گلزار بہت یاد آتے ہیں
از، زاہدہ حنا
برسوں بیتے، کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جب اخبار کے صفحوں پر یہ خبر نظر سے نہ گزرتی ہوکہ سرحد کے دونوں طرف گولیاں چلیں اور ان گولیوں سے ہلاک ہونے والے لوگوں کی تعداد ہوتی ہے۔ کبھی کبھی کسی بکری، کسی میمنے کا بھی ذکر ہوتا ہے جو سرحد پار سے آنے والی کسی گولی کا شکار ہوگیا۔ یہ خبریں پڑھتے ہوئے جی چاہتا ہے دونوں طرف کے ان بے گناہوں کی لاشوں پر نظر ڈالیں۔
کوئی رخسانہ، کوئی رکمنی، کوئی ببلو اور کوئی گولو، کوئی مکھن سنگھ اور کوئی عبدالرشید۔ لیکن ہمارے ہاتھ اتنے لمبے کہاں کہ ان جانے والوں کو پہچان سکیں۔ ان کے پیچھے رہ جانے والوں سے ان کا پرسہ کر سکیں۔ ایسے میں بے ساختہ گلزار کی نظم ’’دستک‘‘ یاد آتی ہے:
’’صبح صبح اک خواب کی دستک پر دروازہ کھولا، دیکھا
سرحد کے اس پار سے کچھ مہمان آئے ہیں
آنکھوں سے مانوس تھے سارے
چہرے سارے سنے سنائے
پاؤں دھوئے، ہاتھ دھلائے
آنگن میں آسن لگوائے
اور تنور پہ مکئی کی کچھ موٹے موٹے روٹ پکائے
پوٹلی میں مہمان مرے
پچھلے سالوں کی فصلوں کا گڑ لائے تھے
آنکھ کھلی تو دیکھا گھر میں کوئی نہیں تھا
ہاتھ لگا کر دیکھا تو تنور ابھی تک بجھا نہیں تھا
اور ہونٹوں پر میٹھے گڑ کا ذائقہ اب تک چپک رہا تھا
خواب تھا شاید!
خواب ہی ہوگا!
سرحد پر کل رات، سنا ہے، چلی تھی گولی
سرحد پر کل رات، سنا ہے
کچھ خوابوں کا خون ہوا تھا!‘‘
خوابوں کے خون کا یہ سلسلہ کبھی ختم بھی ہوگا یا نہیں؟ لیکن خواب ہی ان زخموں پر مرہم رکھ دیتے ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ ان ملکوں کو آزاد ہوئے کوئی ستر برس گزر گئے۔ لیکن یقین نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لہو بوند بوند گرتی ہے، لگتا ہے تمام قتل ابھی ابھی ہوئے ہیں، بستیوں کی بستیوں میں آگ اب بھی بھڑکتی ہے۔ اس کی تپش سے جسم وجاں جھلسے جاتے ہیں، خون کی بساندھ سدھ بدھ کھودیتی ہے۔
مزید ملاحظہ کیجیے: رانجھے اور گلزار کی ایک ہی کہانی از، رضا علی عابدی
جہلم، دینہ اور دلی کے گلزار اب 80 کے ہو جائیں گے لیکن ان کے اندر کا بچہ اب بھی دینہ کی گلیوں میں ننگے پیر دوڑتا ہے۔ دوستوں کے ساتھ کنچے کھیلتا ہے۔ لٹو کو رسی کی گرفت سے آزاد کرتا ہے اور اس کو چک پھیری کھاتے دیکھتا ہے اور پھر زندگی لٹو کی طرح گھوم جاتی ہے۔
’دینہ‘ جو اس کا گھر تھا، جہاں اس کے خواب، کھیل، رنگ اور ہنسی رہتی تھی، وہ جدا ہو جانے کے زخم سے دو نیم اپنے پیاروں کے ساتھ مرتا جیتا اور اپنے دوستوں کی جدائی کے درد سے نڈھال نئے شہر، نئے نگر پہنچتا ہے۔ لوگ اپنی روٹی روزی کے غم میں ہیں اور اس کے اندر سے شاعری کا وہ سوتا پھوٹتا ہے، جو آج بھی درد کا ایسا چشمہ ہے کہ اوک میں لے کر جتنا رنج و الم چاہیں پی لیں، جس قدر غم چاہیں اپنے اندر اتار لیں، وہ سوتا ابلتا ہی رہتا ہے۔
