گرو جی ہمیں ان شاعروں سے بچا لو
وسعت اللہ خان
سوچو کوئی بہشت نہ ہو، قدموں تلے دوزخ نہ ہو، ہم سب آج میں زندہ ہوں۔
سوچو کوئی ملک نہ ہو، مرنے مارنے کا سبب نہ ہو، مذہب بھی نہ ہو، سب پرامن رہ رہے ہوں۔
سوچو کوئی ملکیت نہ ہو، نہ لالچ ہو نہ بھوک، بس بھائی چارہ ہو اور اس دنیا کے سب حصے دار ہوں۔
تم شاید کہو کہ میں خواب پسند ہوں، پر میں ایسا تنہا تو نہیں، شاید ایک روز تم بھی میری طرح سوچو اور یہ دنیا یک جان ہو جائے۔
شہرہ آفاق بیٹلز کے شہرہ آفاق جان لینن کا یہ سولو گیت ’امیجن‘ کے نام سے 1971 میں ریلیز ہوا۔ 46 برس سے اس کرہِ ارض پر کروڑوں لوگ اسے سن رہے ہیں، خرید رہے ہیں، سینکڑوں گلوکار گا چکے ہیں، گا رہے ہیں، بی ایم آئی کے مطابق ’امیجن‘ 20ویں صدی کے سو مقبول ترین گیتوں میں شامل ہے، گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے اسے ہر دور کے پانچ سو سدا بہار گیتوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔
2012 کے لندن اولمپکس اور 2015 کے باکو میں منعقدہ یورپین گیمز کی اختتامی تقاریب میں یہ گایا جا چکا۔ نومبر 2015 میں پیرس حملوں کی تعزیتی تقریب میں موسیقار ڈیوڈ مارلو نے بٹاکلان تھیٹر کے سامنے اپنے پیانو پر ’امیجن ‘بجایا۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے بقول وہ لگ بھگ 125 ممالک میں جا چکے ہیں اور ہر جگہ ’امیجن‘ اتنا مقبول دیکھا گویا گیت نہ ہو مقامی ترانہ ہو۔
جب ’امیجن‘ ریلیز ہوا تو ایک جانب سے پہلا اعتراض یہ اٹھا کہ جان لینن کیمونسٹ ہے کیونکہ ’امیجن‘ میں تصورِ ملکیت کی مخالفت کمیونسٹ تصور ہے۔ چرچ کے کئی اہلکاروں نے اعتراض کیا کہ گیت میں ’کوئی مذہب نہ ہو‘ والی بات کچھ ہضم نہیں ہوتی۔
جان لینن نے 1980 میں مرنے سے پہلے ایک انٹرویو میں وضاحت کی کہ جہاں تک کوئی مذہب نہ ہو والی سطر کا معاملہ ہے تو اس مصرعے کو گیت میں پوشیدہ اتحادِ انسانیت کے پیغام کے سیاق و سباق میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بقول جان لینن ’امیجن‘ میں مذہب کی حوصلہ شکنی نہیں بلکہ اس کج بحثی سے انکار ہے کہ میرا خدا تیرے خدا سے بہتر ہے۔
مگر بھلا ہو گرو صحافی کی ایک ٹویٹ کا جس نے مجھ جیسوں کی آنکھیں کھول دیں۔ ہوا یوں کہ کراچی گرامر سکول میں ہمیشہ سے سالانہ ان ہاؤس میوزیکل کنسرٹ کی روایت ہے۔ اس برس اس کنسرٹ میں بچوں کے ایک گروپ کو ’امیجن‘ بھی گانا تھا۔ مگر میرے ایک صحافی گرو نے کنسرٹ سے ایک روز پہلے ٹویٹ میں بھانڈا پھوڑ دیا کہ ’کراچی کے ایک پرائیویٹ سکول میں جمعہ کو ایک کنسرٹ منعقد ہو رہا ہے۔ اس میں طلبا جان لینن کا گانا کوئی جنت، کوئی دوزخ کوئی مذہب نہیں گائیں گے۔‘
شکر ہے 46 برس میں کروڑوں عیسائیوں، یہودیوں، کمزور عقیدہ مسلمانوں اور ملحدوں کے اس گیت پر بنا سوچے سمجھے سر دھننے کے علاوہ کسی کو تو توفیق ہوئی کہ اس گیت میں پوشیدہ کفر و الحاد کا بھانڈا پھوڑ کے آنے والی نسلوں کو اسے پسند کرنے اور گانے کے گناہ سے بچا لے۔
اس ٹویٹ کا اثر یہ ہوا کہ کراچی گرامر سکول نے اپنے ڈھائی ہزار بچوں کو کسی بھی نادیدہ خطرے سے بچانے کے لیے کنسرٹ میں ’امیجن‘ کی جگہ اوئسس کا نغمہ ’ونڈر وال‘ شامل کر لیا۔ مولانا تقی عثمانی اور مفتی عدنان کاکا خیل جیسے جید علماء اور ایک فاضل ٹی وی اینکر نے بھی اس کارِ خیر پر گرو کو دعائیں اور مبارک باد دی۔
