بریزئر افسانہ

brasier short story

بریزئر 

افسانہ از، حفیظ تبسم 

شام ٹھنڈی اور ابر آلود تھی۔ میڈم روبی کے صحن میں اُگے پھولوں کی سیاہ شاخیں دھند میں گریہ کر رہی تھیں اور زبیر وہیں بیٹھا آٹھویں کلاس کی ریاضی کے سوال حل کر رہا تھا کہ اسے پیشاب کی حاجت نے تنگ کیا۔ وہ میڈم کو بتا کر اٹھا اور غسل خانے کی طرف بڑھ گیا۔

حاجت سے فارغ ہو کر اس نے کھونٹی پر لٹکے تولیے سے ہاتھ صاف کیے تو اس کی نظر بریزئر پر پڑی تو بے اختیار رک گیا۔ اس کی آنکھوں میں انتہائی مسرت بخش چمک نمودار ہوئی۔ وہ یوں ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگا کہ اس کے علاوہ اور کچھ نہ دیکھ سکا۔ اس کے دماغ میں فوراً ایک ہی بات سوجھی اور اس نے بریزئر اتار کر اپنی شرٹ کے پچھلی طرف چھپا لیا۔ اِس سارے عمل میں زیادہ دیر نہ لگی مگر اسے محسوس ہورہا تھا جیسے بہت دیر تک ایک خواب ناک دنیا میں موجود رہا ہو۔ باہر نکل کر اس نے دیکھا کہ میڈم باورچی خانے میں چلی گئی تھی۔ اس نے مزید پڑھائی کا ارداہ ترک کیا اور میڈم کو ذرا فاصلے سے پیٹ کی خرابی کا بہانہ بنا کراپنا بستہ اٹھائے چل دیا۔ اسے پیچھے سے میڈم کی آواز سنائی دی جو واضح نہیں تھی یا شاید اسے اپنی شرٹ کے اندر چھپی چیز کے اور کوئی خیال نہیں تھا۔

وہ اپنی حویلی کے پھاٹک سے روزانہ کی طرح زور دار آواز میں سلام کیے بغیر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ وہ اپنے کمرے میں اکیلا ہی رہتا تھا۔ اس کا بڑا بھائی شہر میں پڑھتا تھا جو ہفتے میں ایک بار آتا اور ایک رات قیام کر کے چلا جاتا تھا۔ اس نے شرٹ کے اندر ہاتھ ڈالتے ہوئے محسوس کیا کہ اس کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا تھا۔ اس نے بہ مشکل ہاتھ آگے کرکے دیکھنے کی جرأت کی۔ پہلی نظرمیں ایک فلم سی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگی کہ اس کی چاچی جب اپنے چھوٹے بچے کو دودھ پلانے کے لیے قمیص اوپر ہٹاتی تو پہلی نظر بریزئر پر ہی ٹکتی تھی۔ وہ عموماً چاچی کے اِس عمل کو کن اکھیوں سے دیکھتا اور دماغ کے کسی خانے میں یہی منظر ثبت ہوکر رہ گیا تھا۔ یا پھرکبھی کبھار اُس کی ماں بھی گریبان میں ہاتھ ڈال کر پیسے نکالتی تھی۔

وہ دیر تک تعریفی نظروں سے مشاہدہ کرتا رہا مگر جو قابلِ فہم تھا وہ اس کے بغور مشاہدے کے بعد بھی سمجھ میں نہ آسکا تھا۔

۰۰۰O۰۰۰

وہ میڈم کے گھر بلاناغہ ٹیوشن کے وقت غسل خانے میں جاتا اور کھونٹی پر اپنی مطلوبہ چیز تلاش کرنے کی کوشش کرتا۔ہفتہ بھر گزرا ہوگا کہ اسے ایک اور بریزئر مل گیا جسے وہ چھپاکر اپنے ساتھ لے آیاتھا۔وہ اپنے کمرے کا دروازہ بند کرکے یا چھت پر جاکر گہری سنجیدہ آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہوئے سوچتا اور ایسا لگتا جیسے وہ ایک لمبے عرصے سے اسی چیز کی تلاش میں تھا۔کبھی وہ اسے ایک ایسا ہمراز سمجھتا جیسے وہ ایک دیرینہ دوست ہو۔ 

