ہمارا بنیادی نظام تعلیم اور اس کا مستقبل
از، فیاض ندیم
(گذشتہ اور اس مضمون میں ہم نے اُن حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے جن کا ہمارے نظام تعلیم کو فی الحال ہمیں سامنا ہے۔ آ ئندہ کی گفتگو کا مرکز وہ تاریخی حالات ہیں جو اس ساری صورتِحال کا سبب ہیں، اور کوشش کی جائے گی کہ ہم اسی فورم پر جدید طریقۂ ہائے تعلیم، دنیا میں تعلیم کے میدان میں ہونے وا لی ترقی اور اس سے متعلق فلسفیانہ پیش رفتوں اور ارتقائی تبدیلیوں کا ذکر کر سکیں۔اسی طرح ہم کوشش کریں گے کہ ہمارے تعلیمی ریسرچ کے اعلٰی اداروں میں کی جانے والی تحقیق کا مختصراََ جائزہ بھی پیش کریں۔ اور ساری گفتگو کی روشنی میں ہمارے حالات کے مطابق اپنے یہاں پائی جانے ولی خرابیوں کو دورکرنے کیلئے قابلِ عمل حل ڈھونڈ سکیں۔ ہماری توجہ کا مرکزبنیادی تعلیمی اداروں میں سہولیات کی ضرورت و فراہمی اور طریقہ تعلیم ہی رہے گا اور ہم اپنے قارئین سے ملتمس ہیں کہ اس ضمن میں ہماری حوصلہ افزائی اور تنقید کے ساتھ ساتھ ہماری رہنمائی بھی کریں)
تعلیم کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقّی میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ کوئی ملک تعلیم کے میدان میں جتنا بہتر ہو گا، زندگی کے ہر شعبے میں اُتنی بہتری نظر آئے گی۔ تعلیم معاشرتی، اقتصادی، تہذیبی و ثقافتی حتّٰی کہ ہر میدان میں ترقّی کی ضامن ہے۔ لہٰذا تعلیمی نظام کا ارتقاء ہر قوم کی فکر کا مرکز رہا ہے۔ اور فکر ہی قوموں کی زندگی کی علامت ہے۔ کیونکہ کوئی بھی فکری عمل اپنے لا وجود سے وجود میں ضرور ڈھلتا ہے، اور اس تبدیلی کے لئے درکار عرصہ کی طوالت کا انحصار فکر کی شدّت، مضبوطی اور اُسکے وجود کی ناگزیریت پر ہوتا ہے۔ تعلیم اگر فکر کا حصہ نہ بھی بنے، تب بھی اس کی نا گزیریت محکم ہے۔ اور اگر یہ فکر کا حصہ بن جائے تو تبدیلی کے لئے درکار عرصہ کی طوالت زیادہ نہیں رہتی۔ خوش قسمتی سے قومی سطح پر ہمارے ہاں اس فکر کی جڑیں بنتی جا رہی ہیں۔ دنیا جس تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے، اور علم و ہنر کو جو مقام موجودہ دور میں حاصل ہے، اس سے روگردانی کرنے والی قومیں صفحہء ہستی پر اپنی موجودگی کو زیادہ دیر قائم نہیں رکھ سکیں گی۔ ایک مضبوط، ترقّی یافتہ اور ثمر آور تعلیمی نظام ہی مضبوط اور مہذب قوم کی تعمیر کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کر سکتا ہے۔ آنے والے وقتوں میں جو قومیں تعلیمی میدان میں عالمی سطح پر اپنے علمی حصّے کی شراکت نہیں کر پائیں گی وہ ترقّی یافتہ اقوام کے سامنے ہمیشہ دست بستہ رہیں گی اور عزّت و احترام سے محرومی ہمیشہ اُن کا مقّدر رہے گی۔ بد قسمتی سے فکری سطح پر تعلیم کی ضرورت اور خواہش کے با وجود عملی میدان میں ہمارے ہاں صورتِ حال پہلے سے خراب نہیں تو بہتر بھی نہیں کہی جا سکتی۔ اور اس کی ذمہ داری کسی ایک فرد، ادارے یا طبقے پر نہیں ڈالی جا سکتی۔
