ہائے وہ رونقیں کیا ہوئیں
از، علی اکبر ناطق
یہ تب کا قصہ ہے جب ہم اوکاڑا کے دانشوروں میں رہتے تھے اور اُن میں سب قبیلوں کے ارسطو جمع تھے۔ جاوید نقوی ، قاری خالد ، باوز ، لالہ شہزاد اور دوسرے کئی احباب۔ روز شام 6 سے رات 12 بجے تک ہماری محفل جمتی اور یہ محفل اُن دنوں احمدیوں کی مسجد سے ملحق اُن کے مہمان خانے میں گرم ہوتی ۔
یہ جگہ ٹھنڈی سڑک پر پریس کلب کے بالکل سامنے مسلم راجپوت سکول کے پچھواڑے میں تھی۔ اُن دِنوں احمدیوں کا مربی وہاں پر اِقبال مربی ہوا کرتا تھا۔ یہ آدمی بہت حاضر جواب، ملنسار ، شفیق اور دوست پرور ادبی مزاج کا تھا۔ رات کا کھانا ہم اُنھیں کے ساتھ اُن کےمہمان کھانے میں کھاتے اور رات گئے تک شعر و ادب اور مذہب و مارکس تک سے لے کر دنیا جہان کی گپ اُڑاتے۔
اکثر ختمِ نبوت اور مذہب کی ضرورت و بے ضرورت پر بے تُکی دلیلیں چھوڑی جاتیں۔ اقبال مربی صاحب کے علاوہ اکثر دوست مارکسی، وہابی ، دیوبندی، بریلوی اور کرسچئن گھروں سے تھے۔ مَیں واحد اِن میں شیعہ تھا۔ مذہب کے معاملے میں ہم سب چونکہ نیم مُلا تھے اِس لیے جو بات کرتے اُس پر یقین سے ڈٹ جاتے۔
مَیں تو کسی کی بھی نہ مانتا کہ شیعہ کا معاملہ ذرا ٹیڑھا سا ہے۔ بحث جب کئی کئی الجھنوں میں پھنس جاتی تو سب متفقہ طور پر مربی اقبال صاحب کو ثالث مقرر کر لیتے جو بڑے تحمل کے ساتھ اِدھر اُدھر سے کھینچ تان کر سُنی دوستوں کے مقابلے میں مجھے جھوٹا ثابت کرتے پھر احمدیوں اور سُنیوں کو، ہم ایک ہیں ، کہہ کر مطمئن کر دیتے۔
میں نے اکثر دیکھا کہ میرے مقابلے میں سُنی دوست اقبال مربی کی بات کا دفاع کرتے نظر آتے۔ مگر اِس کی واحد وجہ رات کا عمدہ ترین کھانا ہوتی اور یہ بات مربی صاحب بھی جانتے تھے لیکن وہ محفل گرمائے رکھنے کے عادی تھے بعض اوقات قبلہ غلام احمد یعنی اپنے پیغمبر پر پھبتی کسنے سے بھی باز نہ آتے۔
یہ سلسلہ چار سال چلتا رہا۔ اور لذیذ کھانوں کے ساتھ مزے مزے کے بہت قصے ہوئے ۔پھر ایک دن اقبال صاحب کا سرگودھا میں تبادلہ ہو گیا اور وہاں نیا مربی آگیا۔ مگر ہم نے وہ محفلیں جاری رکھیں کیونکہ باقی کا عملہ وہیں تھا جو ہمارا اچھا خاصا شناسا ہو چکا تھا۔ نئے مربی کے آنے پر آٹھ دس دن معاملہ اور کھانا یونہی چلتا رہا، مربی صاحب تھوڑی دیر کے لیے ہمارے پاس بیٹھتے پھر اُٹھ جاتے۔ آخر ایک دن اُنھوں نے اپنی انتظامیہ سے پوچھ ہی لیا کہ بھئی یہ کون لوگ ہیں؟ مجھے تو احمدی نہیں لگتے؟
اُن کے انتظامی ہیڈ ساجد صاحب نے اُنھیں بتایا کہ حضورِ والا یہ سب دین کے دوست نہیں بلکہ اقبال مربی صاحب کے دوست ہیں اوراحمدی نہیں ہیں۔ پچھلے چار سال سے روزانہ یہاں محفل لگاتے ہیں اور رات کا کھانا ہمارے ساتھ کھاتے ہیں۔ اُنھوں نے پوچھا، پھر کھانے اور تبلیغ کا نتیجہ نکلا کچھ؟
ساجد صاحب نے کہا سرکار، نتیجہ بس اتنا نکلا کہ خود اقبال مربی صاحب بھی اب کچھ کچھ بے دین سے ہو گئے ہیں، مَیں نے اِن آنکھوں سے اُنھیں خود جنابِ مسیحِ موعود کا مُضحکہ اُڑاتے دیکھا ہے اور یہ احباب تو جیسے تھے آج بھی ویسے ہی ہیں۔ نمک کا کچھ اثر نہیں ہوا۔
لیجیے صاحب اُس سے اگلی شام جیسے ہی ہم سب دوست وہاں پہنچے تو مہمان خانہ بند تھا اور ایک لڑکے نے کہا، مربی صاحب فرماتے ہیں، ہم نے لنگر خانہ دین کی تبلیغ کے لیے جاری کیا تھا، لفنگوں کی پرورش کے لیے نہیں۔ آپ آئندہ یہاں تشریف نہ لائیے۔ اور اپنے امام باڑوں سے نیاز کھایے ہائے کہاں وہ دن امن کی شرارتوں کے