آیا صوفیا، مسجد قرطبہ، بابری مسجد، اسلام آباد کے مندر کی فکری و فقہی اقلیدس
از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
دین خدا کی ہدایت بنا کر انسانوں کو دیا گیا تا کہ وہ اپنا تزکیہ کریں اور دوسروں کو بھی اس سے آگاہ کریں، تا کہ وہ بھی اپنا تزکیہ کریں اور سب آخرت کے امتحان میں کام یابی حاصل کریں۔ ہمارا جُزوِ ایمانی ہے کہ سب پیغمبروں کو، جنھیں ہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے، یہی دین دے کر بھیجا گیا تھا۔
محمد رسول اللہ ﷺ آخری پیغمبر تھے۔ ان کی تعلیمات محفوظ کر دی گئیں۔ اب یہ انسانوں کو وہی یاد دہانی کراتی ہیں جن کی تعلیم کبھی ان کے پاس بھی تھی۔
دین کی یہ دعوت دی جائے گی، لیکن اس تعلیم کے حاملین ہونے پر شیخی نہیں بگھاری جائے گی کہ جو ہمارے پاس ہے وہ تمھارے پاس نہیں۔ ہم برتر اور تم کم تر ہو۔
یہ خیال جیسے ہی پیدا ہو گا، دین کے بنیادی پیغام کی نفی ہو جائے گی۔ اس پر دوسروں سے پہلے خود اپنی اصلاح کی طرف متوجہ کیا جائے گا۔ دین کے نام پر بَرتری کا خیال جب پیدا ہو جاتا ہے تو دین قومی فخر کی علامت بن جاتا ہے، ہدایت اور تبلیغ کی ذمے داری نہیں رہتا۔
دین، در حقیقت، فخر کی نہیں، فکر کی چیز ہے؛ یہ ملکیت نہیں، امانت ہے۔ اسے دوسروں کو ہم دردی سے پہنچانے کی ذمے داری ہے، انھیں زچ کرنا اس کا مقصود نہیں۔
کعبہ کی اولین حیثیت مسجد کی تھی، جسے مشرکین کی بت پرستی نے بدل دیا تھا۔ محمد رسول اللہ ﷺ نے اسے بتوں کے قبضے سے وا گزار کرایا۔
پھر حجاز (جزیرۂِ نمائے عرب)کی ساری سَر زمین سے تمام بت خانوں کو ہٹا دیا۔ یہ تطہیر کعبہ کی توسیع تھی کہ اُمُّ القریٰ، مکہ اور اس کے ارد گرد کے علاقے کو اسلام کے مرکزِ توحید کے لیے مخصوص کر دیا جائے۔
یہی وجہ تھی کہ عرب ممالک میں بننے والے مندروں کی تعمیر پر ہم نے مخالفت کی، اور اب بھی یہ مطالبہ ہے کہ انھیں ہٹا دیا جائے۔ لیکن حجاز کا یہ خصوصی سٹیٹس عام نہیں کیا گیا۔
کسی دوسرے علاقے کی فتح کے بعد صحابہ نے وہاں موجود غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو نہیں گرایا، بل کہ نئی عبادت گاہوں کے بنانے کی مَناہی بھی نہیں کی۔ چُناں چِہ نئی عبادت گاہیں بھی بنتی رہیں۔
ہارونُ الرَّشید کے مصری گورنر نے __ سابق گورنر کی طرف سے جو نئے تعمیر شدہ گرجے گرا دیے گئے تھے __ اُن کی تعمیرِ نو کرائی تھی۔
عقیدے کے انتخاب اور اس پر عمل کی آزادی خدا کی طرف سے دیا گیا بنیادی حق ہے جس کا لازمہ ہے کہ عبادت گاہیں بھی بنیں گی تا کہ اس میں خدا کی دی اس آزادی پر عمل ممکن ہو۔
یہ آزمائش کا میدان ہے۔ اس آزمائش کو روکنا اور اس میں رکاوٹ ڈالنا دینی جبر ہے جسے قرآن نے فتنہ کہا ہے اور خود مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اس کے خلاف اس وقت تک لڑتے رہو جب تک یہ ختم نہ ہو جائے۔ مسلمان کا خود جبر کا علَم بَردار بن جانا المیہ ہے۔
پاکستان قومی ریاست ہے جو اس اُصُول پر مبنی ہے کہ یہاں تمام شہری برابر ہیں۔ حکومت مسلم و غیر مسلم سب کی نمائندہ ہے۔ ٹیکس اسی برابری کی بنیاد پر بلا امتیاز مذہب لیا جاتا ہے۔
وزارتِ مذہبی امور تمام مذاہب کے مذہبی امور کی ذمے دار ہے۔ یہ فقہ کے لیے نیا مظہر ہے۔ اس پر قدیم فقہی قوانین لاگو ہی نہیں ہوتے۔
جب تک یہ قانونی صورتِ حال تبدیل نہیں ہوتی، پاکستان کے مسلم حکم رانوں سے مندر اور مسجد میں تفریق کے مطالبات غیر قانونی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلم حکم رانوں کو سیکولر ثابت کیا جا رہا ہے۔