اس بے حسی میں پوری قوم برابر کی شریک ہے۔ میں یہاں مضمون کی طوالت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے چیدہ چیدہ نکات پر بات کرنے کی کوشش کروں گا، جس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ہم جس خواب کو آنکھوں میں سجائے ہیں اُس کی تعبیر کے لئے ابھی کتنی اندھیری رات کے گذرنے کا انتظار باقی ہے۔ ہم یہاں پر صرف بنیادی تعلیم پر گفتگو کریں گے، جو اعلٰی سطح پر تعلیم کی حالت کو عیاں کرنے کے لئے بھی کافی ہوگی، کیونکہ اسی تعلیمی پس منظر کے طلباء اعلٰی تعلیم کا حصہ بنتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پانچ سے نو سال کی عمر کے 32%بچوں کے لئے پاکستان میں سکول ہی موجود نہیں ہیں۔ اور پاکستان کے 17% پرائمری سکولز صرف ایک کمرہ پر مشتمل ہیں۔ اور 8% سکولز ایسے ہیں جن کی کوئی بلڈنگ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ 37% سکولز بغیر ٹائلٹ کے ہیں اور تقریبََا 50% سکولز میں بجلی کی فراہمی نہیں ہے۔ (World Food Program and Educational Planning Report 2014) یہ صورتِ حال تو مجموعی طور پر پاکستان کی ہے۔ میرا تعلق چونکہ اسلام آباد سے ہے، لہٰذا میری گفتگو بھی زیادہ تر اسلام آباد سے متعلق ہی ہے۔ دارالحکومت اسلام آباد میں جہاں شرح خواندگی سب سے زیادہ یعنی 88% ہے اور تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے لحاظ سے ضلع اسلام آباد پاکستان میں(الف اعلان رپورٹ 2015) 29th نمبر پر ہے۔
اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجئے: ہمارے ہاں علم ، تحقیق اور تخلیق کی موت کیسے واقع ہوئی؟ از ڈاکٹر عرفان شہزاد
شرح خواندگی سب سے زیادہ ہونے کے باوجود تعلیمی ماحول کے حقائق چشم کُشا ہیں۔ اور بہتری کی اُمید دور دور تک نہیں ہے۔ اگر آپ یہاں پر کلاس رومز کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ایسے کمرے جہاں پر زیادہ سے زیادہ 25 طلباء کو بہتر تعلیمی ماحول فراہم کیا جا سکتا ہے، ان کے لئے مناسب سائز کی چیئرز، میزیں اور دیگر ٹیچنگ ایڈز کے لئے جگہ بن سکتی ہے، وہاں پرزیادہ تر ساٹھ ساٹھ بچوں کو داخل کرنا پڑتا ہے۔ ایسی حالت میں دیگر سہولیات تو کجا کلاس روم میں استاد کے کھڑا ہونے کے لئے جگہ تک نہیں بنتی۔ چیئرز کے درمیان سے بچوں کے گزرنے کے لئے راستہ نہیں ہوتا، گھٹن کا سا ماحول ہوتا ہے اور اوپر سے گرمی کی شدّت میں لوڈ شیڈنگ سونے پر سہاگے کا کام کرتی ہے۔ کلاس روم میں تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنا تو دور کی بات، یہاں بیٹھنا یا کھڑے ہونا مشکل ہوتا ہے۔ طلباء کے بیٹھنے کا فرنیچر اس قسم کا ہوتا ہے کہ اس پر آدھا گھنٹہ بیٹھنا مشکل ہو اور طلباء کو انہیں چیئرز پر ڈسپلن کے نام پر پانچ پانچ چھ چھ گھنٹے قابو کر کے بٹھایا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں آپ کوئی سی بھی تعلیمی فلاسفی اپنا لیں، کوئی سی ٹیچنگ تیکنیک ٹیچر کو سکھا لیں، آپ کس قسم کے نتائج کی توقع کر سکتے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگا لیں کہ جب کلاس روم میں طلباء کے بیٹھنے کے لئے مناسب بندو بست نہیں ہے تو ان کمروں میں ٹیچنگ تیکنالوجی یا کسی بھی قسم کی ٹیچنگ ایڈ کی کیا توقع کر سکتے ہیں۔
