ہمارا اور آپ کا لاؤڈ سپیکر آج کیا کہتا ہے؟
از، مبشر اکرم
پاکستان کو جتنا نقصان اندرونی طور پر اس وطن کے اپنے ہی اداروں نے پہنچایا ہے، اتنا شاید ساری دنیا کے ایجنسیاں اور افواج بھی مل کر نہ پہنچا سکتی ہوتیں۔
آج ایک سب انسپیکٹر ہلاک گیا۔ اسے شہید نہ کہا جائے کہ اس لفظ کی رومانویت مر جانے والے کی بیوی، بچوں، بوڑھے والدین اور دیگر اقارب کی اذیت اور آنے والی تمام زندگی کے مصائب و آلام کو گلیمرائز کر دیتی ہے۔ تو اس ہلاک ہونے والے سب انسپیکٹر کے ذہن میں آنے والے خیالات اور تشبیہات کا تصور تو کیجیے کہ جب وہ ختم نبوت کے متوالوں کے ہاتھ چڑھا ہوگا تو وہ کیا سوچ رہا ہوگا، اور اس کے سر پر پڑنے والا ہر اک پتھر، اس کے ذہن میں یہ سوال تو لازما لاتا ہوگا کہ: ?Was it worth it
پاکستان کے نادان دوست اداروں نے میرے ملک، معاشرے کو ایسا تماشہ بنا ڈالا ہے کہ اس پر اب ہنسی اور رونا، دونوں ہی نہیں آتے۔ اک عجب سی numbness ہے جو طاری ہے اس لیے بھی کہ پینتالیس سالہ زندگی میں سے کوئی چالیس سال سے اسلام، مذہب، دفاع، اداروں، معاشرے، ملت، اُمہ کے نام پر اتنے تماشے دیکھنے کو ملے ہیں کہ اب اک بےحسی ہی ہے جو ذہن، مزاج اور جینے کا حوصلہ بچائے ہوئے رکھتی ہے۔
سوال یہ چھوڑے جاتا ہوں کہ ختم نبوت، اسلام، دین اور ان سے جڑے شعائر کا تحفظ کیا صرف قتل و غارت گری سے ہی جڑا ہونا ممکن ہوتا ہے؟ آپ جو مرضی ہے کہتے رہیں، چودہ سو سالہ اک تاریخ ہے، جو پرتشدد ہے اور اس تاریخ میں عوام کا خون ہے جو سستا رہا ہے۔ آج غیر مسلم دنیا ختم نبوت، اسلام، دین اور ان سے جڑے شعائر پر کیا سوچتی ہوگی؟ آپ کا یا میرا لاؤڈ سپیکر کہ “یہ اصل اسلام نہیں” کیا کوئی اثر دکھا پائے گا؟ اور یہ اگر اصل اسلام نہیں، تو اصل اسلام پھر کہاں ہے، اور کس کی ذمہ داری ہے؟