حبیب
افسانہ از، منزہ احتشام گوندل
یہاں درمیان میں آ جاؤ۔ اس دائرے کے اندر روشنی پڑ رہی ہے۔ یہاں کھڑی ہو جاؤ۔ وہ پہلے دائرے سے نکلی اور درمیان جا کے رک گئی۔ وہاں واقعی روشنی پڑ رہی تھی۔ پورے چاند کی ٹھنڈی روشنی۔
پہلا دائرہ جس کا پھیلاؤ سب سے زیادہ تھا، محیط سب سے کھلا اور قطر سب سے وسیع تھا، تپکن اور حِدّت سے بھرا ہوا تھا۔ وہ اس کی وسعت کی نسبت سے اتنا ہی عرصہ اس میں رکے رہنے پر مجبور تھی۔ کئی بار اس نے اس حدت سے برا فروختہ ہو کر بھاگنے کی کوشش کی مگر ہر بار وہ اس سمت جاتی جدھر دائرے کی بیرونی حد تھی اور اس حد کے آگے ایک بسیط خلا تھا۔ بے حد تاریک اور مہیب۔
پورے چاند کی ٹھنڈی روشنی میں وہ ایک دم سمٹ گئی۔ بدن کی ایک ایک پور میں رکی صدیوں کی حرارت کو ایک دل آویز ٹھنڈک تھپتھپا رہی تھی۔ اس نے اپنا لباس سمیٹا اور سکڑ کے بیٹھ گئی۔ آنکھیں مت موندو۔ اسے ہدایت کار کی آواز سنائی دی۔ اس نے آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا۔ ہدایت کار اس کے سر پہ کھڑا تھا۔ تم اس دائرے میں سونے نہیں بَل کہ اپنے فن کے جوہر دکھانے لائی گئی ہو۔
کیا میں یہاں خود نہیں آئی؟
نہیں، تم آئی نہیں، تمہیں لایا گیا ہے، ہدایت کار بولا
میں پچھلے کردار کی تھکی ہوئی ہوں۔ یہاں ٹھنڈ ہے اور مجھے راحت مل رہی ہے۔ کیا تم مجھے تھوڑا وقت نا دو گے کہ میں چند ثانیوں کو سستا لوں، اس نے التجا کی۔
اس دائرے میں کوئی سستاتا نہیں۔ یہ پیہم عمل کا دائرہ ہے جو اگلے دائرے کی روشنی یا تاریکی کی تشکیل کرتا ہے۔ ہدایت کار نے جواب دیا۔ وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ اس نے سامنے دیکھا۔ وہ سفید روشنی کے ہالے میں قید تھی جب کہ اس کے سامنے ہال میں موجود لوگ ایک مستقل تاریکی کا حصہ لگ رہے تھے۔ اس نے بولنا شروع کیا۔
میرا تعلق حساب کتاب اور جوڑ توڑ سے کبھی نہیں رہا۔ میں تین زمانوں کی تثلیث سے ورا ہی ورا جیتی آئی ہوں۔ مجھے نہیں معلوم وقت کے ساتھ میرا کیا رشتہ ہے۔ میری پیدائش ایک حادثہ ہی تو ہے۔ ہر انسان کی طرح۔ یہاں تین زمانے ہیں:
ماضی … حال … مستقبل
م… ح … م
محمد … حبیب … مصطفیٰ
مومنہ … حبیب … مصطفیٰ
مومنہ … حبیب … مومنہ
ماضی … حال … مستقبل
ماضی میں بھی میں ہوں اور مستقبل میں بھی میں ہوں۔ جب کہ لمحۂِ حال میں کوئی اور other ہے۔ ماضی کو میں چھوڑ چکی ہوں۔ اس وقت میرے سامنے حال ہے۔ مجھے دیکھنا ہے کہ حال کا پھیلاؤ کتنا وسیع ہو سکتا ہے۔ کیا مجھے اسے چھوڑ کر آگے بڑھ جانا ہے؟ یا اس کا پھیلاؤ اتنا وسیع ہو جائے گا کہ یہ حال ہی مستقبل بن جائے۔
میرا تعلق حساب کتاب اور جوڑ توڑ سے کبھی نہیں رہا۔ میں تو حال اور محبت میں یکساں جینے والے لوگوں میں سے ہوں۔
یہ کیا بول رہی ہو۔ اس کے کانوں میں ہدایت کار کی چیختی ہوئی آواز آتی ہے۔ تم حال کے دائرے میں کھڑی ہو۔ یہاں تمہیں جو مکالمے ادا کرنے ہیں وہ تمہیں پچھلے دائرے میں اچھی طرح رٹوائے گئے ہیں۔ مگر یہ تم کیا بَک رہی ہو۔ کیا تم ہمارا کھیل چوپٹ کرنا چاہتی ہو؟ کیا تم چاہتی ہو کہ سامعین و ناظرین ہمیں جوتے ماریں۔ اور … اور یہ حبیب کون ہے؟ وہ اپنے پھیپھڑوں کی طاقت سے چیختا ہے۔