میڈم روبی کے پاس ٹیوشن کے وقت بھی اس کی کیفیت بدلنے لگی۔وہ موقع پاتے ہی میڈم کے سینے پر نگاہ ٹکادیتا تھا۔ اس کا پڑھائی سے دل اچاٹ رہنے لگامگر ایک شام وہ پڑھ رہا تھا کہ میڈم نے اس سے کہا۔

”غسل خانے سے میری ایک چیز گم ہوگئی ہے۔“

یہ سنتے ہی اس کے کانوں میں سیٹیاں سی بجنے لگیں اور دل تیزی سے دھڑکنے لگاتھا۔ اس نے اپنے دماغ میں کئی جواب ترتیب دے رکھے تھے جو آناًفاناً بھک سے اڑ گئے اور اس نے اپنی آنکھیں اٹھانے کی جرأت نہ کی۔میڈم کی نگاہیں بدستور اُس کے چہرے پر تھیں جو پیلا زرد پڑ رہا تھا۔ اس کے کان میں میڈم کی آواز سنائی دی۔

”شرارتی لڑکے!تم نے وہ چیز اٹھائی ہے نا؟“

میڈم کے پوچھنے کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ جیسے اِس کے زردی مائل چہرے پر سب لکھا ہوا پڑھ لیا ہو۔اُس کے ہونٹ بولنے کے لیے ذرا سے کپکپائے مگر وہ بول نہ سکا تو میڈم نے دوبارہ پوچھا۔

”اُس کا کیا کروگے؟“

اس کی چوری پکڑی جاچکی تھی اور سواے اعتراف ِ جرم کے کوئی راستہ نہیں تھا۔اس نے گہرا سانس لے کر کہا۔”میں یہ دیکھناچاہتا تھا کہ عورتیں پیسے کہاں چھپاتی ہیں۔“

یہ کہتے ہوئے اس کی صاف اور روشن آنکھوں میں یقین اور اعتماد کی جھلک نمایاں تھی۔ میڈم کھلکھلاکر ہنس دی اور پھر شرماتے ہوئے منھ پر ہاتھ رکھ لیا۔ ”شرارتی کہیں کے…میری چیز لاکر دینا۔اگر حویلی میں کسی نے دیکھ لیا تو”

میڈم کے ہنسنے اور نظریں چرانے سے اُس کے اندر حوصلہ ہونے لگا اور وہ ذرارک کر بولا۔ ”نہیں!وہ میں نے چھپادی ہیں۔“

میڈم اس کی جرأت کے مظاہرے پر دنگ رہ گئی اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ کر صحن میں اُگے پھولوں کے پودے دیکھنے لگی جو خزاں رت میں اپنا جوبن کھوتے جارہے تھے۔

اس واقعے کے بعد میڈم نے دوبارہ اپنی گم شدہ چیز کا ذکر نہ کیا۔البتہ اس کے ساتھ بات بے بات مذاق کرکے ہنستی اور کبھی اس کا ہاتھ پکڑ لیتی تھی۔اس کی پڑھائی کا دورانیہ بھی بڑھا دیا تھا۔ وہ مغرب کی اذان تک میڈم کے پاس موجود رہتا۔اگر وہ جانے کے لیے کہتا تو میڈم ہنس کر جواب دیتی۔

