ہم سب جنونی ہیں
از، بابر ستار
جس طریقے سے فیض آباد دھرنا ختم کیا گیا، سیاست دانوں اور فورسز کا جو کردار دیکھنے میں آیا اس سے یہ تاثر تقویت پاتا ہے کہ معتدل مزاج اور رواداری کا حامل پاکستان ہمیشہ کے لیے گم ہوچکا ہے۔ یہ تفہیم غصے کی بجائے اداسی اورشکست خوردگی کے احساس کو گہرا کرتی ہے۔ سیاست کو ایک گندہ کھیل کہا جاتا ہے۔ اس میں چالبازی ، مکار ی سے چلا گیا داؤ غالب رہتا ہے۔ لیکن جب آپ کی آنکھوں کے سامنے سیاسی میدان کا ہر کھلاڑی لمحاتی اشتعال کی رو میں بہہ نکلے، بلکہ اس انتہا پسندی کی لہر کو اپنے مفاد کی گنگا میں ڈھالنے کی کوشش کرے تو پھر آپ کو چار دانگ روشی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔
کسی اسکول کے بورڈنگ ہاؤس میں پروان چڑھتے ہوئے آپ انسانوں کی دو اقسام سے آشنا ہو جاتے ہیں: ایک وہ جو دھونس دھمکی سے دوسروں کو دباتے ہیں اور دوسرے وہ جو اس کی زد میں آتے ہیں۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان کوئی جگہ موجود نہیں ہوتی۔ اپنا بچاؤ کرنے کی فطرت آپ کو سکھاتی ہے کہ اگر آپ اُنہیں مار نہیں سکتے تو اُن کے ساتھ شامل ہوجائیں۔
اس وقت پاکستان بھی نوجوانوں کا ایک ہاسٹل بن چکا ہے جہاں انتہا پسندوں کا سکہ چلتا ہے۔ چونکہ سیاسی اشرافیہ کے لیڈران انتہاپسندی کے خلاف لڑنے کی صلاحیت یا حوصلہ نہیں رکھتے، اس لیے اُنھوں نے آگے بڑھ کر انتہا پسندوں کی سرپرستی کرنے اور اُنہیں خوش کرنے کی پالیسی اپنا لی ہے۔ اس روش کی تفہیم ہونے کے بعد فیض آباد دھرنا کوئی راز نہیں رہ جاتا۔
لاہور میں احمدیوں کے خلاف ہونے والے فسادات، جن کے نتیجے میں مارشل لا لگا، کے واقعات کا احاطہ کرتے ہوئے منیر رپورٹ نے 1954ء میں لکھا:
کسی کو بھی ان مطالبات کے مضمرات کا احساس نہیں تھا۔ اگر کسی کو احساس ہوبھی گیا تھا تو اُس نے عوامی مقبولیت اور سیاسی حمایت کھونے کے خوف سے عوام کے سامنے ان مضمرات کا اظہار کرنے سے گریز کیا۔
اس رپورٹ کا اہم ترین پہلو علمائے اکرام سے کیےگئے انٹرویوز تھے جن میں اُن سے دریافت کیا گیا تھا کہ ایک مسلمان کی تعریف کیا ہے، اور کس طرح ایک غیر مسلم سے اُس کی تمیز کی جائے (اگر شہریوں کے حقوق کا تعین عقیدے کی بنیاد پر کرنا ہے تو پھر تمیز لازمی ہے )۔
ایک مسلمان کی متفق تعریف حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد رپورٹ نے اس الجھن کو بیان کیا ’’ علمائے اکرام کی کئی ایک تعریفوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کوئی دو رہنما اس بنیادی سوال پر اتفاق ظاہر نہیں کرپائے ہیں۔ اگر ہم خود کسی ایک تعریف کا فیصلہ کرلیتے ہیں جو کسی ایک عالم دین نے کی تھی تو پھر دیگر علما اس کی مخالفت کریں گے اور وہ ہمیں دائرہ اسلام سے خارج کردیں گے۔ گویا کسی ایک تعریف کو درست مانتے ہوئے ہم اُس کی تعریف کے مطابق مسلمان ہوںگے لیکن دوسرے ہمیں کافر قرار دیں گے۔ ‘‘
