست۔ میں، گلناز اور حسین عابد۔ گلناز نے اندھیرا ہوتے ہی بہت سی شمعیں گھر کے کونے کونے میں روشن کیں ایک میز پر بہت سی شمعوں کے ساتھ اگر کی بتیاں جلائیں۔ تازہ گلاب میرا استقبال پہلے نشست گاہ میں اور پھرخواب گاہ میں کر چکے تھے۔
ان کی مہک سے سرشار کمرہ گلناز کے اندر مہکتی سوچوں کی داستان دھیمے لہجے میں دیر تک سنا تا رہا تھا۔
مگر اس دن محبتوں کے حضور اس کے الگ انداز سے نذرانے گزارنے کا سلیقہ مہکتی ہوئی اگر کی بتیوں کے نرم دھوئیں سے سَٖحَر ہونے تک بناتا رہا۔
مزید دیکھیے: کیا تجریدی و علامتی کہانیاں افسانے کا حصہ نہیں؟ از، نعیم بیگ
میں نے دیکھا کہ ہنستی کھلکھلاتی اقرا (گلناز کی بیٹی) نے بڑی گھمبیر سمجھ داری سے گلناز کو اپنے معصوم بچی جیسے قہقوں میں ایک ماں کی طرح پناہ میں لیا ہوا ہے ورنہ جب وہ اپنی انگریزی کی نظمیں سنا تی ہے تو اپنی حساسیت سے حیران کر دیتی ہے۔
ان دونوں کے بہت بے تکلفی کے گہرے دوستوں جیسے رشتہ میں گلناز کی اس شخصیت اور تربیت کا جو ماں ہے ایک انوکھا اور بہت خوب صورت روپ نظر آتا ہے۔
شاعری کا فن اپنی نمود میں الفاظ کا فن ہے۔ موضوع کوئی بھی ہو، فلسفیانہ ہو، یا رومانی، ذاتی ہو، یا کائناتی حرف کی بُنت ان کی مینا کاری، ان کی کشیدہ کاری ہی خیال کو حسن عطا کرتےہیں۔
گلناز لفظ و خیال کے اس ابدی رشتہ سے واقف ہے۔ اس کی نظموں کی تمثال اِدھر اُدھر سے بٹوری ہوئی نہیں بَل کہ جو لمحہ جہاں منجمد ہو جائے وہ اسے جُوں کا تُوں رکھ دیتی ہے، لیکن اس مہارت کے ساتھ کہ کسی خیال، کسی منظر، کسی سوچ کو صرف محسوس نہیں کراتی بَل کہ زندہ کر دیتی ہے دکھا دیتی۔
اس کی تقریباً ہرنظم پڑھتے ہوئے مجھے ایسا ہی تجربہ ہوا جیسے کوئی فلم چل رہی ہے اور میں دیکھ رہی اور یوں دیکھ رہی ہوں جیسے 3D فلم ہو کوئی کہ ابھی ہاتھ بڑھا کہ چھولیں گے منظر کو۔ ذرا دیکھیے:
ایک بے نام سی دو پہر ہے
ہوا چل رہی ہے
گہرے بے چین بادل کے ٹکڑے
اڑے جا رہے ہیں
پریشان سڑکوں پہ بہتے ہوئے زرد پتے
فضا میں بکھرتا ہوا کچھ غبار مسلسل
بہت دور…
پتوں پہ ہنستا ہوا تیز سورج
مگر پھر چمکتی ہوئی ایک کرن پر
چھپٹتے ہوئے گدلے بادل
کھلے آسماں پر ٹھہرتے نہیں ہیں
ہوا چلتی رہتی ہے
رکتی نہیں
درختوں پہ شاخیں
ادھر سے ادھر ڈولتی ہیں
بظاہر یہاں کوئی ہل چل نہیں ہے
مگر یہ غبار مسلسل اڑائے چلی جا رہی ہے
ہوا چلتی رہتی ہے رکتی نہیں
حیات رواں اپنے مرکز سے چمٹی ہوئی ہے
مگر ایک بے نام سی دو پہر کے