حبیب وہ ہے، میں جس کے دائرے میں کھڑی ہوں۔ وہ ایک نا قابلِ تردید سچ ہے۔
کیا یہ مکالمہ کھیل کا حصہ ہے؟ سامعین و ناظرین میں سے کوئی چِلاّتا ہے۔ ہدایت کار ایک ثانیے کو چونکتا ہے اور پھر ہوشیار ہو جاتا ہے۔ شاید اس کے دماغ نے یہ سوچ پکڑی ہے کہ یوں ہی سہی۔ اسے تو اپنے کھیل سے کام ہے۔
محمد … حبیب … محبت
مومنہ … حبیب … محبت
میں کچھ بھی کر لوں، میں جہاں کھڑی ہوں یہاں کے نا قابلِ تردید سچ تو حال اور حبیب ہیں۔ باقی سب زمانے سب سلسلے اس کے سابقے اور لاحِقے ہیں۔
یہ بھی ملاحظہ کیجیے: ٹُک نقاب الٹو مت عتاب کرو: منصور بوشناف کا ایک بہت ہی مختصر عربی ڈرامہ
یہ حبیب کون ہے؟ سامعین میں سے کوئی چِلّاتا ہے۔ وہ آواز کا تعین کرتی ہے۔ مگر بولنے والے کی جگہ کا اندازہ نہیں لگا پاتی۔
یہ حبیب جو کوئی بھی ہے یہ سامنے کیوں نہیں آتا۔ ایک اور آواز آتی ہے۔ ہدایت کار دم سادھے اور ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔ وہ مستقبل کے دائرے کی طرف دیکھتی ہے۔ وہاں تاریکی ہے اور وہ مسلسل سکڑ رہا ہے۔ وہ باہر والے ماضی کے بڑے محیط کے دائرے کی طرف دیکھتی ہے۔ اسے لگتا ہے جیسے اس کے حالیہ دائرے کی لکیریں ماضی کے دائرے کے ساتھ جا لگی ہیں۔ اسے لگتا ہے سامعین و ناظرین اب آوازوں میں بدلتے جا رہے ہیں۔ وہ پھر بولنے لگتی ہے۔
میں ایک جنگل میں اُگنے والی تلخ اور کسیلی خود رو بوٹی ہوں۔ جو کبھی چرندوں کے معدوں سے گزر کر دو بارہ خاک میں مل جاتی ہے، تو کبھی کوئی سادھو یا جوتشی ڈھونڈتا ہوا اسے مروڑ کر اپنے تھیلے میں بھر لیتا ہے۔ میں املتاس کی بد رنگ اور بے ذائقہ پھلی ہوں۔ میں نیم کی نمولی اور دھریک کا دھرکونا ہوں۔ سارا جنگل میرا رشتہ دار ہے۔ ہم جانگلی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ہمارے بیچ میں “گنا”نہیں اُگتا۔
ہم شہروں میں لگے ہیبت ناک کار خانوں سے پراسیسس ہو کر نکلی میٹھی گولیاں نہیں ہیں۔ ہم نیم کی نمولیاں ہوتے ہیں۔ جو کڑوی ہیں تو کڑوی ہی رہتی ہیں۔ کبھی کسی کو اپنے روح اور بدن کے گھاؤ بھرنے ہوں تو ہمارے ہاں آ جاتا ہے۔ ہم جانگلی اسے نا مراد نہیں لوٹاتے۔
ہم پھوڑے پھنسیاں ختم کرنے اور گھاؤ مندمل کرنے کے کام آتے ہیں۔ کسی کا کوڑھ بھی ہمیں گوارا ہے کہ وہ ہمارے کوڑتموں اور تھوہر کنڈوں کے سامنے کیا اوقات رکھتا ہے۔ سنہرے دل فریب کاغذوں میں لپٹی میٹھی اور شیریں گولیاں جب بدن کے جوڑوں کی لیس دار رطوبتوں کو گھائل کر دیتی ہیں تب بھی ہم جانگلی کام آتے ہیں۔ ہمارے پاس اس شوگر کا بھی علاج ہے۔ ہاں مگر ان رسیلی مصنوعی گولیوں کے اشتیاق کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں، جن کے سنہرے کاغذ بصارت کو اپنی جانب کھینچتے ہیں اور جن کی مٹھاس ذائقے کو اپنا گرویدہ بناتی ہے۔