”میں اکیلی کیا کروں گی۔تیرے ساتھ باتوں میں د ل لگا رہتا ہے۔“

اسے ہربار میڈم کا جواب سن کراحساس ہونے لگتاکہ میڈم کا واقعی اکیلے میں دل نہیں لگتا ہوگا۔میڈم کا شوہر رفیق حسین عرف فیکا مستری اپنی ٹریکٹروں کی ورکشاپ پر چلاجاتا اور مغرب کے بعد واپس آتاتھا۔اس کے علاوہ میڈم کا کوئی رشتہ دار نہیں تھا۔فیکے مستری کے ماں باپ کب کے مرچکے تھے۔ایک بہن تھی جو کہیں دور بیاہی گئی تھی۔ ڈھلتی عمر میں کوئی چار سال پہلے شادی ہوئی تو محلے کی عورتیں باتیں کرتیں کہ کس کنجر نے اپنی دھی کنویں میں پھینک دی تھی۔اسے 

فیکے مستری سے کوئی لینا دینا نہیں تھا بلکہ اس کے بھینسے جیسے وجود سے ہی چڑتھی۔اس کی ساری ہمدردیاں میڈم کے ساتھ تھیں جو پڑھی لکھی، خوب صورت اور فیکے مستری سے عمر میں بھی بہت چھوٹی تھی۔ میڈم سے ٹیوشن پڑھنے والا وہ ایک ہی طالب علم تھااور اُس کی ماں محلے داری کے ناطے یا اس کی ماں کے بقول’پوری چودہ جماعتیں پڑھی ہے‘ اور زبیر کو اچھی طرح پڑھا سکتی تھی۔

۰۰۰O۰۰۰

ایک شام جب وہ پڑھائی سے فارغ ہو کر جانے کی تیاری کر رہا تھا تو اسے میڈم نے بتایا کہ کل سکول سے چھٹی ہے تو ہم دونوں صحن میں لگے پودوں کی کانٹ چھانٹ کریں گے۔ وہ گومگو کی کیفیت میں تھا کہ اتوار کادن کرکٹ کھیلتے گزارتاتھا۔ وہ اِس بات پر غور کرتے بہانہ ڈھونڈ رہا تھا۔ میڈم نے اُس کے بالکل قریب ہو کر کہ دونوں کے درمیان چند انچ کافاصلہ رہ گیا تھا، کہا۔ ”سن! تجھے چمبیلی کے پھول بہت پسند ہیں نا؟“

وہ جواب دینے کے بجائے اپنے ہونٹ چباتارہاتو میڈم نے اُس کاہاتھ تھام لیا۔”رفیق حسین سے چمبیلی کا پودا منگوایا ہے اور سارے رنگوں کی گل دوپہری بھی…“

اس کی آنکھیں میڈم کے وجود پر جمی رہیں اور ایک بت کی مانند دیکھتارہامگر کوئی جواب نہ دے سکا تھا۔

وہ دوسرے دن میڈم کے گھر گیا توصحن میں گل دوپہری کی شاخیں اور چمبیلی کا پودا دور سے دکھائی دے گیا۔میڈم اسی کی منتظر تھی۔رسمی سی بات چیت کے بعد دونوں نے مل کر کھرپی کی مدد سے کیاریوں سے گھاس نکالی۔پھر دو نئی کیاریاں بناکر گل دوپہری کی جڑیں لگائیں اور آخر میں چمبیلی کا پودا لگانے کے لیے جگہ کا انتخاب کیا جانے لگا۔جگہ منتخب ہوتے ہی اس نے گڑھاسا بناکر میڈم کو پودا لگانے کے لیے کہا تو میڈم نے جواب دیا۔

”تم ہی اپنے ہاتھ سے لگاؤ۔“

اسے پودے لگانے کا تجربہ یا شوق نہیں تھا مگر چمبیلی کے پھولوں کی مہک پسند کرتا تھا۔ اسے دوستانہ جملے اور محبت بھری توجہ میسر آئی تو اپنے ہاتھ سے پودا لگایا اور تھک کر زمین پر بیٹھ گیا۔ اس نے کبھی اتنا کام نہیں کیاتھااور حویلی میں کبھی کام کے لیے کہا بھی نہیں گیاتھا۔اس وقت تک دوپہر ہوچکی تھی اور اسے ہلکا ہلکا پسینہ بھی آگیاتھا۔وہ ذرا سا سستاکر اٹھنے لگا تو میڈم نے کہا۔