متعلقہ تحریریں:
Hagia Sophia deserves to be church again by, Dr Irfan Shahzad
ہمارا سوشل میڈیا، عمومی مباحث اور اخلاقی احساس برتری کا مسئلہ از، یاسر چٹھہ
سیاسی اسلام، جنگ جُو ریاست اور غلبہ گیر وطنیت از، نصیر احمد
شریعت مسلم حکم رانوں کو مسلم اجتماعیت سے متعلق بھی حکم دیتی ہے، مگر وہ شرعی احکام مسلمانوں پر لاگو ہوتے ہیں، غیر مسلموں پر نہیں۔
دین کی دعوت اور تبلیغ اگر مدِّ نظر ہو تو انسانی جذبات کے استِحصال سے بچنے کی کوشش ہی دین ہے۔
نبی اکرمﷺکی خواہش تھی کہ کعبہ کو اس کے اصلی نقشے پر دوبارہ تعمیر کر دیں، کیوں کہ قریش نے اسے بدل دیا تھا اور آج بھی یہ قریش کے بنائے ہوئے نقشے پر قائم ہے۔
حطیم، جو اب ہمیں کعبے سے باہر نظر آتا ہے، یہ اصل میں کعبہ کے اندر تھا۔ مگر آپﷺ نے اپنی اس خواہش پر عمل نہیں کیا اور وجہ یہ بیان کی کہ لوگ ابھی نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہیں، وہ اس سے گڑبڑا جائیں گے کیوں کہ ان کے لیے کعبہ اور اس کا نقشہ تک سب مقدس ہے۔ کسی تبدیلی کو وہ پسند نہیں کریں گے۔ اب بھی اگر یہ کر دیا جائے تو عام مسلمانوں میں پریشانی پیدا ہو جائے گی۔
یہ چُوں کہ کوئی دین کا مطالبہ نہیں تھا کہ کعبہ کو کس شکل میں رکھنا ہے، اس لیے آپﷺ نے غیر ضروری ہیجان پیدا کرنے سے گریز فرمایا۔
آپﷺ نے مسیحی وفد کو جِسے آپ اسلام کی دعوت دے رہے تھے، مسجدِ نبوی میں اپنی عبادت کرنے کی اجازت دی۔ اس معاملے میں انھیں نیچا نہیں دکھایا کہ تم پَوِتر نہیں، تمھاری عبادت شرک ہے، نجس ہے، اس لیے مسجد سے باہر جا عبادت کرو۔
اسی طرح جب حضرت عمرؓ نے دمشق فتح کیا اور یروشلم کا شہر فتح ہوا تو آپ نے بیت المقدس کی خدا کی طرف سے دی گئی تقدیس کے با وُجود، اس میں موجود یہودی اور مسیحی عبادت گاہیں ختم نہیں کیں، جہاں مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مان کر پوجا جاتا تھا۔ مسلمانوں کی عبادت کے لیے انھوں نے الگ سے مسجد اقصیٰ کی تعمیر کرا دی مگر اسی احاطے میں موجود یہودی اور مسیحی عبادت گاہوں کو تبدیل نہیں کیا۔ حالاں کہ ایک فاتح کی حیثیت سے انھیں اس کا پورا اختیار تھا۔
اگر کوئی فِقہی مُو شگافی یہاں یہ کہہ کر پیدا کی جائے کہ یہ شہر معاہدہ کی رُو سے فتح ہوا تھا، اس لیے ان عبادت گاہوں کی حیثیت بدلی نہیں گئی، تو سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے دوبارہ بَہ زور فتح کیا تھا۔ مگر اِنھیں بھی بیت المقدس کی حالت میں تبدیلی کی نہ سوجھی۔
سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کر نے کے بعد آیا صوفیہ، Hagia Sophia جو ہزار سال سے زائد ایک مقدس چرچ کے طور پر مستعمل رہا، اس کو مسجد میں تبدیل کر دیا۔ اس کارروائی کے غیر اخلاقی ہونے میں کسی ذی شعور کو شبہ نہیں ہو سکتا۔ قرآن و سنت میں اس کا حکم ہے نہ اجازت۔
اس کا جواز اس وقت کے مُروّجہ بین الاقوامی سیکولر قوانین سے لانا کہ بَہ زور طاقت فتح کیے گئے علاقے پر حکم رانوں کو حقِّ تصرف حاصل ہوتا تھا، دین کی اخلاقی پوزیشن پر حملہ ہے اور اشد بے توفیقی ہے۔ دینی اقدامات کا جواز تو دین سے ہی لانا پڑے گا۔
اگر سلطان نے اسے مسیحیوں سے خرید لیا تھا، جیسا کہ دعویٰ کیا جا رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ مسیحی اس کو بیچنے کے مجاز تھے؟ عبادت گاہوں پر انسانوں کا حقِّ ملکیت نہیں ہوتا۔ تو کس نے سلطان کو بیچا اور کس جواز پر بیچا؟ اور اگر مان بھی لیا جائے کہ اسے بیچا گیا تو ایک قدیم مقدس عبادت گاہ کو کس نے خوش دلی سے مسجد میں تبدیل کرنے کے لیے بیچا ہو گا؟