اب جب شاعرانہ سیاق و سباق سے ہٹ کر ایک ایک مصرعے اور استعارے کے پوسٹ مارٹم کا کارِ خیر شروع ہو ہی چکا ہے تو میں گرو کی توجہ لگے ہاتھوں اس جانب دلوانا چاہوں گا کہ بلھے شاہ کے گستاخانہ کلام کو دریا برد کرنے سے کام شروع کیا جائے اور جن نقادوں نے بلھے کی شاعری کو پرکھا اور عابدہ پروین سمیت جنھوں نے بھی اس ’بے راہ رو کلام‘ کو مزے لے لے کر گایا انھیں نادانستگی میں ’ارتکابِ کفر‘ کرنے پر توبہ کے لیے مجبور کیا جاوے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ
ملاں چھوڑ دے علم کتاباں دا
ایویں چائیا ای بار عذاباں دا
وضو کر لے شوقِ شراباں دا
تیڈے اندر باہر پلیتی اے
اساں عشق نماز جدوں نیتی اے
تدوں کھل گئے مندر مسیتی اے
تیکوں کعبے دے وچ پیا نور دسے
ساکوں بت خانے وچ حضور وسے
ساکوں نیڑے تیکوں دور ڈسے
تیڈی نیت وچ بدنیتی اے
وقت آ گیا ہے کہ ہیر رانجھا، مرزا صاحباں، سسی پنوں اور داستانِ امر ماروی کی تمام موجودہ شرحیں اور کلام منسوخ کر کے ایسی پاک اور بے ضرر تشریح چھاپی جائے جس کے ذریعے ان قصّوں سے یہ تاثر نہ ملے کہ عشق بازی، گھر سے بھاگنا، کسی نامحرم کے لیے جان دے دینا یا کسی کی بہو بیٹی کو گمراہ کرنا کسی بھی شکل میں قابلِ قبول ہو سکتا ہے۔ وارث شاہ، حافظ برخوردار یا شاہ لطیف کا کلام سر آنکھوں پر مگر اس کے پردے میں ہماری نسلوں کو تو نہ خراب کریں۔
دیوانِ میر کو بھی فوراً تعلیمی نصاب سے نکالا جائے۔ اس سے کھلم کھلا ’کج روی و الحاد‘ کی بو آتی ہے۔ مثلاً
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
دیوانِ غالب کی بھی کڑی جانچ و تطہیر ضروری ہو گئی ہے۔ مثلاً
طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا؟
اقبال بہت عظیم سہی مگر یہ کیا ’گستاخانہ طریقہ‘ ہے اللہ تعالی سے شکوہ کرنے کا؟
کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے
اور اس شعر میں تو اقبال تمام حدیں ہی پھلانگ گئے۔
تیرا امام بے حضور، تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر
تعجب ہے اقبال کو قومی شاعر قرار دینے سے پہلے ان کا کلام اہلِ رائے کی کسی پرہیزگار کمیٹی سے باریک بینی سے کیوں چیک نہیں کروایا گیا؟
اور نصرت فتح علی خان کی ممکنہ بخشش کے بارے میں بھی فتویٰ درکار ہے کہ کیا ان کی بخشش ہو گی جنھوں نے اللہ تعالی کے لیے ’تم اک گورکھ دھندہ ہو‘ جیسے الفاظ قوالی میں شامل کیے۔
اب جب کے میرے میڈیا گروؤں نے یہ بیڑا اٹھا ہی لیا ہے تو گزارش ہے کہ جان لینن تا جون ایلیا تمام دستیاب شاعری میں سے چن چن کے مصرع وار پوشیدہ و غیر پوشیدہ ’بے راہ روی و الحاد و کفر‘ کا پردہ چاک کریں تاکہ کم ازکم پاکستان کے 21 کروڑ سے زائد عوام تو اس زہر سے محفوظ ہو جائیں جو پچھلے کئی سو برس سے ہمیں بےلگام شاعری کے نام پر تباہ کر رہا ہے۔
مرنے والے تو خیر مر گئے۔ اللہ تعالی ان کی بخشش فرمائے مگر اب زندہ شاعر خبردار رہیں۔ وہ تو میرے گرو کی ایک ٹویٹ کی بھی مار نہیں۔
بشکریہ: بی بی سی اردو