میں نے کہا نا کہ ہم تو خود رو ہیں۔ یا پھر زمیں میں اگائے جاتے ہیں۔ ہمیں لوہے اور سیمنٹ کے بنے کار خانوں اور کڑ کڑ کرتی ہیبت ناک مشینوں کے اندر نہیں بنایا جاتا۔
اچانک اسے ہدایت کار یاد آتا ہے۔ وہ اس طرف نظر دوڑاتی ہے جہاں ہدایت کار کو کھڑا ہونا چاہیے مگر وہ اسے وہاں محسوس نہیں ہوتا۔ سامنے ہال میں مہیب سناٹا ہے، اتنا کہ سانسوں کی آواز بھی سنائی نہیں دے رہی۔ وہ سوچتی ہے شاید لوگ اس کی باتوں میں اتنے منہمک ہیں کہ سانس تک لینا بھول چکے ہیں۔
ہو سکتا ہے سامعین سو گئے ہوں۔
اگر وہ سوئے ہوتے تو ان میں سے کسی نہ کسی کے خراٹوں کی آواز تو آنی ہی تھی۔ لگتا ہے وہ اس کی باتوں سے بے زار ہو کر چلے گئے ہیں۔ ہدایت کار بھی چلا گیا ہے۔ اس کے سامنے کوئی سامع نہیں اور وہ ہوا میں تیر چلا رہی ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دم سادھے اس پر حملہ آور ہونے کے لیے تیار بیٹھے ہوں۔ مگر پھر وہ اپنے خیال کو جھٹک دیتی ہے۔ ایسا بھی کیا کر دیا ہے میں نے کہ وہ مجھ پہ حملہ کریں گے۔
تم نے روایت سے بغاوت کی ہے۔ ایک طرف سے غصیلی آواز آتی ہے۔
“اوہ،” وہ چونکتی ہے۔ تو اس کا آخری خیال سچ تھا۔ سامعین غصے میں ہیں۔ وہ مٹھیاں بھینچے تشنج کی کیفیت میں بیٹھے ہیں۔ مگر ہدایت کار کہاں ہے؟
میں تو اپنا کردار ادا کرنے آئی ہوں۔ وہ جواب اچھالتی ہے۔
تم نے لکھے گئے سکرپٹ سے ہٹ کر اپنی مرضی سے جملے بولے ہیں۔ یہ بغاوت ہے۔ ایک اور آواز آتی ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے جیسے کھیل کا سٹیج ایک کٹہرے میں بدل گیا ہے اور پہلے جیسے وہ ان دیکھے سامعین و ناظرین کے رُو بَرُو تھی اب ویسے ہی اَن دیکھے منصف کے رُو بَرُو ہے۔
موت اس سے زیادہ دور نہیں۔ وہ جانتی ہے دنیا میں سب سے زیادہ عدالتی موتیں اہلِ جبرُوت کے بیانیوں سے انحراف کی سزا میں ہی ہوئی ہیں۔ صاحبان عِز و شَرف کے محرر اور مؤرخ یوں ہی گم ہوتے رہے ہیں جیسے ابھی اس کا ہدایت کار ہوا ہے۔
تو کیا یہ کھیل ایسے ہی رچایا گیا تھا۔
کیا ماضی اور مستقبل کے دائرے محض فریب ہیں۔
سچ تو صرف حال ہے۔ جس میں وہ کھڑی ہے۔
حال جس کا کوئی انت نہیں۔ اور جس کے سارے لا منتہا پھیلاؤ میں عشق سمایا ہوا ہے۔ لوگ اب با قاعدہ چیخ رہے ہیں۔ وہ مستقبل اور ماضی کے پُر فریب تاریک گڑھے میں گِھرے ہوئے ہیں اور اس کی طرف سوال اچھال رہے ہیں۔
میں کوئی استاد نہیں کہ میرے پاس سارے جواب ہوں۔ وہ جواباً چیختی ہے۔
تم روشنی کے اس بارد ہالے میں کیسے ہو پھر؟ وہ چِلّاتے ہیں۔
میرے پاس “حبیب” ہے۔ وہ سکون سے جواب دیتی ہے۔
اسے مارو، یہ ملحد ہے، مشرک ہے، سامنے تاریکی غصیلی آوازوں سے بھر جاتی ہے۔ اسے لگتا ہے وہ سارے اس پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ وہ اس دائرے کے اندر آ گئے ہیں اور اسے گُھونسوں اور لاتوں سے پیٹ رہے ہیں۔ وہ ان ضربوں کی اذیت محسوس نہیں کرتی۔ بس آنکھیں مُوندے گر جاتی ہے۔
حال کا پھیلاؤ اور بھی بسیط ہو جاتا ہے۔