حیرت کدہ
از، ڈاکٹر شاہد صدیقی
ایک دنیا ہمارے حواس کی دنیا ہے، جہاں کی اشیاء کو ہم اپنی عقل کی کَسَوٹی پر جانتے اور منطق کی میزان پر پرکھتے ہیں۔ اس physical دنیا سے ما ورا ایک metaphysical دنیا ہے۔ سَرا سَر حیرت کدہ۔ جہاں کی اشیاء نہ ہماری عقل کی کسوٹی پر جانی جا سکتی ہیں، نہ ہی منطق کی میزان پر پرکھی جا سکتی ہیں۔ اس دنیا کی اپنی منطق ہے، جو ہماری عقل سے ما ورا ہے۔ ایک اسرار کی دھند ہے، جو یہاں سے وہاں تک چھائی ہوئی ہے۔
پچھلے دنوں میں دیوان سنگھ مفتون کی سوانح عمری” نا قابل ِفراموش” پڑھ رہا تھا۔ کتاب کیاہے، ایک آتش بجاں شخص کی شبانہ روز محنت اور ہندوستان کی ریاستوں کے راجاؤں سے مسلسل آویزش کی داستان ہے۔ دیوان سنگھ اپنے زمانے کے مشہور اخبار ریاست کا ایڈیٹر رہا۔ وہ گوجرنوالہ میں پیدا ہوا، پرائمری تک تعلیم وہیں سے حاصل کی، لیکن پانچویں جماعت کے بعد تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔
مفتون کے صحافتی اور ادبی کارناموں کودیکھیں، تو یقین نہیں آتا، لیکن سکول کی تعلیم کی کمی کو دیوان سنگھ نے اپنی محنت، لگن اور ذاتی تربیت سے پورا کیا۔ ہندوستانی ریاستوں کے نازک مزاج راجاؤں سے پنجہ آزمائی کے نتیجے میں وہ تمام عمر مقدمے بھگتتا رہا، کئی بار اسے ہندوستان کی مختلف جیلوں میں جانا پڑا۔
یہ بھی ان دنوں کاقصہ ہے، جب دیوان سنگھ مفتون دہلی جیل میں تھا، وہاں اُس کی دوستی سٹور کیپر سردار جاگیر سنگھ سے ہوگئی۔ وقت کاٹنے کے لیے وہ کچھ دیر کے لیے سردار جاگیر سنگھ کے پاس جا بیٹھتا تھا۔
ایک دن سردار جاگیر سنگھ نے جیل کے ایک اور ملازم سے مفتون سنگھ کا تعارف کرایا۔ یہ ملازم بیل گاڑی چلاتا تھا۔ ریلوے سٹیشن پر مال لے جانے اور لانے کا کام کرتا تھا۔ سردار جاگیر سنگھ نے اس کے بارے میں بتایا کہ وہ شخص بھوتوں کاعلم جانتا ہے اور رات بھر قبرستانوں، مر گھٹوں اور جنگلوں میں مارا مارا پھرتا ہے اور وہ جو شے چاہے بھوتوں سے منگوا سکتا ہے۔
مفتون سنگھ کبھی بھوتوں اورجنوں کا قائل نہیں رہا۔ اس شخص کے بارے میں سن کر مفتون سنگھ کے اندر کا صحافی جاگ اٹھا اور اس نے سوچا اس شخص کے بارے میں کھوج لگانا چاہیے، کیا اس قصے میں کچھ حقیقت ہے یا محض افسانہ ہے۔ مفتون نے اُس شخص سے پوچھا کہ کیا واقعی بھوتوں سے اس کا رابطہ ہے اور کیا یہ سچ ہے کہ وہ بھوتوں کے ذریعے کوئی چیز منگوا سکتا ہے۔ اس شخص نے ٹال دیا۔ اس پر مفتون سنگھ کا شک گہرا ہو گیا۔ اس نے اصرار کیا۔
اس شخص نے پھربات اِدھر اُدھر کر دی، لیکن مفتون سنگھ بھی ہار ماننے والا نہیں تھا۔ اس نے سٹور کیپر جاگیر سنگھ سے بھی سفارش کرائی۔ بار بار کے اصرار اور سردار جاگیر سنگھ کے کہنے سے آخرِ کار وہ شخص راضی ہو گیا۔ اب آگے کا قصہ مفتون سنگھ کی زبانی سنیے:
”گرمی کازمانہ تھا اور دوپہر کاوقت۔ اس کے جسم پر صرف ایک کرتہ اور ایک پا جامہ تھا۔ اس نے ایک چادر طلب کی، جو گودام میں سے ہی اس کو دے دی گئی۔ وہ چادر کو لپیٹ کر بیٹھ گیا اور مُنھ سے کچھ پڑھتا رہا، اس کے بعد اس نے کہا: کیا چاہتے ہو؟ میں نے جواب دیا: گرم اور تازہ مٹھائی منگا دو۔ جیل کے اندر مٹھائی کا لانا، بنانا یا رکھنا قانوناً ممنوع ہے۔ میں نے اسی لیے اس سے مٹھائی منگانے کے لیے کہا. چُناں چہ چند منٹ کے بعد اس نے چادر کو اٹھایا تو پتوں کے ایک بڑے دُونے میں مختلف قسم کی تازہ اور گرم مٹھائی موجود تھی۔
میں نے یہ مٹھائی نہیں کھائی، کیوں کہ اس شخص کے قبرستان اور مر گھٹ میں راتوں کو پھیرے اور بھوتوں کے ذریعے مٹھائی لائے جانے کے باعث میرے دل میں نفرت سی پیدا ہوچکی تھی۔ وہاں بیٹھے ہوئے کئی قیدیوں نے یہ مٹھائی لے لی اورہمارے سامنے کھائی۔
یہ تازہ گرم مٹھائی کہاں سے آئی تھی، مفتون سنگھ حیرت زدہ تھا۔ اس نے ملازم سے کہا: اگرتم کوئی بھی چیز کہیں سے منگوا سکتے ہو تو اس غربت کی حالت میں کیوں رہتے ہو؟ ملازم نے کہا: کوئی بھی چیز کہیں سے منگوانا میرے لیے مشکل نہیں، لیکن منگوائی ہوئی چیز کو واپس اسی جگہ رکھنا ہوتا ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے، تو بھوت ناراض ہو جاتے ہیں۔ یہ اصول البتہ کھانے پینے کی چیزوں پر لاگو نہیں ہوتا۔ اب مفتون سنگھ کی زندگی کاایک اور واقعہ۔
مزید دیکھیے: تمدنی ترقی میں عقل اور وجدان کی کشا کش از، پروفیسر محمد حسین چوہان
مفتون کاقیام دہلی میں تھا۔ دہلی میں جون کے آخری ہفتے میں بارشوں کاآغاز ہو جاتا تھا، لیکن اس سے پہلے کے دو ہفتے شدید گرمی کے ہوتے۔ مفتون سنگھ کامعمول تھا چھ سات جون کے قریب جب دہلی میں شدید گرمی کا آغاز ہوتا، وہ دو ہفتے کے لیے ممبئی چلا جاتا۔ جب دہلی سے تار ملتا کہ بارش کا آغاز ہو گیا ہے، وہ دہلی واپس آ جاتا۔ انہیں دنوں کی بات ہے۔ دہلی میں شدید گرمی کا آغاز ہو چکا تھا اور مفتون بذریعہ ٹرین دہلی سے ممبئی جا رہا تھا۔ آج کل بھی وہ ایک مقدمہ بھگت رہا تھا۔ سٹیشن پر اس نے ”ٹائمزآف انڈیا” کا رسالہ خریدا۔ اس میں ایک اشتہار دیکھا، لکھا تھا ”آئندہ کے پچھلے حالات روح کے ذریعے کاغذ پر لکھے جاتے ہیں۔ اشخاص سے بھی بات چیت کی جاسکتی ہے۔”
اشتہار دینے والے کا نام محمود بے مصری تھا۔ مفتون سنگھ نے دیے گئے نمبر پر رابطہ کیا اور اگلے روز محمود بے مصری سے ملاقات کا وقت طے ہوگیا۔ آگے کا احوال مفتون سنگھ کی زبانی سنیے:
”میں اگلے روز شام کو مسٹر محمود بے کے پاس پہنچا۔ انہوں نے تکلف کے ساتھ چائے کا انتظام کیا تھا اور وہ ایک خوب صورت یورپی لڑکی(جواُن کی سیکرٹری تھیں) کے ساتھ بیٹھے میرا انتظار کر رہے تھے۔ میں جب پہنچا تو آپ نے میرا گرم جوشی کے ساتھ خیر مقدم کیا، ہم تینوں نے بیٹھ کر چائے پی، مقدمہ اور اخبار کے متعلق باتیں ہوتی رہیں۔
جب ہم چائے پی چکے، تومیں نے کہا کہ اب میں اصل مقصد بیان کرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کی روحانی تحریر کو دیکھوں، جس کا آپ نے اخبار میں اشتہار دیا ہے۔ مسٹر محمود بے نے بیرا کو آواز دی، چائے کی میز خالی کر دی گئی اور آپ نے میرے ہاتھ میں ایک بالکل کورا کاغذ دیا اور کہا کہ بغیر ان کو دکھائے اس کاغذ پر تین یا پانچ سوالات لکھ لیے جائیں اور لکھنے کے بعد اس کاغذ کو تہ کر دیا جائے۔ مسٹر محمود نے یہ کہہ کر اپنی سیکرٹری کے ساتھ دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ میں نے تنہائی میں پنسل کے ساتھ یہ سوالات لکھے:
۱۔ آج دہلی میں بارش ہوئی یا نہیں؟
۲۔ آج امریکہ میں گندم کا کیا نرخ ہے؟
۳۔ مقدمہ میں جیتوں گا یا ہاروں گا؟
ان سوالات کولکھ کر میں نے کاغذ کو تہہ کیا اور مسٹر محمود بے کو آواز دی کہ آ جائیے۔ مسٹر محمود بے آ کر میز کی دوسری طرف بیٹھ گئے اور مجھ سے کہا کہ تہہ شدہ کاغذ کو پنسل کے ساتھ اپنے ہاتھ میں رکھ لوں۔ میں نے ایسا کیا۔ مسٹر محمود بے مجھ سے دور بیٹھے رہے اور مُنھ سے کچھ پڑھتے رہے۔ پانچ سات منٹ پڑھنے کے بعد آپ نے مجھ سے کہا کہ میں تہ شدہ کاغذ کھولوں۔ میں نے جب کاغذ کھولا تواس میں ہر سوال کے آگے جواب لکھا تھا:
۱۔ آج دہلی میں بارش نہیں ہوئی۔
۲۔ امریکہ میں گہیوں کا نرخ چار روپیہ من ہے۔
۳۔ میں مقدمہ جیتوں گا۔
یہ جوابات پنسل سے ہر سوال کے آگے لکھے تھے اور اس قسم کی تحریر تھی، جیسے لکھنے والے کے ہاتھوں میں رَعشَہ ہو اور لکھتے ہوئے کانپتے ہوں۔ میں ان جوابات کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ کورا کاغذ لیا، خود سوالات لکھے۔ کاغذ میرے ہاتھ میں رہا، مسٹر محمود بے مجھ سے چُھوئے تک نہیں، یہ جوابات کون لکھ گیا تھا۔”
یہ دیوان سنگھ مفتون کا آنکھوں دیکھا احوال ہے۔ یاد رہے مفتون کا بُھوت پریت پرکبھی یقین نہیں رہا، لیکن یہ دونوں واقعات اس کی کھُلی آنکھوں کے سامنے ہوئے۔ اس کا ردِ عمل حیرت ہے۔ یہ حیرت ہر اس شخص کو ہوتی ہے، جو اشیاء کو اپنی عقل کی کَسَوٹی پر جانتا اور منطق کی میزان پر پرکھتا ہے۔ شاید metaphysical دنیا کے حیرت کدے میں عقل کی کسوٹی اور منطق کی میزان بے اثر ہو جاتی ہے۔ایک اسرار کی دھند ہے، جو یہاں سے وہاں تک چھائی ہوئی ہے۔