”یہیں نہاکر فریش ہوجاؤ،پھردونوں چائے پیتے ہیں۔“

وہ نہانے سے انکارکرتارہا مگر میڈم نے اسے ہاتھ سے پکڑکر غسل خانے کی طرف دھکیل دیا اور خود برتن دھونے کی جگہ پر منھ ہاتھ دھونے لگی۔

تازہ پانی سے نہاکر وہ حسب عادت شرٹ کاندھے پر رکھے غسل خانے سے باہر نکل آیا۔ میڈم برآمدے میں بیٹھی تھی اور اس کے سامنے میز پر چائے کی دو پیالیاں پڑی تھیں۔میڈم اس کے نیم برہنہ اور چکنے بدن کو گھور کر دیکھنے لگی۔اس کے سینے پر بالوں کا نشان تک نہیں تھا البتہ دونوں طرف جوانی کی گلٹیاں سی ابھر رہی تھیں۔میڈم بے قراری کے ساتھ کسی بات کی منتظر تھی۔وہ ایک لمحے کے جھجکااور دیوارمیں نصب آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر بالوں میں کنگھی پھیرنے لگا۔ اسے آئینے میں میڈم کا عکس اپنی جانب بڑھتا محسوس ہوا اور اسے پیچھے سے اپنی بانہوں کے حصار میں جکڑ لیا۔یک بیک وہ مڑاتو میڈم کے روبروتھا۔چند سیکنڈ کے لیے دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔وہ حیرت زدہ رہ گیاکہ اسے اپنی میڈم بے حد حسین معلوم ہوئی۔جو عورت اُس کے سامنے موجود تھی، اسے پہلے کبھی نہیں دیکھاتھا۔پھر ایک شدید حرکت کے ساتھ میڈم نے اسے اپنے سینے سے لپٹالیا اور اس کا منھ چومنے لگی۔میڈم کے ہونٹوں پر نمی تھی اور آنکھوں میں چمک، جو عجیب و غریب حسن کے ساتھ دلکش ہوگئی تھی۔یہ ایسا حسن تھا جو سرتاپا ایک والہانہ پن ہوتا ہے۔ میڈم کا چہرہ دن کی روشنی سے تابناک ہوگیا اور جسم یکلخت جل اٹھا تھا۔

پھر ہر نئی ملاقات ایک نیا والہانہ پن لے کر آتی اور میڈم اس کی زندگی کا ایک حصہ بن گئی تھی۔اسے میڈم کی تمازت آفریں عریانی،اس کی شیریں اور مجنونانہ سپردگی اپنا گرویدہ بنانے لگی۔ اس کے دل میں فیکے مستری کا خوف رہتامگر میڈم کے ذہن میں نہ کوئی خوف تھا نہ شبہ… وہ خود کو بڑی بے باکی کے ساتھ اس کے سپرد کرتی اور سیدھی اُس طرف جاتی جس طرف اُس کے جذبات اُسے لے جاتے تھے۔

ایک دن وہ پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے کہ بیرونی کے دروازے پر دستک ہوئی۔وہ یکدم اٹھا اور حواس باختہ ہوکر اپنی شرٹ کی طرف لپکا۔میڈم ہنسنے لگی اور اسے دائیں بازو سے پکڑکر پلنگ کے نیچے چھپ جانے کا کہتے ہوئے باہر کی طرف بڑھ گئی۔وہ اپنے کپڑے اٹھائے پلنگ کے نیچے