گلزار کا پہلا مجموعہ ’’چاند پکھراج کا‘‘ شایع ہوا تو مجھ تک پہنچا اور پھر ان کی نظموں اور چند غزلوں کے ورق ’یار جلاہا‘ کے عنوان سے مجھے ملے۔ ان دو مجموعوں کے درمیان ہماری کئی ملاقاتیں دلی میں ہوئیں۔ انڈیا انٹرنیشنل سینٹر کے سبزہ زار پر یا کسی کافی ہاؤس میں اور آخری ملاقات سال بھر پہلے اپنے پبلشر ارون مہیشوری کی عنایت سے ہوئی۔
ارون نے ان کی ہندی کویتائیں اور اردو شاعری سب ہی چھاپی ہے۔ گلزار صاحب سفید براق کرتا پاجامہ پہنے اسی محبت اور مروت سے ملے جو ان کا خاصہ ہے۔ اس محفل میں سکریتا پال بھی موجود تھیں، وہ انگریزی کی معروف شاعرہ ہیں اور انھوں نے اردو کی بہت سی کہانیاں مشہور اور نامور ادیب جوگندر پال کی مدد سے ترجمہ کی ہیں۔ سکرتیا، جوگندر پال کی بیٹی ہیں۔
دلی کی سڑکوں پر باہر رات جھوم کر چلتی رہی اور گلزار اپنے میٹھے اور درد بھرے لہجے میں باتیں کرتے رہے۔ چند نظمیں انھوں نے سنائیں، داد سمیٹی اور پھر اچانک ایک سناٹا ہمارے درمیان چھا گیا اور اس سناٹے میں بے ساختہ ان کے ایک گیت کے بول یاد آئے:
’’چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں
جہاں تیرے پیروں کے کنول کھلا کرتے تھے
ہنسے تو دو گالوں میں، بھنور پڑا کرتے تھے
تیری کمر کے بل پر ندی مڑا کرتی تھی
ہنسی تیری سن سن کر فصل پکا کرتی تھی
چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں۔‘‘
ان کے بارے میں ان کے یار جانی تیندر مشرا نے لکھا ہے کہ ’’گلزار اور ان کے خاندان نے تقسیم کی تکلیف کو بہت گہرائی سے بھوگا ہے۔ دینہ اور پاکستان، اس وقت کی یادیں اور ذاتی تفاصیل، تقسیم کا درد اور اپنوں سے بچھڑنے کی کھرونچیں، ساتھ ہی دلی آ کر باقی بیتا ہوا بچپن اور رفیوجی کیمپوں کی راتیں۔ تقسیم کا استعارہ، گلزار کی نظموں میں ایک عجیب قسم کی تڑپ، درد اور بیگانہ پن بھرتا ہے۔ آپ ان کی بیشتر بچپن کی یاد داشتوں کی کویتائیں پڑھیں، تو ان چاہے ہی وہ خوش نما ’دینہ‘ ابھر آتا ہے جو اس شاعر کی روح میں گھلا ہوا ہے۔‘‘
گلزار نے جبر و ابتلا کے جن لمحوں میں دینہ کو، وہاں رہنے والے دوستوں کو چھوڑا، جس طرح چھوٹی بہن کا ہاتھ چھوٹا اور بھی جانے کیا کچھ ہاتھ سے چھوٹ گیا، اس کی یاد سے گلزار آج تک نہیں سنبھل پائے ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے شیخ ایاز یاد آتے ہیں اور ان کی کچھ نظمیں اور اپنے عزیز دوست کے نام ان کا خط، حشو اور شیخ ایاز ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے، پھر حشو کو بھی کراچی سے جانا پڑا۔
