حاجی صاحب کے بارہویں حج کی تکمیل کا قصہ
افسانہ از، اسرار احمد شاکر
”یہ خود کُشی تھی یا طبعی موت۔“ مجھے اِس سے کچھ غرض نہ تھی۔ وہ کیوں مری تھی ……؟ اس کی موت کے اسباب کیا تھے ……؟ مجھے اس سے بھی کوئی سرو کار نہ تھا کہ میری کہانی اُس مرنے والی کے مصائب کا احاطہ کرتی؛ میں تو بس اتنا جانتا تھا کہ اس کی موت غیر واضح تھی، جو محض شک کی بنا پر میرے اِیقان و عقیدے کے مطابق، کوئی اچھی موت نہ تھی۔
اِس کے بر عکس، مجھے اُس خدا ترس اور دین دار شخص کے سر بستہ رازوں کی سر گزشت لکھنا تھی، جس کے لیے میں گھنٹوں کھڑا اس نیک سیرت انسان کی زیارت کا متمنی تھا، جو حج کی ادائیگی کے بعد گناہوں سے پاک ہو کر گھر لوٹ رہا تھا۔ یہ اس کی زندگی کا بارہواں حج تھا۔ جس کی سعادت اس نے اپنی عمر کے تیسرے عشرے کی تکمیل سے پہلے ہی حاصل کر لی تھی۔ آج جب وہ واپس گھر آ رہا تھا، میں، میرے محلے کے سبھی لوگ، اس کے احباب، سب اس کی آمد کے منتظر تھے۔
وہ اپنے شہر کا اکلوتا رئیس تھا، جس کی شہرت،پارسائی اور نیک نامی کا ڈنکا جا بہ جا سنائی دیتا تھا۔ دین و دنیا، دَھن، دولت، پیسہ، زیور، خدا کا دیا ہوا سب کچھ تھا اس کے پاس۔ لاکھوں کے عوض، شہر کی خوب صورت لڑکی بیاہ لایا تھا۔ اللہ نے اسے خوب صورت بیٹی سے نوازا تھا۔ صوم و صلوٰۃ کا پابند تھا وہ۔ کوئی ایک درجن حج کر رکھے تھے اس نے۔
میری مراد…… الحاج فضل خان صاحب ہیں …… جسے احتراماً لوگ حاجی صاحب کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس کی باتیں، اس کی نصیحتیں، اس کی سنائی ہوئی حکایتیں، جب وہ سنانے لگتا تو اہلِ محلہ، اس کی محفل میں بیٹھے ہوئے سب لوگ سن کر دنگ رہ جاتے تھے۔
”جب کوئی انسان گناہ کا کام کرتا ہے،کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے، کوئی بدی اس سے سر زد ہو جاتی ہے، تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ بن جاتا ہے۔ جوں جوں وہ جرم کی دنیا میں لمبے فرلانگ بھرتا ہوا تیزی سے آگے بڑھتا ہے، وہ سیاہ نقطہ اتنا ہی زیادہ پھیلتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ پورے دل کو سیاہ کر دیتا ہے۔ پھر انسان کثرتِ گناہ کا عادی ہو جاتا ہے۔“وہ کچھ توقف کے بعد نئے زاویے سے اپنی بات کو آگے بڑھاتا تھا۔
”سنو لوگو……!“ وہ ایک دم پہلو بدل کر کہتا اور لوگ اس کی بات سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہو جاتے تھے۔ ”ہاں …… مگر اللہ کا ذکر، فرائض کی پابندی اور انسانیت کی خدمت ہی دلوں کا زنگ مٹانے کے لیے قلعی کا کام دیتی ہے۔“ وہ باتوں باتوں میں دین کے باریک نقطے بڑی وضاحت سے بیان کر جاتا تھا۔ حج کی اہمیت تو اس کے نزدیک سب سے زیادہ مقدم تھی۔ حجازِ مقدس کی گلیاں، کوچے اور زیارتوں کی باتیں، دیارِ حرم کے قصے، وہ اس طرح بتانے لگتا جیسے لوگوں کی انگلی پکڑ کر انہیں یہ سب مناظر دکھاتا پھر رہا ہو۔
اپنی بات دھیرے دھیرے، سننے والوں کے دل میں اتارنے کا ڈھنگ اسے خوب آتا تھا۔ رات گئے دین کی باتیں بتانے کے بعد جب وہ اپنی حویلی جانے لگتا تو احساسِ تفاخر سے اس کی طبیعت سرشار ہو جاتی تھی۔ کچھ دیر کے لیے اسے ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے اہلِ محلہ پر اس نے اپنے علم کی دھاک بٹھا دی ہو۔ یوں لوگوں میں اس کی پارسائی کے چرچے عام ہونے لگے تھے۔
