حفیظ تبسم کے مجموعہِ کلام “جہنم کے گرد و نواح میں” پر ایک گفت گو

jahannum ke girdo niwah mein hafeez tabassum1

حفیظ تبسم کے مجموعہِ کلام “جہنم کے گرد و نواح میں” پر ایک گفت گو

از، ڈاکٹر سلمان ثروت 

حفیظ تبسم کی شاعری پڑھنے سے قبل ہی ایک تأثر جو ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ حفیظ اپنی کتابوں کے عنوانات بہت دل چسپ رکھتے ہیں جو قاری کو ان کی تخلیقات پڑھنے کے لیے اکساتے ہیں؛ مثلاً یہی نام دیکھیے جہنم کے گرد و نواح میں، دشمنوں کے لیے نظمیں، اور سرد موسم میں دھوپ کا کونا وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح اُن کی نظموں کے عنوانات بھی دل چسپ ہوتے ہیں مثلاً کتے کی حمایت میں، خوف میں لپٹا ہوا خط، طوائف کے جسم پر لکھی نظم، بے گناہ نظمیں، مردہ زبان میں نصابی کتاب وغیرہ۔

بات یہ ہے کہ حفیظ تبسم خود ایک دل چسپ، مختلف اور مشکل شاعر ہیں: دل چسپ اس لیے کہ جب شاعری کرتے ہیں تو یا ہائیکو لکھتے ہیں، یا پھر نثری نظم۔ اور مشکل اس لیے کہ ان کی نثری نظم کسی حد تک absurd ہوتی ہے۔ ایسی نظموں کو  decode کرنا آسان نہیں ہوتا۔ 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ Absurdism جس کا سرخیل البرٹ کامیو ہے آخر ہے کیا، میرے خیال میں اس کی جڑیں  Surrealist تحریک سے جا ملتی ہیں جس کا آغاز ایندرے بریٹن نے کیا تھا جو آرٹ میں Dadaism سے متأثر تھا۔

Absurdism کو آسان لفظوں میں کائنات کی بے معنویت اور زندگی کی بے ربطی سے جنم لیتی لا یعنیت کے اظہار سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یعنی وجود کسی طے شدہ مقصد کے بغیر ہے اور ہم اپنے افعال و افکار سے اس میں مقصدیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو سعیِ لاحاصل ہی رہتی ہے اور اسی طرزِ احساس کے اظہار کا نام Absurdism ہے۔

اس تناظر میں جب ہم absurd plays یا absurd poetry کو دیکھتے ہیں تو ان تخلیقات میں ظاہراً مختلف خیالات کو ایک ساتھ پیش کر کے اُس لا یعنیت کا غماز بنایا جاتا ہے۔ Absurd نظموں میں کسی نظریے کو جو ایک مسلمہ بن جائے یا کوئی سماجی مظہر اگر ادارے کی حیثیت اختیار کر جائے یا چند افعال و افکار جنھیں قواعد کے درجے پر رکھ دیا جائے، اور یہ جبر کی قوت کے طور پر سامنے آئیں تو یہ نظمیں اس طرح طنز یا تنقید کا نشانہ بناتی ہیں کہ وہ مسلمات، ادارے یا قواعد کھوکھلے ہو کر رہ جاتے ہیں۔

اسی طرح یہ شاعری اپنی تہہ داری میں انسانی نفسیات کی گرہیں اور سماجی رویوں کی پول کھل دیتی ہے۔ زبان کی سطح پر یہ کام الفاظ و معنی کے کلیشے توڑ کر اور خیال کی سطح پر یہ کام کسی سوچ کے فطری بہاؤ کو قائم رکھ کر کیا جاتا ہے۔