سکوت رواں میں
عجب بے کَلی ہے
اس نظم کے زندہ مناظر میں کھویا ہوا قاری اچانک مضطرب ہو جاتا ہے جب گلناز آخری منظر میں لے جا کے بے کَل کر دیتی ہے۔
سکوت رواں میں عجب بے کلی ہے۔
دکھ کی ایک بہت اونچی سے لہر اٹھتی ہے اور بہا لے جاتی ہے اپنے ساتھ ہمیں۔
وہ کوئی اداس سی بات کر رہی تھی اور میرے ذہن کے پردے پر پھر اس کی ایک نظم کی فلم چل رہی تھی۔
میز کی چکنی سطح پہ رکھی
دو آوازیں پگھل رہی تھیں
دو خوابوں کی گیلی تلچھٹ
خالی گلاس میں جمی ہوئی تھی
اور پھر اس نے رخصت چاہی
آخری پل کی… آخری مہلت
پگھلتی ہوئی آوازیں۔ خالی، گلاس میں جمی ہوئی خوابوں کی گیلی تلچھٹ، الجھے دنوں کی ملائم سی گٹھڑی، پریشان سڑکیں، جھپٹتے بادل، خیالات کے میلے، بادل کا کٹا پھٹا وجود، مخمور ہوا کا لمس، رات کی کروٹیں۔ اس کی ہر نظم ایسے ہی تمثال اور خیال کی ایسی ہی پیکر تراشی سے سجی ملے گی اور یہ اس کا اپنا مخصوص انداز ہے کہ وہ دکھ بھگتتی ہے مگر حسن سوچتی ہے۔
گلناز نے جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو اس کے سامنے لق و دق صحرا تھا، زندگی کا اور دو چھوٹے چھوٹے جسم اس کے وجود سے لپٹے ہوئے تھے۔ لہٰذا خود کو جہاں تہاں چھوڑ کے اس نے مضبوطی سے بچوں کی انگلی تھامی اور نکل کھڑی ہوئی اس صحرا کو پار کرنے کے فیصلے کے ساتھ، جو طرح طرح تھپیڑے لگانے پر تلا رہتا ہے، ایسے تنِ تنہا مسافروں کو۔
اپنے مجموعے خواب کی ہتھیلی پر کے پیش لفظ میں اس بہت لمبی تفصیل کے حوالے سے ایک چھوٹا سا جملہ ہے اس کا اور بس۔
’’سفربہت کڑا تھا اور درد، اپنی بساط سے بھی باہر’’ اس صحرا میں سفرکرنے والی ساری ذہیں عورتیں جانتی ہیں کہ انہیں دکھ درد اور مصائب کی کڑوی گولیوں کو چبائے بغیر نگل لینا چاہیے۔
گل نے بھی ایسا ہی کیا اور شعوری یا، لا شعوری طور پرخود کو خود سے الگ تھلگ کر لیا۔ یوں جیسے وہ ایسی مشین ہے جس کی یاد داشت کو پروگرام کر دیا گیا ہو اور وہ اس کے مطابق بس اپنے وقت پر اپنا کام انجام دینے کے لیے بنائی گئی ہو، اسے اور اس جیسی ماؤں کو صرف یہ یاد رہ جاتا ہے کہ ان کے ہاتھوں کو کن چھوٹی چھوٹی انگلیوں نے پکڑا ہوا ہے مضبوطی سے۔
سب کچھ جھیل جانا ان انگلیوں کے لمس کے ساتھ بہت آسان لگتا ہے۔ سو وہ بھی جھیل گئی۔ اس کی نظمیں گو مضطرب تھیں، اس میں ’’کب تلک قید رہیں گی یُوں ہی آخر کب تک؟’’ مگر گل کے پاس وقت نہیں تھا کسی ایک سے بھی مخاطب ہونے کا یا، کسی ایک کی بھی پکار پرکان دھرے۔