ایک رات جب وہ دیر گئے تک لوگوں کو پند و نصیحت کرنے کے بعد لیٹا تو صبح دیر سے اس کی آنکھ کھلی۔ وہ بڑی مشکل سے فجر کی نماز ادا کر پایا تھا۔ نماز کی ادائیگی کے بعدحسبِ معمول اس نے اخبار کا مطالعہ کیا،جو ہر روز اخبار فروش ناشتے سے پہلے اس کے گھر دے کر جاتا تھا۔ یہی وہ دن تھا جب اس نے اخبار کے سر ورق پر نظر ڈالی تھی اور حج کا قصد کر بیٹھا تھا۔
اخبار پر پڑنے والی پہلی نظر سے تو اس کا جی متلا یاتھا، لیکن آگے اس کی خوشی کا سامان بھی موجود تھا۔ در اصل کیا تھا کہ اخبار کے پہلے صفحے پر ایک تصویر چھپی تھی۔ اس تصویر میں تین بچوں کی ماں ’بچے برائے فروخت‘ کا اشتہار ہاتھوں میں تھامے کھڑی تھی۔ اور نیچے لکھا تھا: ”غربت اور مہنگائی سے تنگ ماں نے بچے بیچنے کا اعلان کر دیا۔“
”تف ہے ایسی ماں پر جو معمولی مصائب کا سامنا نہیں کر سکتی، بچے بیچنے، بازار چلی آتی ہے۔“ اس کا جی متلایا تو اس نے تلملا کر کہا تھا۔ پھراس نے حقارت بھری نظروں سے اس خاتون کی طرف دیکھا تھا اور دیگر خبروں کی جانب مُتوَجُّہ ہو گیا تھا۔ پہلی تصویر کا تاثر ابھی اس کے ذہن پر باقی تھا کہ دوسری تصویر اسے نظر آ تے ہی بھا گئی تھی، اس تصویر نے تو جیسے اسے نہال کر دیا تھا۔
یہ تصویر اپنے ملک کے بادشاہ زادے کی تھی، جو اعلیٰ قسم کا احرام زیب تن کیے ہوئے خانۂِ کعبہ کا طواف کرتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ تصویر کے نیچے بادشاہ کا نام لکھا تھا۔ یہ بھی لکھا تھا کہ یہ بادشاہ زادے کا گیارہواں سرکاری حج تھا۔ اخبار کے سر ورق پر چھپی ہوئی دوسری تصویر اس کے مزاج کا عین عکس تھی۔ جسے دیکھتے ہی بادشاہ زادے پر سبقت لے جانے کی چاہ اس کے دل میں انگڑائی لے کر جاگ اُٹھی تھی، اور وہ عازمِ حج ہوا تھا۔
حجازِ مقدس پہنچ کر، بڑی عقیدت کے ساتھ اس نے مقررہ ایامِ وہاں گزار دیے۔ بیت اللہ کا طواف، مقامِ ابراہیم پر دو گانہ، وقوفِ عرفات، مزدلفہ، منیٰ میں دوڑنا، اور پھر مقامات مقدسہ اور مدینہ شریف کی زیارت …… اسے بڑے بوڑھوں نے بتایا تھا کہ اس پوری عبادت کا مقصد در اصل ان جلیل القدر ہستیوں کے قدموں کے نشان ڈھوندنا ہے۔ جیسا ان بزرگوں نے کیا، مقصود ان کی یاد منانا ہے، جسے اللہ نے اپنی عبادت قرار دیا ہے۔
گو کہ اس کا من زیارات قدسیہ کی برکت سے سرشار رہتا تھا، مگر وہ متعدد بار حج کی ادائیگی کے سبب احساسِ برتری کی لذت میں بھی مبتلا ہو جاتا تھا، کہ وہ اس معاملے میں اپنے شہر کے سبھی لوگوں پر سبقت لے گیا تھا۔
حج کی ادائیگی کے بعد بالآخر اس نے واپسی کے لیے رختِ سفر باندھا، اور وہ دن بھی آیا جب حاجی صاحب کا قافلہ اپنے شہر کے قرب و جوار میں پہنچا۔ پھر کیا ہوا کہ اُسی لمحے ایک انہونی ہو گئی۔ ہوا یہ کہ اس کے بنگلے کے ساتھ واقع چھوٹے سے جھونپڑی نما مکان میں ایک بیوہ کا انتقال ہو گیا۔
وہ مر گئی، مگر اس کی غیر واضح موت نے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ اس نا گہانی موت نے حاجی صاحب کی آمد کی خوشی کو یوں گہنا دیا کہ شادمانی کے سارے رنگ پھیکے پڑ گئے۔