ایسی تخلیقات خود رو علامات کا ایک جنگل بن جاتی ہیں اور ان میں تہہ داری اتنی دبیز ہوتی ہے کہ نامکمل ابلاغ ایک قدر بن کر سامنے آتا ہے۔ ویسے بھی ایسی تخلیقات کا مقصد تفہیم سے زیادہ تأثر ہوتا ہے اور اگر کوئی تخلیق ایک تأثر قائم کر سکے تو وہ کام یاب تخلیق تصور کی جائے گی۔ ایسی تخلیقات سے پنپنے والا تأثر بھی پیچیدہ نوعیت کا ہوتا ہے جس پر قاری، سامع یا ناظر کا بیک وقت ہنسنے اور رونے کو دل چاہتا ہے، غصے اور رحم دلی کے جذبات ایک ساتھ ابھرتے ہیں، اور نفرت محبت کا ہاتھ تھام لیتی ہے۔

اب میں آپ کو حفیظ تبسم کے اس مجموعے سے چند نظمیں سناتا ہوں جو نسبتاً کم absurd ہیں تا کہ ہم سب انھیں قدرے آنسانی سے decode کر سکیں۔ 

وحشی بگولوں کی سر زمین

خدا کے شہر میں رات

سال بھر لمبی نیند میں دنیا کا منظر نامہ دیکھ رہی ہے

مگر میں نہیں دیکھنا چاہتا

روز کا دیکھا ہوا منظر

میں نہیں گننا چاہتا

فردِ جرم میں لکھی زنجیر کی کڑیاں

آسمان مجبور باپ ہے

جس کے آنسو بنجر زمین پر گر رہے ہیں

زمین کے دل میں خدا کی نیند پڑی ہے

اور نیند میں بھوکی طوائف سگریٹ کا دھواں پھانک رہی ہے

چاند کے چہرے پر خون کے دھبے لگے ہیں

چرخہ کاتتی بڑھیا کی آنکھیں رونے سے سوج رہی ہیں مگر وہ جوان لڑکیوں کے جہیز کے لیے سوت کاتتی گا رہی ہے

اُس شاعرہ کا لکھا گیت

جو چاند پر گھر بنانے کی خواہش میں بوڑھے شاعروں سے حاملہ ہوتی رہی تھی

چھپر ہوٹل میں ریڈیو چل رہا ہے

میں سنتا ہوں

خبر ہے کہ

بنجر زمین پر انسانی سر اگ آئے ہیں جنھیں ہمسایہ ملک درانتیوں سے کاٹنے کا منصوبہ بنارہا ہے

میں سڑک کے کاندھے پر سر رکھ کر سوچتا ہوں

آدمی کی بنائی

بے گانگی کی دیوار کے بارے میں

اور ایک کتا میرا بھیجا چبانے لگتا ہے 

اس ایک نظم میں آپ کو مذہب، طبقاتی جبر، نام نہاد ادیبوں کی کارستانیاں، بین الاقوامی سیاست کی چیرہ دستی اور اس سارے منظر نامے سے پنپتی انسانی نفسیات نظر آجائے گی اور یہ سب اتنا علامتی ہے کہ بہت سی باتیں کھل بھی نہیں پائیں گی۔ ایسی شاعری میں علامتیں کسی ایک نظم تک محدود نہیں ہوتیں، بل کہ اِن کا جال مختلف نظموں پر پھیلا ہوتا ہے۔ اب اسی نظم کی آخری لائن میں کتا بہ طورِ علامت آیا ہے۔ تو آئیے اس علامت کو ایک اور نظم کی مدد سے decode کرتے ہیں۔ نظم کا عنوان ہے 

کتے کی حمایت میں

کتا

جس کے گلے میں کارڈ لٹک رہا ہے

خالی کارڈ

یہاں

ہم سب کو (کتے سمیت)

اشارے کنائے میں بات کرنا ممنوع ہے

کتا

دیوار پر پیشاب کر سکتا ہے

دیوار چاہے عبادت گاہ کی ہو

تعلیمی ادارے

یا گھر کی

مگر ہم پتھر مار کر بھگا نہیں سکتے

کتا

نمک حلال جان وروں کے درجے میں آتا تھا

مگر جب سے حرام کی ہڈیوں پر مُنھ مارنے لگا ہے

بغیر وجہ بھونکتا ہے

کہ جان وروں کی فہرست سے خارج کرنے کو جی چاہتا ہے 

مگر ہم ایسا کر نہیں سکتے

تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟

حفاظت کے لیے کتا رکھنا بھی ضروری ہے

میرا خیال ہے کہ مجھے اب اس علامت کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کہ سمجھنے والوں کے لیے اس نظم کی آخری لائن نے علامت کو بہت واضح کر دیا ہے۔ آئیے اب ایک وہ نظم بھی دیکھ لیتے ہیں جو نسبتاً زیادہ absurd ہے۔ نظم کا عنوان ہے۔ 