’’سارا وقت رشتوں کے ریشم بُنتے نکل جاتا لیکن ہر بار ساری بنت کھل کر پھر ایک ڈھیر کی صورت اختیار کر جاتی۔ سو یہ کوشش ہی ترک کر دی۔’’
اس ملاقات پر ہم نے اس موضوع کو نہیں چھیڑا کہ یہ عرصہ کتنا لمبا تھا اور کیسے کاٹا اس قید با مشقت کو۔ شاید اس لیے کہ ہم سب کے تجربات تقریباً مشترک ہیں۔ سو کچھ کہنے سننے سے فائدہ؟ مگر یہ کرم کیا کم ہے قدرت کا کہ اوپر سے جھلس جانے والے ہر فن کار کی جڑوں میں اس نے ایک خاص طرح کا نم رکھا ہے۔ شاید جو اس وجود کو بہت سنبھال کے تر و تازہ رکھتا ہے۔
گلنازکی جڑوں میں بھی یہ تاب ناک نمود مُنھ سادھے منتظر تھا۔ مناسب وقت کا کب ٹُک رک کے دم لے۔ یہ نم اور اپنی دھانی اوڑھنی ڈال دے اس کے وجود پر اور ڈھانپ لے اپنے آپ سے۔
’’اوندھے سیدھے دن بے آہٹ گزر جاتے اور کھڑکیوں پر نئے پرانے موسم اپنی تصویریں دھرتے جاتے۔ تب نظم آنگن سے نکل کر میرے کمرے میں آنا شروع ہوگئی، دکھتی رگیں سہلاتی، ادھر ادھر کونوں میں سمٹے وجود سے گرد جھاڑتی، سر گوشیاں کرتی۔ پھر کوئی بارہ برس پہلے جب کھڑکی پر چلچلاتے موسم کی تصویر دھری تھی اور میرا وجود درد سے دُہرا ہوا جاتا تھا تو نظم نے مجھے اپنا دوست بنا لیا۔ یہ بہت محفوظ رشتہ تھا۔ ایسا ریشم جس کی بنت کبھی واپس ڈھیرکی صورت اختیار نہیں کرتی۔’’
گل نظم ہے ایک خوبصورت نظم اور اس کی نظمیں گلوں کے وہ تختے ہیں جو زمیں کی ہر بد صورتی کو ڈھانک لیتے ہیں، ’’بادلوں، پیڑوں، پھولوں، ہواؤں، موسموں اور خوشبئوں کی باتیں ہمیں اچھی لگتی تھیں۔’’
گل نے شاعری کو ایک ’’محفوظ رشتہ’’ کہا ہے۔ خود غرض اور چالاک رشتوں کی سرکار میں نذرانے گزارتے گزارتے قلاش اور بے اماں ہو جانے کے بعد اکثر تنِ تنہا رہ جاتے ہیں ہم۔ ایسے میں شاعری سے گہرا تعلق بن جانا اور ایسا تعلق بن جانا کہ ہر دکھ سکھ کا ساتھی مل جائے گویا بہت محفوظ اور بہت گھنی چھاؤں کا احساس بخش دیتا ہے۔
سوچتی ہوں جیٹھ کے مہینے جیسے چٹختے اور بھونتے گرم موسموں کے صحراؤں میں سفر کے دوران اگر اسے یہ ساتھ میسر نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ کیا ہوتا؟
میں بھی اکثر گھبرا گھبرا کے سوچتی ہوں، گلناز سوچتی تھی، اور میرے اور گلناز جیسی بہت سی لکھاری سوچتی ہیں اور پھر اپنی اپنی سکت کے مطابق شاعری کرتی ہیں، افسانے لکھتی ہیں اور اس سنگت کے شکرانے ادا کرتی ہیں۔
