ہمارے نابغہ روزگار غیب دان
سید طلعت حسین
ارفع اعتماد، دلچسپ تفصیل، وضع کردہ خاکے ، کھینچی گئی تصویریں، ناپی گئی لمبائیاں،نشان زدہ تاریخیں،اعلان کردہ شیڈول۔ ان سے کسی کو کوئی غلط فہمی نہیں رہتی۔ ان سے پھیلنے والی خبریں قومی سطح پر ہیجان خیزی کا باعث بنتی ہیں۔ یہ پاکستان کے وہ نجومی ہیں جو مستقبل کو دیکھ لینے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ان کی تعدادمیں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اس وقت اُنہیں نظر انداز کرنا خطرنا ک ہوگا۔ اب یہ ایسے بے تاب افراد نہیں جو اپنی ناآسودہ خواہشات کی تکمیل جادوئی پیالوں میں دیکھتے ہیں ، یا جام ِجمشید میں اپنی تمناؤں کا جہاں آباد کرتے ہیں۔ نہیں، اس وقت ہمارے سامنے آنے والا ڈیزائن اور نمونے سیاسی دنیا کے خدوخال واضح کرتے ہیں۔ یہ سننا بہت دلچسپ ہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔
اگلے روز پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان گویا ہوئے ۔۔۔’’یہ کیس ایک خواب کی مانند ہے جو میں نئے پاکستان کے بارے میں دیکھا کرتا تھا۔ آج مجھے اﷲ پر پورا یقین ہے ، میں اس کیس کے فیصلے کے بارے میں پوری قوم کو پیشگی مبارک باد دینا چاہتا ہوں۔ یہ فیصلہ ملک کو ایک نئی منزل تک لے جائے گا، اس کے نتیجے میں ملک کے حالات تبدیل ہوجائیں گے، کیونکہ یہ پہلی مرتبہ ہو گا جب طاقت ور افراد قانون کی گرفت میں آئیں گے۔ ‘‘
اگلے روز راولپنڈی کے عظیم رہنما، شیخ رشید احمد نے مخاصمت بھرے طنزیہ لہجے میں شریفوں کو نصیحت کی ۔۔۔’’ میں اُنہیں یہ بتارہا ہوں کہ آنے والے آٹھ ہفتے اُن پر بہت بھاری ثابت ہوں گے ۔ اُن کے برُے دن آگئے ہیں۔ اور نواز شریف، جب تمہارے ہاتھو ں میں ہتھکڑی لگی ہوگی تو وہ میں ہوں گا جو تمہارے لئے آواز بلند کروں گا(شیخ رشید کا لہجہ انتہائی طنزیہ تھا)۔ اﷲ نے چاہا تو آنے والے چند ہفتوں میں شریفوں سے ہر چیز نکلوا لی جائے گی ‘‘۔ایک اور انٹرویومیں اُنھوں نے یقینی طور پر پیش آنے والے واقعات کانقشہ پیش کیا ۔ اس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ ، جوڈیشل کارروائی ، جو رپورٹ پیش کرنے کے بعد شروع ہوگی ،اور عظیم المرتبت شیخ کے مطابق اس کے نتیجے میں نواز شریف نااہل ہوجائیں گے۔
اس مستقبل گوئی کے اگلے روز ہم نے نہر سویزکے اس پار، عظیم انقلابی رہنماچوہدری شجاعت حسین کو مستقبل کے بھرپور خدوخال بیان کرتے سنا۔۔۔’’ اب معاملہ پاناما لیکس سے کہیں آگے جاچکا ۔ تاریخ رقم ہورہی ہے ۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی ہوگا اور دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہوجائے گا۔ دوماہ پہلے میں نے سوچا تھا کہ شاید کوئی درمیانی راستہ نکل آئے لیکن ایسا نہ ہوا۔ دوجج صاحبان نے اُن کے خلاف اختلافی نوٹ نہیں لکھے تھے، فیصلہ سنایا تھا۔ باقی تین جج صاحبان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو مزید موقع دیا جائے اور ان سے تحقیقات کی جائیں۔ اگروہ کوئی نیا ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنی بے گناہی ثابت کرلیں تو پھر بنچ اُن کی بات تسلیم کرلے گا۔ اگر نہیں تو پھر تینوں جج بھی اختلافی نوٹ لکھنے والے ججوں کے ہم خیال ہوں گے ۔ میرا خیال ہے کہ سپریم کورٹ صرف فیصلہ ہی نہیں سنائے گی، ہمیں آئندہ ملک چلانے کے لئے ایک گائیڈ لائن بھی دے گی۔ ‘‘
چوہدری شجاعت حسین کا بیان اُس بیان کی بازگشت ہے جو گیارہ اپریل کو ایک معزز جج نے فیصلہ سنانے سے پہلے دیا کہ پاناما کیس کے فیصلے کو صدیوں یاد رکھا جائے گا۔بابر اعوان کہاں پیچھے رہنے والے تھے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہنوز لکھا جانے والافیصلہ اُن کی غیب دان آنکھیں پڑھ رہی ہیں۔ قطعی لہجے میں فرمایا۔۔۔’’شریف نہیں بچیں گے ۔‘‘یہ تبصرہ اُن کے کولیگ نعیم بخاری(خدا ممدوح کی عمر دراز کرے تاکہ وہ اسی طرح قوم کی خدمت کرتے رہیں)کے ایک بیان کی جھلک ہے جو اُنھوں نے بیس اپریل کو دیا۔۔۔’’جب میں فائل پڑھتا ہوں تو میں کہتا ہوںکہ شریفوں سے قسمت کے ستارے روٹھ چکے ہیں۔ اب وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ اُن کا کھیل ختم ہوچکا ۔ میاں نواز شریف اب لند ن میں نہیں رہ سکیں گے ،وہ جدہ بھی نہیں جاسکیں گے ۔ اب وہ مقامات ِ قدسہ پر آہ وفریاد کرتے دکھائی دیا کریں گے ۔‘‘
اگر ان پیش گوئیوں میں شریفوں کو درپیش سیاسی مشکلات کی جھلک ملتی تو یہ کوئی ہنگامہ خیز بات نہ تھی۔ سیاسی بیان بازی چلتی رہتی ہے ۔ لیکن یہ بیانات یا پیش گوئیاں سیاست کے بارے میں نہیں، اُس فیصلے کے بارے میں ہیں جو ابھی آنا باقی ہے ۔ وہ اُس قانونی کارروائی کے نتیجے کی پیش گوئی کررہے ہیںجو ابھی شروع بھی نہیں ہوئی ۔ یہ اُس تحقیقات کے بارے میں آرا ہیں جو ابھی مکمل بھی نہیں ہوئیں۔ یہ آرااپنی پیش گوئی کے اعتبار سے حیران کن ہیں ۔ کچھ واقعات پیش گوئی کے تاثر کو واضح کرتے ہیں۔ ذرا جے آئی ٹی کی سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی جانے والی اُس رپورٹ پر غور کریں جس میں کہا تھا کہ ’’میڈیا سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی پر تنقید میں ملوث ہے ۔ ‘‘ اس رپورٹ کا حیرت انگیز حصہ یہ ہے کہ جے آئی ٹی کا قیام پانچ مئی 2017ء کو عمل میں آیالیکن وہ بیس اپریل کو (گویا اپنے قیام سے 16دن قبل) ہی مانیٹرنگ رپورٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی (احمد نورانی یہ بات گزشتہ ہفتے دی نیوز میں رپورٹ کرچکے ہیں)