شیخ ایاز کے سینے میں درد کا جو پرندہ گاتا تھا، ویسی ہی ایک کوئل گلزار کی نظموں میں بھی کوکتی ہے۔ تاریخ کے پیڑ پر آزادی کا ثمر آیا لیکن یہ کوئل اسے چکھ بھی نہیں سکتی، کیسے چکھے کہ اس کی زبان پر زخم ہیں۔ اس کیفیت کو گلزار نے یوں بیان کیا ہے:
’’دن بھر میری سانسوں میں سرکتا ہی رہا
لب پہ آیا تو زباں کٹنے لگی
دانت سے پکڑا تو لب چھلنے لگے
نہ تو پھینکا ہی گیا منہ سے، نہ نگلا ہی گیا
کانچ کا ٹکڑا اٹک جائے حلق میں جیسے
ٹکڑا وہ نظم کا سانسوں میں سرکتا ہی رہا!‘‘
پاکستان اور ہندوستان دونوں کی آزادی کے ستر برس مکمل ہونے پر درجنوں کتابیں، کہانیاں اور نظمیں شایع ہوئیں۔ گلزار ہندوستان کی فلمی دنیا کی ایک قد آور شخصیت ہیں، انھوں نے اس موضوع پر کہانیاں لکھیں، فلمیں بنائیں۔
ان کی تازہ کتاب ’’قدم زیرو لائن پر‘‘ ایسی ہی کہانیوں اور نظموں کا انتخاب ہے، جسے دلی کی رخشندہ جلیل نے انگریزی میں ترجمہ کیا اور پڑھنے والوں کے ایک بڑے دائرے تک پہنچایا۔ اس کتاب میں گلزار کا ایک انٹرویو بھی ہے جسے جوگندر پال اور سکریتا پال نے کیا ہے۔ کڑوی باتیں، کھٹی میٹھی یادیں۔ گلزار کی کئی نظمیں، اس نثری مجموعے میں بھی شامل ہیں۔ اس میں سے ایک نظم کا عنوان ’’کراچی‘‘ ہے:
’’تیرے شہر میں بھی تو چیلیں
اُسی طرح لاشوں کے اوپر منڈلاتی ہیں
جیسے میرے شہر کے چوراہوں پر
لوگوں کی لاشیں جب گرتی ہیں
آسمان پر منڈلاتے گدھ نیچے اتر آتے ہیں
ہم دونوں کے، دو ملکوں میں
عام آدمی کتنے ملتے جلتے ہیں۔‘‘
اس میں بہ ظاہر ’دینہ‘ کہیں نہیں ہے لیکن غم کا وہ دفینہ موجود ہے جسے جتنا کھودو وہ اتنا ہی دھواں دیتا ہے۔ یہ دھواں انسانوں کی آنکھوں میں چبھتا ہے، انھیں رلا دیتا ہے۔ وہ اپنی نظموں میں فیض اور فراز سے ملنے سرحد پار چلے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں:
’’آنکھوں کو ویزا نہیں لگتا
سپنوں کی سرحد کوئی نہیں
بند آنکھوں سے روز میں سرحد پار چلا جاتا ہوں… ملنے، مہدی حسن سے
سنتا ہوں ان کی آواز کو چوٹ لگی ہے
اور غزل خاموش ہے، سامنے بیٹھی ہوئی ہے… پھر کہتے ہیں
’’سوکھ گئے ہیں پھول کتابوں میں
یار فراز بھی بچھڑ گئے، اب شاید ملیں وہ خوابوں میں!‘‘
بند آنکھوں سے اکثر سرحد پار چلا جاتا ہوں میں
آنکھوں کو ویزا نہیں لگتا سپنوں کی سرحد، کوئی نہیں۔‘‘
گلزار ایسے دانشور، شاعر، کہانی لکھنے والے، فلم بنانے والے کسی بھی سماج میں سال ہا سال بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ستر برس کی تاریخ نے ہمیں گلزار ایسا صوفی بھی دیا، جس کی چادر کا رنگ عشق کی چاندنی میں رنگا ہوا ہے، عشق لہو روتا ہے لیکن لہو نہیں کرتا۔
اس کے دل کی کھونٹی پر چاہت کے ہار سنگھار کا ہار جھولتا ہے۔ ان پھولوں کی خوشبو چاروں سمت پھیلتی ہے اور ان کی ڈنڈیوں کا رنگ سہاگنوں کے دوپٹے رنگتا ہے۔ گلزار سلامت رہیں۔ آج کی یہ تحریر ان کے نام ہے کہ وہ ان دنوں بہت یاد آتے ہیں۔