گھس گیا۔اسے میڈم کے باہر جاتے قدموں کی چاپ سنائی دیتی رہی۔ذرا دیر میں کسی کے پلنگ پر دھڑام سے لیٹنے کی آواز کے ساتھ فیکے مستری کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔پھر میڈم کی آواز سنائی دی۔”مجھے بخار ہورہا ہے،تُوروٹی ہوٹل پہ ہی کھالینا!“پلنگ کے نیچے اُس کا دم گھٹ رہاتھا اور گلے میں کھانسی سی محسوس کی جو شاید گرد کی وجہ سے تھی۔وہ منھ پر ہاتھ رکھے سانس روک رہا تھا اور محسوس کررہا تھا کہ یہ کوشش بھی زیادہ دیرکارگر ثابث نہیں ہوگی۔ پانچ سات منٹ گزرے ہوں گے کہ اسے باہر جاتے قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی اور ذرا دیر بعد میڈم نے اسے باہر نکلنے کے لیے آواز دی۔ وہ پسینے سے شرابور باہر نکلا اور اس کا چہرہ خوف کے مارے لال سرخ ہو رہا تھا۔

”دیکھا تم نے…“ میڈم نے بڑی فتح مندی کے ساتھ کہا۔”ہمیں کسی بات کا ڈر نہیں… سب اندھے ہیں۔“

وہ نڈھال سا ہو کر پلنگ پر بیٹھ گیا۔ وہ واقعی خوف زدہ تھا، مگر میڈم نے اسے اپنے ساتھ لپٹا کر بوسہ لیا جس میں ابھی تک وہ اضطراب موجود تھا جو اس نے پہلے پہل بوسوں کے وقت محسوس کیا تھا۔

۰۰۰O۰۰۰

زبیر بلا ناغہ محسوس کرتاجیسے میڈم کے جسم میں کوئی تبدیلی آ رہی تھی۔ اس نے میڈم کا چہرہ دیکھا جس پر خوشی کی دمک تھی۔اس نے چھاتیوں کا بغور مشاہدہ کیا جو پہلے کی نسبت ذرا بڑی ہو رہی تھیں اور پیٹ بھی غبارے کی مانند ہلکا سا پھولا ہواتھا۔اس نے دوتین بار پوچھنے کی کوشش کی مگر جھجک کر خاموش ہو رہاتھا حالاں کہ وہ جھجکنے کی حدود سے آگے نکل گیاتھا۔

وہ اس معاملے میں کچھ نہ سمجھ سکا مگر ایک بڑی تبدیلی محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا کہ جب وہ ٹیوشن پڑھ رہا ہوتا تو فیکا مستری شام سے ذرا پہلے لوٹ آتا اور گھر کے کام کاج میں میڈم کا ہاتھ بٹانے لگتاتھا۔میڈم بھی فیکے مستری سے خوش اخلاقی سے بات کرتی اور نوک جھونک کاسلسلہ بھی بند ہوگیا تھاجو عموماً دیکھنے کو ملتا تھا۔

ایک شام وہ ٹیوشن پڑھ کے فارغ ہواتو میڈم سلائی مشین پر کپڑے سلائی کرنے لگی۔ وہ کچھ دن سے حیرت زدہ تھا کہ میڈم چھوٹے چھوٹے کپڑے کیوں سلائی کرتی تھی۔اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تو میڈم نے سلائی مشین کی کھرڑ کھرڑبند کی اور چارپائی پر لیٹ کر اپنے پیٹ سے قمیص اوپر ہٹاتے ہوئے اسے پاس بلایا۔ اس کا دماغ ایک اور دنیا میں داخل ہونے لگا۔ میڈم نے اسے پیٹ پر کان رکھ کر سننے کے لیے کہاتووہ نہ جان سکا کہ کیاواقعہ رونما ہونے جا رہا ہے۔ اس نے پیٹ پر کان لگاکر غور کیاتوذراسی دیر بعد کچھ اتھل پتھل محسوس کی جیسے کوئی چیز اپنی جگہ سے ہل رہی ہو۔اس نے انتہائی حیرت سے کان ہٹاکر دیکھا تو میڈم نے بتایاکہ کاکا آنے والا ہے۔