اور اگر پادریوں نے بالفرض لالچ میں آ کر یہ کام کر دیا تو عوام کے جذبات مجروح کرنے کا جرم کس کے سر ہے؟ محکومی کی حالت میں کسی عام مسجد کی بولی لگانے پر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا کیا عالم ہو گا؟ اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ یہ چرچ تو پھر کوئی عام چرچ نہیں تھا۔
طاقت کے اسی مروّجہ قانون کے تحت مسلمانوں نے مسجدِ قرطبہ کو کھویا تھا۔ مگر کیا طاقت کا قانونی جواز اس کے کھونے کا زخم مندمل کر سکتا ہے؟ اس کا نوحہ آج تک جاری ہے۔ عثمانی سلطان کا چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا اقدام کسی طرح بھی دینی اخلاقیات سے ہم آہنگ نہیں تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ اقدام کِیا ہی کیوں گیا تھا؟ کیا یہ دینی مطالبہ تھا، یا دین کے نام پر اس کا مقصد محکوم مسیحیوں کو زچ کرنا تھا کہ انھیں ان کی ایک مقدس ترین عبادت گاہ سے محروم کیا جا رہا تھا اور وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے؟
اس کے بعد 1934 یا 1935 میں اسے میوزیم میں بدلا گیا تو اس وقت تو ایک طاقت ور سیکولر آمر مصطفیٰ کمال کی حکومت تھی، جن کے خلاف کسی سے کچھ بن نہ پڑا۔i
آیا صوفیہ، Hagia Sophia کے میوزیم کے سٹیٹس پر ایک عرصہ سے مسلم اور مسیحی دونوں نے سمجھوتا کر لیا تھا کہ یکا یک پھر سے غیر ضروری طور پر اسے مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
اب پھر وہی سوال ہے؟ کیا یہ دین کا مطالبہ ہے، یا آج پھر مسیحیوں کو زچ کرنا مقصود ہے؟ آپ دین کو قومی فخر کا ذریعہ بنا کر مقدمہ جیت سکتے ہیں، مگر اخلاق کے میدان میں آپ ہار چکے ہیں۔
کعبہ اور بیت المقدس کے علاوہ کسی خاص جگہ مسجد ہونی چاہیے یا نہیں، یہ دین کا مطالبہ نہیں، یہ مسلمانوں کا فیصلہ اور ان کی خواہش پر مبنی ہے۔ ان کا یہ فیصلہ اگر خدا کی رضا کے حصول کے لیے ہے تو اس میں دوسروں کو زک پہنچانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ مسجد خدا کے گھر کے طور پر دیکھی جانی چاہیے نہ کہ رقابت اور قومی فخر کی علامت کے طور پر۔
بابری مسجد کو مندر بنانے کے پیچھے بھی ہندو انتہا پسندوں کی وہی قومی فخر کی نفسیات کارِ فرما تھی۔ بابری مسجد کی جگہ پر ہی مندر بنانے کا مطالبہ ان قوم پرست ہندووں کا تھا جو مسلمانوں کو زچ کرنا چاہتے تھے کہ نہ ہندو دھرم میں ایسا کوئی حکم دیا گیا تھا۔
اس غیر ضروری مطالبے نے فسادات برپا کیے، کئی جانیں گئیں اور ایک ہی ملک کے باشندوں میں نفرت اور عدم تحفظ کے احساسات پیدا کیے۔
مثبت اقدار اور سماجی پیش رفت رک جاتی ہے تو لوگ غیر ضروری جھگڑوں میں پڑ جاتے ہیں۔ دین کو قومی فخر بنا لینے کی یہی نفسیات پاکستان میں مندر کے خلاف اور ترکی میں آیا صوفیہ کو مسجد بنانے کی ضد میں کارِ فرما ہے۔
دین قومی فخر کا ذریعہ بن جائے تو یہ دینی قومی فخر کیا ستم ڈھاتا ہے اس کا احوال سلطنتِ یہودیہ کے فقیہوں کے حالات میں پڑھیے، جن کے لیے دین فقہی مُو شگافیوں اور قومی فخر کا ذریعہ بن کر رہ گیا تھا۔
دین کی حقیقی روح کی باز یابی اور اخلاق و حکمت پر مبنی مسیح علیہ السلام کی باتیں ان کے پندار کے تازیانہ تھیں۔ اپنے اس قومی فخر پر انھوں نے مسیح علیہ السلام کو اپنے تئیں ان کی اخلاقیات سمیت قربان کر دیا تھا۔
ہم بھی بَہ ہر حال اپنی صلیب اٹھائے ہوئے دین کا اخلاقی مقدمہ لڑتے ہیں، اور دین کو قومی فخر بنا لینے کے رجحان کے نقصانات سے آگاہ کرتے ہیں۔