گلناز اپنے آپ کو ایک گھونٹ میں پی گئی ہے اور اب وہ مجسم نظم ہے یا شاید نظم گلنازہے۔ وہ نظم جس کا لہجہ نمائشی نہیں بل کہ رندانہ اور والہانہ ہے اور یہ اس کی شخصیت کی شناس بھی ہے۔ ہر غم کو جراتِ رندانہ سے پی جانا اور محبت سے والہانہ محبت کرنا اس کا اور اس کی نظموں کا شعار ہے۔
وہ اپنے دکھوں سے اپنے لفظوں کے لیے روشنی کشید کرتی ہے اور پھر انہیں اپنی نظموں میں سجا دیتی ہے۔ غالب نے کہا تھا، ’’آگ سے پانی میں بجھتے وقت اٹھتا ہے دھواں’’ یہ دھواں جب کسی گلناز جیسے ہنر مند کے لفظوں میں سما جائے تو اپنی شناخت الگ بنا لیتا ہے۔
گلناز بہت سی آ وازوں کے بیچ ایک خود اعتماد اور مختلف آواز ہے۔ اس کی مقبولیت میں مشاعروں کی شاعری کا خروش نہیں بل کہ اس کے باطن میں بے کراں سناٹوں، مضطرب موجوں، بہار کی ست رنگی خوش بوؤں اور خزاں کی پت جھڑ والی آہٹوں کی آبادیاں ہیں۔
میں یہاں ایک ایسی نظم کوٹ کرنے جا رہی ہوں جو اتفاق سے میرا گلناز سے پہلا تعارف تھا اور میں اس نظم کو پڑھ کے نہ جانے کتنی دیر تک دل تھامے ادھر سے ادھر بے چین پھرتی رہی یوں۔ لگتا جیسے کوئی چاقو کی نوک سے کھرچ رہا ہو کوکھ ۔ یہ نظم پڑھیں کلیجہ تھام کے پڑھیں:
بس ایک بوند
۔۔۔
سو چپ رہو
سو مان لو
تمہاری نرم سانس
ان کی زندگی پہ بوجھ ہے
تو اپنی سانس گھونٹ لو
ابھی تمہارے ان بنے وجود میں
دھرا بھی کیا ہے؟
ننھی ننھی دھڑکنیں
چلیں تو کیا
رکیں تو کیا
سو چپ رہو
سو مان لو
ٹھہر نہیں سکے گی
تیز آندھیوں کے سامنے
یہ جگنوؤں سی روشنی
اٹل چٹان فیصلوں کی زَد میں
ایک پھوٹتی ہوئی کلی
بس ایک بوند زندگی
مجھے پتا ہے ظلم ہے
مگر تمہیں خبر نہیں
تمہیں ابھی خبر سے کیا
کسی بھی ظلم، درد، گھاؤ
موت اور زندگی کے ذائقے
تمہاری نرم دھڑکنوں نے
کچھ بھی تو سہا نہیں
چھاؤں، دھوپ
پتیوں کے پانیوں کے سلسلے
تمہاری کوری سانس نے
کسی کو بھی چھوا نہیں
سو چپ رہو، سو مان لو
یہی وہ چاہتے ہیں گُر
تمہیں مٹانے کے سوا
کوئی بھی راستہ نہیں
تو ان کی بات مان لو۔
پھولوں، تتلیوں، بادلوں اور خوش بوؤں سے اپنی نظموں کے پیکر سجانے والی شاعرہ کی یہ نظم اس کی اس صلاحیت کا اعتراف کرنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اپنے موضوع کو وہی لہجہ دینے پر قادر ہے جو تقاضا ہو موضوع کا۔ لیکن کمال یہ ہے کہ وہی نرمی جو اس کی شناخت ہے اس ہچکیوں سے روتے موضوع میں بھی برقرار ہے۔