مجھے چوں کہ بیوہ کی موت سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ نہ ہی اس کی موت پر روتے بچوں کی آہیں اور سسکیاں مجھے اپنی جانب متوجہ کر پائی تھیں کہ میں بھی دیگر لوگوں کی طرح، حاجی صاحب کی آمد کے پیشِ نظر، ان کی راہ میں پلکیں بچھائے کھڑا تھا۔ ہاں کبھی کبھی مجھے لوگوں کا یہ ہجوم مویشیوں کے اس گلے کی طرح دِکھتا تھا، جسے چرواہے کی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہو، یا پھر بھیڑ بکریوں کے اس ریوڑ کی مانند، جس کی بھیں بھیں اور مئیں مئیں کے شور میں، ماں کی میت پر روتے بچوں کی آہ و بکا سنائی نہ دیتی ہو۔ اور میں اس ریوڑ کے بیچ بھیڑ کے بھولے بچے کی طرح، کبھی اِدھر، کبھی اُدھر بھئیں بھئیں کرتا پھرتا تھا۔ اتنے میں حاجی صاحب تشریف لے آئے،اور بہ یک آواز سبحان اللہ کی صدائیں بلند ہوئیں۔
حاجی صاحب کو گھر پہنچنے سے پہلے، اس کی پڑوسن بیوہ کی موت کی خبر مل چکی تھی۔ وہ اپنے زائرین کے ساتھ بیٹھک لگانے سے پہلے اس کے گھر چلا آیا۔ حاجی صاحب اور اس کے معتقد جب جھونپڑی نما مکان میں داخل ہوئے، اندر کا منظر بہت درد ناک تھا۔ بیوہ کی لاش بوسیدہ چٹائی پر دھری تھی۔ اس کی اَدھ کھلی آنکھیں ننھے منے بچے پر مرکوز تھیں، جو اپنی ماں کی موت سے بے نیاز، اس کی چھاتی سے چمٹا ہوا، دودھ پینے میں مصروف تھا۔
اس سے کچھ بڑے دو معصوم بچے،اپنی ماں کا چہرہ ہاتھوں میں لیے، اس سے کچھ بولنے کی ضد کر رہے تھے۔ مگر ماں یوں روٹھی تھی کہ ہر ممکن کوشش کے با وجود بچوں سے منائی نہ جاتی تھی۔ وہ خود تو مر گئی تھی، لیکن مرنے کے بعد تین بچوں کو ایسے سماج کے سپرد کر گئی تھی، جس سے وہ خود مفر چکی تھی۔
حاجی صاحب کے بنگلے والی دیوار کے ساتھ ایک بڑھیا ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ جس میں رونے کی سکت بھی نہ تھی۔ بار بار ایک دُہائی دیے جاتی تھی: ”ارے بیٹی ……چھوٹے بچے اس بڈھی کے سہارے چھوڑنے سے پہلے کچھ تو سوچا ہوتا…… ارے میں تو خود قبر میں پیر لٹکائے بیٹھی ہوں، انہیں کیسے سنبھالوں گی۔ اے کاش……! تیر ی جگہ میں مر جاتی……!“ بڑھیا کی مدہم سی آواز سے اگر چِہ آسمان کے پھٹنے کا کوئی اندیشہ نہ تھا، مگر اس مریل سی آواز میں نہ جانے کیسا سوز تھا کہ پتھر کے تراشے ہوئے مُجسمے بھی دھیرے دھیرے پگھلنے لگے تھے۔
بوڑھی بی کی آہ و فغاں سن کر پہلی بار میرے جسم میں ہلکی سی جھر جھری پیدا ہوئی۔ مجھ پررِقت طاری ہونے لگی۔ تب میرے دل میں خدا کا خوف پیدا ہوا۔ اس وقت مجھے حج سے متعلق دادی اماں کا وہ قصہ بھی شدت سے یاد آیا، جو بچپن میں دادی جان اپنے پہلو میں لٹا کر سنایا کرتی تھی۔ تین بزرگوں کا ایمان افروز قصہ کچھ یوں تھا کہ انہوں نے حجازِ مقدس کی زیارت کی آرزو من میں پال رکھی تھی۔ برسوں بعد کہیں جا کر زادِ راہ جمع کر پائے تھے وہ۔
وہ لمحہ،جب روانگی کا وقت قریب آیا تھا۔ ان میں سے ایک بزرگ نے ناگاہ حج کا ارادہ مؤخر کر دیا تھا۔ دیارِ حرم جانے کی تمنا پسِ پُشت ڈال کراپنی جمع پونجی کسی فاقہ کشی پر مجبور پڑوسی خاندان کے حوالے کر بیٹھا تھا۔ پھر اسے بہ نظاہر اِس حقیر سی نیکی کا انعام کچھ یوں ملا تھا کہ اللہ نے اُس سال، اُسی بزرگ کے صدقے میں پورے عالمِ اسلام کا حج قبول کر لیا تھا۔