خیر ہمیں منیر رپورٹ سے حاصل ہونے والی دانائی کی ضرورت نہیں تھی۔ ایک مرتبہ جب ریاست نے عقیدے کی تعریف کرتے ہوئے انتہا پسندوں کو خوش کرنے اور عقیدے کی بنیاد پر شہریوں کے حقوق کا تعین کرنے کی روش اپنا لی تو پھر احرار کو خوش کرنے سے لے کر خادم رضوی کے دباؤ میں آنے میں کچھ دیر ہی باقی تھی۔ ہم نے اُنہیں عقیدے کی بنیاد پر شہریوں میں تمیز کرنے کی طاقت دیتے ہوئے امید کی کہ اب جذبات ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔
کیا اس سے بڑی نادانی کوئی ہوسکتی ہے؟ اب وہ اپنے ہاتھ میں طاقت لے کر فیصلہ کریں گے کہ مسلمانوں کی اکثریت میں سے اُن کے مطابق اچھا مسلمان کون ہے؟ فیض آباد دھرنے اور اس کے اختتام نے کچھ بنیادی سوالات اٹھا دئیے ہیں۔ پہلا یہ کہ کیا پاکستان اپنے شہریوں کو عقیدے کی آزادی دیتا ہے؟
آزادی اور رواداری ناقابل تقسیم اقدار ہیں۔ آپ شہریوں کے کسی ایک گروہ کو آزادی دیتے ہوئے دوسرے کو اس سے محروم نہیں کرسکتے۔ ہمارے آئین کا آرٹیکل 20 ہر شہری کوقانون، اخلاقیات اور پبلک آرڈرکے اندر رہتے ہوئے ’’اپنے عقیدے کے اظہار، اس پر عمل اور اس کی تبلیغ‘‘ کا حق دیتا ہے۔
لیکن فیض آباد دھرنے نے یہ ثابت کیا کہ مسلم اکثریت بھی اپنے عقیدے کے مطابق زندگی بسر نہیں کرسکتی۔ وہ بھی ایسے انتہا پسندوں کے رحم وکرم پر ہیں جن کی قیادت ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو اپنی بات منوانے کے لیے نظام زندگی درہم برہم کرسکتا ہے۔ ہم نے کافی عرصہ پہلے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کو دوسرے درجے کے شہریوں میں تبدیل دیا تھا۔ اب ہم اپنے آپ پر پَل پڑے ہیں۔
آدم خوری کی فطرت یہی ہے۔ یہ پہلے ’’دوسروں ‘‘ پر پنجہ آزمائی کرتی ہے۔ جب ’’دوسروں‘‘ کی تعداد کم ہوجائے تو پھر یہ ’’دوسروں‘‘ کی نئی قسم کی تخلیق کرتی ہے۔ چنانچہ پاکستان کی اکثریت ( جو سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے ) کو تیار رہنا چاہیے کہ کب اُنہیں کوئی خود ساختی مولوی اور پیر دائرہ اسلام سے خارج کر سکتا ہے۔اور یہ لوگ عقیدے کے نام پر نیم خواندہ افراد کو بپھرے ہوئے جتھوں میں تبدیل کرنے کے ہنر میں طاق ہوچکے ہیں۔
دوسرا سوال یہ کہ کیا ریاست اپنے سیاسی یا سکیورٹی ایجنڈے کے لیے اپنی عملداری کا مسلسل سودا کرتی رہے گی؟ کیا غیر ریاستی عناصر کو خوش کرنے کے لیے کیے گئے تمام تر تجربات نے ہمیں دن میں تارے نہیں دکھا دئیے؟ 2004ء میں شکئی امن معاہدے کے بعد افسران کا نیک محمد کو پھولوں کے ہاتھ پہنانا یاد ہوگا؟ انتہاپسندوں کے ساتھ کیے گئے اس امن معاہدے نے فاٹا کے سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کو ختم کردیا۔ اس کے بعد سے ہمارے سکیورٹی ادارے فاٹا میں یکے بعد دیگرے مسلسل آپریشن کررہے ہیں لیکن قبائلی علاقوں پر ابھی تک ہمارا کنٹرول بحال نہیں ہوا ہے۔ نظریاتی انتہا پسندوں کو اس امید پر خوش کرتے جانا کہ اُنہیں کنٹرول کرکے ایک تزویراتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا ہماری سب سے بڑی حماقت ثابت ہوئی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ ان گروہوں کے رہنماؤں کو کنٹرول کیا جاسکتا ہو لیکن یہ بات پیروکاروں کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی ۔ چنانچہ جب نائن الیون کے بعد ریاست کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو ہمارے نظریاتی ہتھیاروں نے ریاست کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کس طرح فضل اﷲ نے سوات میں اپنے ریڈیو خطبات سے اپنے ’’کیریئر ‘‘ کا آغاز کیا تھا ؟ ہوسکتا ہے کہ کچھ دیر کے بعد جناب خادم رضوی نظروں سے اوجھل ہوجائیں لیکن اب یہ سلسلہ رکے گا نہیں۔ ان کی جگہ کوئی اور لے لے گا۔ پنجاب سے انتہا پسندی کا خاتمہ آسان نہیں ہوگا کیونکہ یہاں فاٹا کی طرح کے آپریشنز نہیں کیے جاسکتے۔
تیسرا سوال یہ کہ ریاستِ پاکستان کن عناصر پر مشتمل ہے ؟ آئین کاآرٹیکل 90 کہتا ہے کہ وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹی وفاقی حکومت کے پاس ہے۔ آرٹیکل 243 کہتا ہے کہ مسلح افواج کا کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہوگا۔ آرٹیکل 245 کہتا ہے کہ ’’مسلح افواج وفاقی حکومت کی ہدایت پر سوال انتظامیہ کی مدد کریں گی جب اُنہیں بلایا جائے گا۔‘‘ کیا پولیس اور سول انتظامیہ ریاست کا حصہ نہیں ہیں؟ فیض آباد دھرنے کے خاتمے پر کس طرح خوشی کا اظہار کیا جاسکتا ہے جب اس نے ریاست کی پولیس اور سول انتظامیہ کے ذریعے نافذ کی جانے والی عملداری کو تباہ کردیا ؟
کیا فوج ریاست کا ایک الگ ستون ہے جو ایگزیکٹو کے تابع نہیں؟ جب ایک مشتعل ہجوم پولیس پر حملے اور فوج کی تعریف کرتا ہے تو کیا یہ پاکستان کے لیے کوئی اچھا شگون ہے؟ سول حکام کی حماقتوں کو ایک طرف رکھیں، کیا اسٹیبلشمنٹ کے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ جب پولیس پر حملے ہورہے ہوں تو اُنہیں اپنا وزن پولیس کے پلڑے میں رکھنا چاہیے یا حملہ آوروں کے؟ فرض کریں یہ ناکام آپریشن رینجرز کررہے ہوتے اور مشتعل مظاہرین رینجرز کو پکڑ لیتے اور اُنہیں اغوا کرکے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تو کیا پھر بھی طرفین کو امن سے، بات چیت کے ذریعے، معاملات طے کرنے کی اپیل کی جاتی؟ کیا پھر بھی حملہ آوروں کو کوئی پیسے اور اُن کی کمر پر تھپکی دے کر رخصت کرتا؟
قانونی اتھارٹی کی خلاف ورزی اور خلافِ قانون جسمانی طاقت کی پشت پناہی قانون کی حکمرانی کے منافی ہیں۔ سوچ سمجھ رکھنے والے افسران کو پتہ ہونا چاہیے کہ اگر قانون کی حکمرانی کی بجائے صرف جسمانی طاقت ہی ریاست کے وجود کا باعث ہوتی تو ہم اب تک قبائلی زندگی اپنا چکے ہوتے۔ فسادات کرنے والوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر ایک میجر جنرل اور وزیرِ داخلہ کے دستخط سول حکومت اور وردی پوشوں، دونوں کے لیے باعث عزت نہیں۔
ہم نے اچھے اور برے انتہا پسندوں کے درمیان تمیز کرتے ہوئے غیر ریاستی عناصر کو قومی سکیورٹی کے لیے استعمال کرنا چاہا اور اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ۔اب ہم کچھ سیاسی اہداف کے حصول کے لیے وہی ناکام پالیسی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ہم جس آگ کو ہوا دے رہے ہیں، یہ سب سے پہلے پی ایم ایل (ن) کو بھسم کرے گی، لیکن یہ یہاں رکے گی نہیں۔ یہ اپوزیشن پارٹیوں اور سیکورٹی اداروں سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