”کاکا؟“اس نے پوچھا۔

”ہاں!تیرے جیسا گورا چٹا اور موٹی سیاہ آنکھوں والا!“

یہ کہتے ہوئے میڈم کی آنکھوں سے خوشی کی لہریں امڈرہی تھیں مگر پھر سنجیدہ ہوکر میڈم نے دوبارہ کہا۔”کل سے ٹیوشن کے لیے نہ آیاکرناکہ…“یہ کہتے ہوئے میڈم رک گئی۔وہ میڈم کے چہرے کومسلسل غور سے دیکھ رہاتھا۔”رفیق حسین میری نند کولینے گیا ہوا ہے۔بس،دوتین ماہ تک سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے گا۔“

وہ چند لمحے ناقابل یقین الفاظ پر غورکرتے ہوئے بے ساختہ بولا۔”میں اتنے دن کیسے گزاروں گا؟“اور اپنا نچلا ہونٹ کاٹنے لگا۔یہ سنتے ہی میڈم کے چہرے پر اداسی پھیلنے لگی اور اپنی انگلیوں پر حساب جوڑتے ہوئے کہنے لگی۔

”دل برا نہ کرو… ایک مہینہ یہ ہے اور چالیس دن آگے کے…“

وہ بولا۔”مگر اتنے دن…“

”میں بھی تواتنے دن تیرے بغیرگزاروں گی۔“یہ کہتے ہوئے میڈم کی آنکھ میں آنسو بھر آئے مگر اپنا سلسلہ کلام جاری رکھا۔”تُو کبھی کبھار آ جایا کرنا اور جب کاکاآجائے گاتواسے کھیلانے کا بہانہ بھی مل جائے گا۔“

”میں اتنابڑا ساراہوگیاہوں…کاکے کو کھیلاتااچھالگوں گا!“

میڈم بے اختیار ہنس دی۔”دیکھنا،ہوبہو تیرے جیسا چٹاگورا ہوگا،خود ہی تیرادل کرے گا اسے گودمیں اٹھانے اورباہر لے جانے کو۔“

”پھر تو اس کے ساتھ تیرادل لگارہے گا۔“زبیرنے بے اختیار کہا اور آنکھ میں نمی اترآئی۔

میڈم اس کے گلے میں بازوڈال کر دلاسے دینے لگی۔”دل چھوٹا نہ کر،میں ہوں نا، دیکھ پھر میں رو پڑوں گی۔“

زبیر کچھ بولانہیں مگر اپنے ہونٹ کاٹتا گہری نظروں سے میڈم کی طرف دیکھتاجارہاتھا۔ 

اس نے میڈم کے گھر ٹیوشن کے لیے جانا چھوڑدیامگردوتین بعد کتاب اٹھائے بہانے سے چلاجاتاتھا۔میڈم اُسے دیکھتے ہی کھل اٹھتی مگر اپنی نند کی وجہ سے ایک فاصلہ رکھتی تھی۔وہ بھی زیادہ دیر نہ بیٹھتاتھا۔البتہ دن میں کئی بار اُن کے دروازے کو دیکھ کر اداس ہو جاتا تھا۔ایک دن وہ اسکول سے واپس آیا تو سگاں دائی میڈم کے گھر سے نکلی اور محلے کی ایک عورت کے پوچھنے پر بتانے لگی کہ آج شام تک پوری امید ہے۔وہ شام کے سائے ڈھلنے تک بارہا گھر سے باہر نکلااور قدرے خوش تھا کہ بہت سارے دن گزر گئے تھے۔اس نے محلے کی اکادکا عورتوں کو میڈم کے گھر جاتے اور نکلتے دیکھا مگر حقیقی تفصیلات کا اسے علم نہ ہوسکا۔