بدھا بھی مارا گیا

خواب دیکھتا ہوں کہ بدھا

شہر کی اونچی عمارت پر خود کشی کے لیے کھڑا ہے

نصف رات کی تاریکی میں زمین کی طرف بڑھ رہا ہے کہ موت سے گلے مل سکے 

موت بھاگ نکلتی ہے اور بدھا سیڑھیاں چڑھتا ہے

میں اپنے بستر پر بیدار ہوتا ہوں

چہرہ کانپ رہا ہوتا ہے

اور نیم غنودہ آنکھوں میں

ایک ان کہی داستان پھانسی کے پھندے پر جھول جاتی ہے

(تین سال گزرے تو…) 

خواب دیکھتا ہوں کہ بدھا

اونجی عمارت کی منڈیر سے جھانک رہا ہے

اس کی آنکھوں میں موت کے لیے محبت ہے، جب موت کا اعلان کرتی ایمبولینس کا سائرن چیختا گزرتا ہے

وہ خدا سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے 

خدا کے ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی رہتی ہے 

مگر خدا فرشتوں کے خط پڑھنے میں مشغول ہے

(دس سال گزرے تو…)

خواب دیکھتا ہوں کہ بدھا 

شہر کی سڑکوں پر وائلن بجاتے گزرتا ہے 

وہ مردہ خانوں کے بورڈ دیکھ کر مسکراتا ہے اور چلتا ہے 

اسے کوئی نہیں پہچانتا، ہر شخص بھوت کی طرح خاموشی کے کنارے پر کھڑا ہے، اور کوئی ہاتھ مصافحے کے لیے نہیں بڑھتا

(اٹھارہ سال گزرے تو…)

خواب دیکھتا ہوں کہ بدھا

شہر کی سڑک پر مردہ پڑا ہے اور بم دھماکے کے عینی شاہدین 

شور مچاتے ہیں کہ خودکش کے اعضاء 

یہ رہے یہ یہ یہ 

اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ بدھا ہے

اس نظم میں بدھا کے کردار کو خاطر خواہ decode کرنے کے لیے بھی ہمیں دوسری نظموں سے رجوع کرنا پڑے گا جہاں بدھا کا ذکر ہے۔ اب یہ کام میں آپ لوگوں پر چھوڑتا ہوں۔ اس مجموعے کی ایک دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ اس کی پہلی نظم ‘سفرنامے کا دیباچہ’ اور آخری نظم ‘ہوا بھرے ہوئے انقلاب کے لفافے’ Absurd نہیں ہیں۔  ایسی اور بھی نظمیں اس مجموعے میں ہیں جو ایک ہی موضوع  گرد گھومتی ہیں، ان میں وحدتِ تأثر باآسانی مل جاتا ہے بہ ہرحال اُن کا اُسلوب چھوٹی چھوٹی علامتوں کے کولاژ کی طرح ہے۔

