رانجھے اور گلزار کی ایک ہی کہانی
رضا علی عابدی
پاکستان میں بہت سے لوگ خوش ذوق بھی ہیں۔ اس بات سے خوشی ہوتی ہے۔ اپنی سرزمین سے تعلق رکھنے والے گلزار صاحب کی جیسی پذیرائی پاکستان میں ہوتی ہے وہ حیران کن ہے۔ گلزار میں نہ تو فلم والوں کا گلیمر ہے، نہ وہ کبھی چاکلیٹ ہیرو رہے ہیں، نہ وہ دلیپ کمار اور امیتابھ بچن والی بات ہے۔ صرف مصرعے موزوں کرتے ہیں اور ان کی اس ایک ادا پر پاکستانیوں کے مجمع انہیں لینے ایئرپورٹ پہنچ جاتا ہے۔ تعجب سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔
وہ جہلم کے قصبے دینہ میں پیدا ہوئے تھے اور کئی بار وہاں جا کر اپنا آبائی گھر دیکھ چکے ہیں لیکن ہر بار کراچی ضرور جاتے ہیں۔ سبب سیدھا سادہ ہے۔ کراچی ان کے مداحوں سے بھرا پڑ ا ہے اور مداحی بھی کس بات کی، انوکھے اور تیکھے نغمے لکھنے اور ویسی ہی فلمیں بنانے کی۔ یہ اعلیٰ ذوق کی عمدہ مثال ہے جس کی قدر وہ بھی کرتے ہیں اور ہم بھی۔
گلزار نے ہمیشہ احمد ندیم قاسمی کو اپنا استاد مانا، ہمیشہ انہیں بابا کہہ کر پکارا اور ہمیشہ ان کا ذکر بہت احترم اور عقیدت سے کرتے ہیں اور ان کے پسماندگان سے وہی پہلے جیسے مراسم برقرار رکھے ہیں۔ اردو زبان سے ان کی وابستگی سے ایک عالم واقف ہے کہ محبوب کی زبان کو اردو سے مشابہ کبھی کسی اور نے نہیں قرار دیا۔
گلزار صرف نغمہ نگار اور فلم ساز ہی نہیں۔ انہوں نے جو مختصر کہانیاں او ر ڈرامے لکھے ہیں ان سے لوگ کم ہی واقف ہیں۔ مجھے ایک بار ان کی تخلیقات سے لطف اٹھانے کا موقع ملا۔ میں نیو یارک میں تھا اور گلزار وہاں اپنے فنکاروں کی ٹولی لے کر آئے تھے۔ ان لڑکے لڑکیوں نے گلزار کی کہانیاں اور ڈرامے اسٹیج پر پیش کیے جن کا تعلق برصغیر کی تقسیم اور اس سے وابستہ سانحے اور المیے سے تھا۔ دل کو چھو جانے والی ان کہانیوں کی حیرت انگیز خوبی یہ تھی کہ ان سے کسی کی دل آزاری نہیں ہوتی تھی۔ ان کی دوسری خوبی یہ ہے کہ کئی برس گزر جانے کے بعد بھی ان کے چھوڑے ہوئے نقش دل پر ثبت ہیں۔
مجھے دو تین بار گلزار صاحب سے ملنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ایک بار نیویارک ہی میں آئے ہوئے تھے جہاں اردو کے سرکردہ محقق اور استاد پروفیسر گوپی چند نارنگ بھی تشریف لائے تھے اور ایک شام جشنِ نارنگ کا اہتمام تھا۔ اس جشن کی صدارت گلزار کر رہے تھے۔ میں نے اس موقع پر اپنی تقریر میں ایک واقعہ دہرایا۔ چند برس پہلے کی بات ہے لندن میں نارنگ صاحب کا لیکچر تھا جس کا موضوع تھا ”اردو ادب میں واقعہء کربلا کا استعارہ“ نارنگ صاحب نے نہایت پُراثر تقریر کی جو ان کا معمول ہے لیکن ساتھ ہی سانحہ کربلا اور امام حسین کی شہادت کا ذکر کچھ اس انداز سے کیا کہ اردو شاعری کا یہ پہلو خوب خوب اجاگر ہوا۔ تقریر کے بعد احباب آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ایک نوجوان نے جو لیکچر سے بہت متاثر نظر آتا تھا مجھ سے کہا کہ نارنگ صاحب ایمان کیوں نہیں لے آتے؟ اس پر میرا جواب تھا کہ ایمان لانے کے لیے ایمان لانا ضروری نہیں۔ یہ واقعہ میں نے اس شام گلزار صاحب کی موجودگی میں سنایا۔ بعد میں جب ان سے ملاقات ہوئی تو میرے قریب آکر بولے، ایسا ایمان تو میں بھی لے آیا ہوں اور واپس ممبئی جاکر مجھے اپنی کتاب ’ رات پشمینے کی‘ بھیجی جس کے پہلے ہی ورق پر انہوں نے اپنی سرزمین کو یوں یاد کیا ہے
ذکر جہلم کا ہے، بات ہے دینے کی
چاند پکھراج کا، رات پشمینے کی
ایک بار لندن آئے ہوئے تھے۔ یہاں ایک ادبی اکیڈمی نے میرے لیکچر کا انتظام کیا تھا جس کا موضوع برصغیر کی فلموں کے گانے میں شاعری کا عنصر تھا۔ گلزار صاحب صدارت کر رہے تھے۔ طبیعت ناساز تھی اور کچھ مضمحل سے تھے لیکن چل کر آئے اور میری آدھے گھنٹے کی تقریر کو اتنی توجہ اور انہماک سے سنتے رہے جیسے ایک ایک لفظ حافظے میں محفوظ کر رہے ہوں۔ خاتمے پر کھڑے ہو کر داد دی اور میری فراہم کی ہوئی معلومات میں بہت سے اضافے کیے۔ چلتے وقت کہنے لگے کہ آپ نے اپنی گفتگو 1960ء پر ختم کر دی، اسے آگے بڑھا کر اگلے لیکچر میں مکمل کیجیے۔ میں نے کہا کہ اس کی ایک ہی شرط ہے کہ آپ اس وقت بھی صدارت کریں گے۔ ’ضرور‘ کہہ کر رخصت ہوئے۔
ہر بار جاتے ہوئے آنکھوں میں اپنی تصویر چھوڑ جاتے ہیں۔ سفید لباس ، ویسے ہی چاندی جیسے بال اور ویسا ہی تھوڑا سا بڑھا ہوا شیو۔ چہرے پر مسلسل مسکراہٹ، یوں لگتا ہے کہ جتنے مجھ پر مہربان ہیں شاید ہی کسی اور پر ہوں اور یہ احساس ہر ملنے والے کو ہوتا ہے۔ بلا کی رواداری، غضب کا رکھ رکھاؤ، طبیعت میں نرمی اور لہجے میں ملائمت۔ گفتگو میں آہستگی اور آنکھوں سے ٹپکتی ہوئی محبت۔ دینہ کے باشندے جو ہوئے، وہیں سے تو ذرا آگے جوگیوں کا وہ ٹیلہ ہے جہاں رانجھا نے جوگ لیا تھا اور مندرے ڈالنے کے لیے اس کے کان چھیدے گئے تھے تو پتھروں پر خون ٹپکا تھا، کہتے ہیں کہ اس خون کے نشان آج تک باقی ہیں۔ نوجوان اب بھی ان نشانوں پر پھول چڑھانے وہاں جاتے ہیں۔ وہاں جہاں عشق کے گل کھلے ہیں، وہیں کہیں گلزار کا علاقہ لگتا ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.