اگلی صبح وہ نیند سے بیدار ہوکر اپنے کمرے سے باہر نکلا تو اس کی ماں نے چولہے کے پاس سے آواز دی۔

”رات تیری استانی کے گھر کاکا آیا ہے۔“

کاکے کاسن کر وہ خوشی سے نہال ہونے لگا مگر ماں کے اگلے لفظ پتھربن کر برسے۔

”پرتیری استانی اللہ میاں کے پاس چلی گئی ہے۔“

وہ فوری طور پر ٹھیک سے کچھ نہ سمجھ سکا۔اسے یوں محسوس ہوا کہ وہ عالم ِ خواب میں ہو۔ گویا اس کے اردگرد کی ہرشے حالتِ مدہوشی میں اور غیر واضح تھی۔ وہ اپنے آپ پرضبط نہ رکھ سکا اور پھوٹ پھوٹ کررودیا تو ماں نے بھاگ کر اسے سینے سے چمٹالیا۔

”پگلے!اللہ میاں کی یہی مرضی تھی۔“

اور وہ دیرتک آنسو بہاتا اللہ میاں کی مرضی کے خلاف احتجاج کرتارہاتھا۔

۰۰۰O۰۰۰

میڈم کی موت کے بعد اس کا دل پَژمردہ ہوگیا اور آنکھوں میں اداسی لیے،خاموشی سے وقت گزارنے کی کوشش کرتا۔وہ رفتہ رفتہ ایک نئی حقیقت سے روشناس ہونے لگاکہ اس کے کمرے میں میڈم کا سایہ ٹہل رہا ہے اور کبھی اسے آواز بھی سنائی دیتی تھی۔اس نے اپنی بچپنے والی عقل و فہم سے حل نکالا اور دیرتک بریزئر دیکھنے کی عادت ترک کردی تھی۔

ایک خوشگوار دوپہر وہ اسکول سے واپس لوٹا تو اس نے دیکھا کہ فیکا مستری اپنے کسی شاگرد کے ساتھ پھولوں کے کملائے ہوئے پودے اپنے دروازے کے باہر پھینک رہاتھا۔وہ اس قدر پَژ مردہ ہوا کہ اسے اپنے پیروں پر توازن برقرار رکھنا مشکل ہونے لگا۔وہ اپنی روح میں ایک گہری کسک اور افسردگی لیے،ایک خوابناک حالت میں پھولوں کے پاس پہنچا۔اس نے اپنی بڑی بڑی سنجیدہ نگاہوں سے دیکھا۔اُن میں گل دوپہری اورگلاب کے پھول شامل تھے مگر اس نے چمبیلی کے پودے کو پہچان لیا۔اسے لگا جیسے پودے ایک دوسرے سے سرگوشی کررہے ہوں۔

”ذرا اِس بے چارے کو تو دیکھو، کیا تمھیں یاد ہے جب یہ ہمارے پاس آیا کرتاتھا۔“

اس نے آگے بڑھ کر چمبیلی کا پودا اٹھایا اور تیز قدموں سے چلتے اپنی حویلی کے گیٹ کے اندر رکھ دیا۔ اس کے اندر ایک اضطراب برپا تھا۔ وہ اپنے کمرے میں گیا اور چھپا کر رکھا ہوا بریزئر نکال کر دیکھنے لگا۔ اس کے دماغ میں ایک دیکھی اور اَن دیکھی دنیا گھومنے لگی کہ اس کے ہاتھ سے لگایا چمبیلی کا پودا سڑک میں پھینک دیا گیا مگر کاکا؟ اس کے دل میں کاکا دیکھنے کی خواہش امڈنے لگی اور ایک عکس سا آنکھوں کے سامنے ٹھہر گیا۔  ایک گورا چٹا اور موٹی سیاہ آنکھوں والا کاکا اُس کی گود میں کھیل رہا تھا اور آنکھ سے گرتے آنسو بریزئر کو بھگو رہے تھے۔