سفرنامے کا دیباچہ

تاریخ کے آغاز سے کچھ پہلے 

انسان نے تنہائی سے تنگ آ کر 

چار دیواری کا خوف اُتار پھینکا

اُس نے پتوں کا لباس ایجاد کیا 

اور حفاظت کے لیے نیزہ بھی

جب سفر کی سوچ پیدا ہوئی

نقشہ ایجاد کر لیا گیا

جس میں منزل کا کوئی نشان نہیں تھا

جب دور دراز کے سفر پر چلنے کا خواب نازل ہوا 

جوتے کی دریافت پہلے ہوئی

یا پھر سواری کی 

ابتدائی تاریخ خاموش ہے

پانی کے لیے مشکیزہ ایجاد ہوا 

اور سفری سامان کے لیے گھٹڑی 

جس کے خد و خال آج سے ملتے جلتے ہیں

گھٹڑی میں سب سے پہلے نقشہ رکھا گیا

اور بوڑھوں کی چند نصیحتیں بھی 

اور تنہائی کے پھیلتے خوف نے

سات برِّ اعظم دریافت کر لیے

اب آپ کو اس کتاب کی آخری نظم سناتا ہوں، جس کا عنوان ہے

ہوا بھرے ہوئے انقلاب کے لفافے

دھوپ میں اُگا دن ہو

یا دھند میں کھوئی شام

گھنے درختوں کے سائے میں آباد ڈھابے پر

بوڑھا انقلابی

نیم جان کرسی پر اکڑوں بیٹھا

تیز مارکسی چائے میں ماؤ کمپنی کے بسکٹ ڈبو کر کھاتا ہے

لینن برانڈ کے سگریٹ پھونکتے بتاتا ہے

میری دنیا بے انصافیوں سے بھری پڑی ہے

کوئی کہیں بھی ایک روٹی کے لیے

انسان کا گلا کاٹ سکتا ہے

کچھ نوجوان

جنھیں تمام پیشوں سے خوف آتا ہے

نعرہ لگاتے ہیں

انقلااااب

روز یہی کچھ ہوتا ہے/ ہوتا کچھ بھی نہیں

یہ نظم فی زمانہ پاکستان میں جو لوگ خود کو کمیونسٹ کہتے ہیں اُن کی غیر فعالیت پر تنقید ہے، نظم آغاز سے اختتام تک اسی موضوع کے مختلف زاویے پیش کرتی ہے۔ آخری سطر اس نظم کی punch line ہے جو طنزیہ انداز میں کمیونسٹوں پر تنقید کرتی ہے۔ اس طرح کی علامتی نظموں میں punch line کی بہت اہمیت ہوتی ہے جو انکشاف یا سوال کی صورت میں نظم کا معنوی دائرہ مکمل کرکے شعریّت کو مہمیز کر دیتی ہیں۔ آخر میں آپ کو وہ نظم سنا کر اجازت چاہوں گا جس کے عنوان پر اس مجموعے کا عنوان رکھا گیا ہے اس نظم میں ایک ہجرت سے بات شروع ہوتی ہے جو اختیاری ہے اور دوسری ہجرت پر ختم ہوتی ہے جو جبریہ ہے ۔ نظم کا عنوان آپ سمجھ گئے ہوں گے، یعنی

جہنم کے گردو نواح میں

رنگ و نسب کے نام پر

ہجرت کا اعلان ہوا

ہم بڑوں کی انگلی تھامے

ادھر آئے

اور سڑک کے کنارے تختی پر لکھے حروف دیکھ کر رک گئے

“جہنم دس میل آگے ہے”

اور بلا اجازت خیمے گاڑ دیے

ہم نہیں جانتے

بارش کے انتظار میں کتنے دن گزرے

اور بچوں نے کب

قحط زدہ علاقے کا قومی گیت ایجاد کیا

یہی وہ جگہ ہے جہاں

ہماری عورتیں

دھوپ میں دعائیہ کلمات پڑھتے بانجھ ہوئیں

اور بوڑھے

اپنے کیے پر ندامت محسوس کرتے مرنے لگے

ایک دن

اونچی چٹان پر سجدے کے دوران

بوڑھے شاعر نے کتاب سے آخری نظم نکالی

جو کم زور ہاتھوں سے کھائی میں جا گری

اور اس کے ساتھ امید بھی

یہی وہ جگہ ہے جہاں

کئی دنوں سے خالی دن میں

پرانے کیلنڈر سے سارے تہوار منسوخ کر کے

بینر لکھا گیا

جہنم کے گرد و نواح میں بستے لوگ

روزنامچے بغل میں لیے

ایک اور زمین اور آسمان کی تلاش میں نکل جائیں