اگر چِہ یہ حکایت کسی بھی سخت جان شخص کا ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے کافی تھی، لیکن میری سوچ کا کیا کیا جائے کہ میں پُرکھوں کی ایسی فرسودہ باتوں پر یقین کم رکھتا ہوں،جو میرے ایمان اور عقیدے کو کچا چبا جائیں، جب کہ حاجی صاحب کے ساتھ گہری عقیدت اور وابستگی بھی میرے حواس پر سوار ہو چکی تھی، جس نے بیوہ کی موت والے معاملے سے مجھے یک سر بے پروا ہ کر دیا تھا۔
میں اس بات سے بھی اب تک غافل رہا کہ بیوہ کی موت کا اصل سبب کیا تھا۔ البتہ حاجی صاحب کے سامنے لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ کئی روز سے اُس کے گھر فاقے تھے۔ کھانے پینے کو کچھ بھی میسر نہ تھا۔ بھوک سے بے حال بچے بلک بلک کر روتے تو وہ جیتے جی مر جاتی تھی۔ کبھی پھوٹ پھوٹ کر روتی تھی۔ کبھی چیختی،چلاتی تھی۔ بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے لاکھ جتن کرتی تھی کہ کہیں کوئی کام مل جائے، کہیں سے ایک وقت کا کھانا ہاتھ آئے تا کہ وہ بچوں کے پیٹ کی آگ بجھا سکے۔ مگر نا کامی کے سوا اس کے پلے کچھ بھی نہ پڑتا تھا۔ لوگ یہ بھی کہتے تھے،کہ وہ بچے بیچنے کے لیے بازار لے گئی تھی، مگر ہم دردی کے بجائے حقارت آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑا تھا اسے۔
کافی دل برداشتہ ہو چکی تھی، زندگی سے اُکتا چکی تھی وہ۔ گھر میں بھی کچھ نہ بچا تھا، جسے بیچ کر بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بند و بست کرتی۔ بس آبرو ہی بچی تھی اس کے پاس، جسے بیچنے سے پہلے وہ مر گئی تھی۔
حاجی صاحب نے جب بیوہ کی پُر سوز داستاں سنی تو اس کا دل دہل گیا۔ اس کے لیے یہ سانحہ جتنا غم ناک تھا، بچے بیچنے کے لیے بازار لے جانے والی بات اس سے بھی زیادہ درد ناک تھی۔ بیوہ کی موت کی رُو داد سن کر اس کی طبیعت پر کپکپی طاری ہو گئی۔ اِس اندوہ ناک خبر کے بعد اس کی ایک نظر بیوہ کے چہرے پر مرکوز ہو گئی، دوسری جانب وہ تھوڑی دور، دھرتی پر پڑے اس اخبار کی طرف تکے جا رہا تھا، جس میں وہ تصویر صاف دکھائی دیتی تھی،جسے وہ حج پر جانے سے پہلے، دیکھ کر تلملا اُ ٹھا تھا۔
وہ تصویر اِسی بیوہ کی تھی،جو فاقوں کے سبب جان سے گزر گئی تھی۔ اس کی اَدھ کھلی آنکھیں چھاتی سے لگے منے پر ٹکی تھیں۔ حاجی صاحب نے بیوہ کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی، لیکن مری ہوئی پڑوسن سے آنکھیں ملانے کی اس میں ہمت نہ ہوئی کہ بیوہ کی آنکھوں میں کئی گلے شکوے تھے، سیکڑوں سوال تھے، جن کا جواب حاجی صاحب کے پاس ندامت کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔
اب حاجی صاحب نے آگے بڑھ کر بیوہ کی اَدھ کھلی آنکھیں موند لی تھیں۔ اپنے متبعین کو کفن دفن کی تمام ذمہ داریاں سونپ کر جونھی وہ اپنی قیام گاہ جانے کے لیے پیچھے مڑا ……لوگ ایک بار پھر اس کی جانب متوجہ ہو گئے …… بیوہ کے جھونپڑی نما مکان کی فضا ایک بار پھر، سبحان اللہ کی صداؤں سے گونج اُٹھی تھی……
بیوہ نے خود کشی کی تھی یا طبعی موت مری تھی، مجھے اس سے کچھ غرض نہ تھی۔ میں تو بس اتنا جان پایا ہوں کہ وہ نیک کار، پرہیز گار اور خدا ترس انسان تھا…… جس کے سر بستہ رازوں کی سر گزشت لکھنے کے لیے میں حاضر ہوا تھا۔ حاجی صاحب کا چہرہ نورانیت سے تمتما رہا تھا۔ اس کی عمر کے تیسرے عشرے کی تکمیل سے پہلے، اس کا بارہواں حج مکمل ہو چکا تھا۔