کوئی بھی شخص جو مانیٹرنگ کے عمل سے واقف ہے ، وہ جانتا ہے کہ اس کے لئے کیا کچھ درکار ہوتا ہے ۔ اخبارات کو اسکین کرنا، تصاویر ،خبروں اور کہانیوں کے اہم حصوں کی نشاہدہی کرنا ایک تھکا دینے والاکام ہے۔ اس کے لئے انسانی وسائل اور محنت درکار ہوتی ہے ، لیکن یہ تو کچھ بھی نہیں، چوبیس گھنٹے چلنے والے سینکڑوں ٹی وی چینل کی پل پل کی نشریات پر نظر رکھنا انتہائی مشکل کام ہے ۔ وسیع پیمانے پر ٹیکنیکل وسائل اور مہارت کے علاوہ آپ کو سینکڑوں افراد کی خدمات درکار ہوتی ہیں تا کہ ریکارڈ کردہ مواد کا جائزہ لے سکیں، اسے کا پی کرسکیں اور سب سے بڑھ کر، اسے عدالت کے لئے قابل ِ قبول بنا سکیں۔ کسی شخص کی بولنے کی اوسط صلاحیت 150الفاظ فی منٹ ہوتے ہیں،اور ہر روز کم و بیش ایک سو ٹاک شو ہوتے ہیں(بریکنگ نیوز اور نیوز بلٹن ا سکے علاوہ ہیں) اور ہر شو میں کم از کم تین سے چار افراد ضرور ہوتے ہیں، تو اس تمام مواد کا جائزہ لینے کیلئے کس قدر ٹیکنیکل سہولت اور ایڈیٹنگ کےماہر انسانی وسائل درکار ہوں گے۔
اگر جے آئی ٹی کو ہرکولیس کی طاقت کی حامل مان لیا جائے کہ اس نے غیر معمولی طور پر یہ کام آسانی سے سرانجام دے لیا ہوگا تو بھی یہ بات عقل کو حیران کردینے والی ہے کہ اس نے اپنی تشکیل کے وقت سے پہلے مانیٹرنگ کاکام کس طرح سرانجام دے لیا۔ لیکن جے آئی ٹی نے وہ کام کردکھایا کہ بیج ڈالنے سے پہلے ہی فصل کاٹ لی ۔ دیگر بھی بہت سے معاملات پیش آرہے ہیں۔ یہ صرف الفاظ یا رپورٹس ہی نہیں جو عقل کو چیلنج کررہی ہیں ، پی پی پی کے اصطبل سے گھوڑوں کے رسیاں تڑوا کر پی ٹی آئی کی طرف ایڑھ لگانے سے بھی ہوا کے رخ کا پتہ چلتا ہے ۔ راستے کی دھول سے پتہ چلتا ہے کہ شریفوں کے دن لدچکے ۔ پی ٹی آئی کی طرف جانے والوں کو اندازہ ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ شریفوں کے حق میں خراب آئے گی اور بنچ پی ایم ایل (ن) کی قیادت کو چلتا کردے گا۔ کس طرح ان افراد نے سیاسی مستقبل کی جھلک دیکھ لی جب کہ مستقبل پردہ ٔ غیب میں ہے ؟صرف ایک مفروضے پر اتنے واضح سیاسی منصوبے کس طرح بن سکتے ہیں؟ابھی بنچ نے رپورٹ کا باریک بینی سے قانونی طور پر جائزہ لینا ہے ۔ تو پھر سیاسی رہنماؤں نے مبارکباد کے پیغامات کیوں بھیجنا شرو ع کردئیے ہیں؟یا پھر اُن پر کوئی ایسی بات القا ہوگئی ہے جو عام انسانوں کی بصارت سے ماورا ہے ؟یہ جام ِ جمشید کس کے ہاتھ میں ہے ؟
خیر ہمیں بھی بہت جلد پتہ چل جائے گا کہ کیا ان افراد کی پیش گوئیاں محض خواہشات کا عکس تھیں یا یہ کسی لکھے ہوئےا سکرپٹ کو پڑھ رہے تھے ؟ بے شک ہم اندھیر ے میں چلائے گئے تیروں کو نشانے پر لگنے کے امکان کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اتفاقات پیش آتے رہتے ہیں۔ اندھی پیش گوئیاں حقیقت کا روپ دھار لیتی ہیں۔ لیکن ایسے تیر وں یا ایسی پیش گوئیوں کی بنیاد پر کوئی اپنے مستقبل کی پلاننگ نہیںکرتا ۔ لیکن جب اتنی قطعی باتیں کی جارہی ہوں تو پھر میچ دیکھنے والوں کے لئے یہ باور کرنا مشکل ہوجاتا ہے اس میں کوئی اسپاٹ فکسنگ نہیں تھی ، یا کوئی اس کے نتیجے پر اثر انداز نہیں ہورہا تھا۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