جس قیامت کی بے بسی ہے اسی قیامت کا دل گیر لہجہ۔ یہ حسنِ بیان، یہ تہہ داری یہ اپنی بات کہنے کا ہنر بہ ظاہر سادہ لیکن اپنے باطن میں بہت پُر کار ہے اور یہی وہ ہنر ہے جو اس کے تخلیقی مزاج کی شناخت ہے۔ کچھ نظمیں اس کی یہاں کوٹ کرنا ضروری محسوس ہو رہا ہے۔
ذرا سی حرارت ملے تو
۔۔۔
ذرا سی حرارت ملے تو
چمکتا ہوا دھوپ کا ایک ٹکڑا بناؤں
ٹھٹھرتی فضاؤں کی
یخ بستہ آنکھوں میں کرنیں کھلاؤں
بہت منجمد آسمانوں کو چھوتی ہوئی
چوٹیوں پر کھنکتے، سبک، مست جھرنے دھروں
اور تخیل کے بے کار، ساکت پرندوں کو اڑنا سکھاؤں
ذرا سی محبت ملے تو
سیہ بخت، بے درد، سفاک، پتھر دلوں کی جگہ
پھول رکھ دوں
میں نفرت کی اونچی چٹانوں کو پگھلا کے
ننھے گھروندے بناؤں
اَنا کے علم توڑ دوں، سرحدوں کو گراؤں
میں اجلی ہواؤں میں بُراق پر فاختائیں اڑاؤں
ذرا سی سہولت ملے تو
فسردہ نگاہوں میں جگنو بھروں
گرد رستوں پہ کلکاریوں، ننھے قدموں کی حیرانیوں کو بچھاؤں
میں سہمی گھٹاؤں پہ گیتوں کے چہرے سجاؤں
ذرا سی اجازت ملے تو
یہ تیرا جہاں
پھر مٹا کر بناؤں…
یا پھریہ نظم:
ایک سوال، رقیب سے
کبھی تم سسکتی صداؤں کو سن کر
بہت زرد، مدھم سی امید پر
درد کی گہری دلدل میں اترے؟
تپکتے ہوئے گرد رستوں
کٹھن، سرد لمحوں سے گزرے؟
دہکتی ہوئی رات کی کروٹوں میں
کسی خواب کی دھیمی دھن پر
سلگنے کی حسرت رہی ہو
کبھی ایک چبھتی ہوئی یاد دل کو
حزیں کر گئی ہو
کسی سر پھرے جذبے نے
اندھی راتوں میں پاگل کیا ہو؟
فقط ایک پَل کے لیے
جیسے روتے ہوئے دل کو
دھڑکا لگا ہو
کبھی کالی راتوں کو
مدھم سروں سے اجالا؟
کبھی ٹوٹے بالوں، بچے سگرٹوں کو
چنا اور سنبھالا
کبھی ان نگاہوں کو تتلی لکھا ہو؟
کبھی ان لبوں پر فسانہ کہا ہو؟
کڑی جان لیوا جدائی کا
بس ایک موسم سہا ہو
کبھی تم نے تھاما
بہت سہمے ہاتھوں کو
جیون کی مشکل گھڑی میں
کسی ان کہی کو سنا ہو
گزرتے ہوئے وقت کی راکھ سے
کوئی موتی چنا ہو
بڑی چاہ سے عمر بھر ایک رشتہ بنا ہو
مگر پھر بھی اتری ہیں
کیسی حسیں، دل رُبا ساعتیں
تم پہ ساتوں جہاں مہر باں ہیں
ادھر زخمی قدموں میں اب بھی وہی
درد کی بیڑیاں ہیں
وہی خشک صحرا،
وہی پیاسے، بھٹکے، بلکتے ہوئے
دل کی زخمی صدا ہے
میں حیران ہوں گر یہی ماجرا ہے
تو پھر مجھ سے میرا خدا ہی خفا ہے۔
بہت سی ایسی ہی نظمیں جی کرتا ہے کوٹ کرتی چلی جاؤں، لیکن گلناز کی ہی ایک نظم ’’شاعر وقت’’ کی چند سطور اس کے لیے میری دعا بھی ہے:
جگمگاتے ہوئے خواب سب
تیری بے تاب پلکوں پہ سایہ کریں
حرف کی جھلملاتی ہوئی تتلیاں
تیری انمول پوروں کو چھو کر چلیں
پھوٹتی ہی رہیں نخلِ احساس سے کونپلیں