کلاس روم میں ٹیچنگ ایڈ کے نام پر سوائے ایک وائٹ بورڈ کے کچھ موجود نہیں ہوتا۔ طلباء کی دلچسپی کی کوئی ایک چیز بھی ہمارے کلاس رومز کاحصہ نہیں بن پاتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طلباء اپنی فرسٹریشن کا اظہار کمرے کی دیواروں اور کرسیوں پر اپنی تحریروں سے کرتے ہیں۔ یہ تحریریں لغویات، اپنے کلاس فیلوز کے بارے میں بے ہودہ کمنٹس اور اساتذہ کے بگاڑے ہوئے ناموں کی صورت میں معاشرے کا مُنہہ چڑا رہی ہوتی ہیں۔ ان ساری خصوصیات کے ساتھ کلاس روم ایک ایسے تیسری دنیا کے گھٹیا زندان کا نمونہ پیش کر رہا ہوتا ہے، جس میں بگڑے ہوئے مجرموں کو مذید بگاڑنے کا اہتمام ہو۔ تعلیمی عمل کا سب سے اہم حصہ اُستاد ہے۔
ہمارا معاشرہ اُستاد کو کیا مقام دیتا ہے، یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اور اس کے بد لے میں اُستاد معاشرے کو کیا دیتا ہے، اس کا اندازہ ہم کسی بھی چوراہے پر کھڑے ہو کر اپنے قومی رویوں سے چند منٹوں میں لگا سکتے ہیں۔ اگر ہم عالمی سطح پر اپنے استاد کے معیار کو دیکھیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے اساتذہ کم ذہین نہیں ہیں۔ ذہانت تعلیمی عمل میں نہایت اہم ہے، جو استاد کی طالب علم کو سمجھنے میں، تعلیمی ٹیکنالوجی کو اختیار کرنے میں، سیکھنے کے عمل کو ترتیب دینے میں اور ایک پر کشش ماحول مہیا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اور بھی بہت کچھ چاہیے جو بد قسمتی سے ہمارے ہاں نہیں ہے۔ اس میں سب سے اہم پروفیشنل رویہ ہے۔ ہمارے اساتذہ میں نہ تو یہ رویہ ہی موجود ہی اور نہ پیشہ وارانہ مورال ہے۔ میں سترہ سال سے اس عمل کے مشاہدے سے گذر رہا ہوں، میں نے کبھی کسی اُستاد کو کلاس روم میں تیاری کے ساتھ جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ سیکھنے سکھانے کے عمل کو توایک طرف رکھیں ، اساتذہ کو یہ بھی کلاس روم میں جا کر پتہ چلتا ہے کہ آج پڑھانا کیا ہے اور طلباء اساتذہ کو بتاتے ہیں کہ کل ہم نے کتاب کو کس صفحے تک پڑھا تھا۔ سائنس کے مضامین کو بھی زیادہ تر اساتذہ پڑھاتے وقت مشقی سوالات کو دیکھ کر ابواب کے اندر موضوعات پر نشانات لگوا دیتے ہیں کہ فلاں سوال کا جواب یہاں سے یہاں تک ہے۔ مجھے بھی کالج میں بعض اوقات ساتویں اور آٹھویں گریڈ کے طباء کو پڑھانے کا موقع ملتا ہے تو طلباء کی اس عادت سے جان چھڑوانے میں ایک عرصہ لگ جاتا ہے جو اُن میں ابتدائی کلاسوں سے جڑ پکڑ چکی ہوتی ہے۔
طلباء اپنی سابقہ عادت کی وجہ سے بار بار اس طرح کے نشانات لگوانے کی ضد کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں انسان کُڑھنے کے سوا کیا کر سکتا ہے۔ اس صورتِ حال میں بھلا کوئی بھی تعلیمی پالیسی، فلاسفی، تعلیمی ٹیکنالوجی، تھیوری یا کوئی بھی فکر کیا کام کر سکتی ہے۔ سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری کلاسوں میں بھی کم و بیش ایسی ہی صورتِ حال ہے۔ بہت کم اساتذہ ہیں جو کسی قسم کی تیاری کے ساتھ آتے ہیں۔ زیادہ تر اپنے لیکچرز کو extempore ہی پیش کر دیتے ہیں۔ لرننگ کا عمل نا ہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں طلبأ جو achievements مختلف مقابلہ جات میں دکھاتے ہیں وہ اُن کے اندر غیر معمولی قدرتی صلاحیتوں کی وجہ سے ہوتی ہیں یا فقط معلومات کے رٹّے سے پیپر ورک تک محدود ہوتی ہیں ، یا اس طرح کی کامیابیاں اُن پرعزم اساتذہ کی مرہونِ منت ہیں جو ہر حالت میں کچھ کر دکھانے کے ارادے سے تعلیمی میدان میں آتے ہیں اور اپنی بساط کے مطابق بہتری میں اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔ لیکن مجموعی تبدیلی کی امید سسٹم کو بہتر بنائے بغیر نہیں کی جا سکتی۔ جہاں تک اساتذہ کی تربیت کا تعلق ہے، آپ کسی بھی تربیتی ادارے کا سلیبس اُٹھا کر دیکھ لیں، محسوس ہو گا کہ تربیتی دورانیے کے لیے کیوری کلم کا زمینی حقائق سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔
اساتذہ کو موجودہ کلاس رومز کی سچویشن کے لیے تیار ہی نہیں کیا جاتا۔ تربیتی اداروں کے کیوری کلم زیادہ تر مستعار شدہ ہیں، جو دیگر ممالک نے اپنے اپنے حالات کے پیشِ نظر ترتیب دیے ہوتے ہیں اور اُنہیں یہاں بغیر کسی ردّو بدل کے ہمارے اداروں کے لیے ’’ ماہرین‘‘ اپنے ناموں کے ساتھ سلیکٹ کر لیتے ہیں۔ اور تربیتی اساتذہ کی اپنی مہارتوں پر سوالات اپنی جگہ پر ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں جو اساتذہ ہماری اگلی نسلوں کو سنوارنے اور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے سامنے آتے ہیں اُن کے حالات کا مختصراََ ذکر ہو چکا ہے۔ تعلیمی عمل کا ایک اور حصہ کو کیوریکلر ایکٹیویٹیز، ایکسٹرا کیوریکلر ایکٹیویٹیز، کھیل، تعلیمی ٹورز اور ٹرپس، سوشل ایکٹویٹیز اور تفریحی سیریں ہیں۔ یہ طالب علموں کو عملی زندگی کے لئے تربیت مہیا کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ با قاعدہ کیوریکلم میں شامل ہوتے ہیں اور ان کا کریڈٹ میں حصہ ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں ان کے لیے نا تو مناسب انتظام ہوتا ہے۔ نہ ان مقاصد کے لیے اساتذہ کی کوئی ٹریننگ ہوتی ہے اور نا یہ باقاعدہ کیوریکلم میں شامل ہیں۔ آج کل تو ان کو سکیورٹی وجوہات کی بنا پر با قاعدہ پابندی کا سامنا ہے۔
سکولز میں سہولیات کی فراہمی میں جس غفلت کا مظاہرہ حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے ہوتا ہے۔ لوکل کمیونٹی اُس کا تدارک کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ کمیونٹیز حکومتوں پر پریشر کے ذریعے یا اپنی مدد آپ کے تحت فنڈز کی فراہمی سے، یا افرادی قوت فراہم کر کے اور مفید ایڈوایز کے ذریعے سکولز کے سٹینڈرڈز کو بہتر کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ ایک تو سکولز کی انتظامیہ، حکومتی اہلکار اور اساتذہ کمیونٹی کو سکولز کے معاملات سے بوجوہ دور رکھنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں اور دوسرے ہمارے معاشرے میں اس کا شعور بھی اُجاگر نہیں ہو سکا ہے۔ پچھلے کئی سالوں کے دوران اسلام آباد میں بعض اوقات انتظامیہ کی طرف سے اس کی کوشش بھی کی گئی، لیکن کمیونٹی کی دلچسپی نا ہونے کے برابر رہی۔ اور اس سے متعلق فنڈز اگر کبھی سکولز کے بجٹ کا حصہ بھی بنے تو اُن کا فقط زیاں دیکھنے میں آیا۔ تعلیمی اداروں کی اس حالت کی ایک وجہ ا داروں کے سربراہان،اور سنٹرل انتظامیہ کی نا اہلی اور اس سے بھی بڑھ کرپشن ہے۔ آپ کو روز مرہّ کی خریداری سے لے کر بڑے ٹینڈرز تک سب میں بے شمار گھپلے ملیں گے اور ایک مخصوص قسم کی سوچ کا طبقہ ان میں ملوّث ملے گا۔
جن کا کام ہی ایسے مواقع اور ذرائع کی تلاش ہے جہاں سے وہ سسٹم کو مالی نُقصان پہنچا سکیں۔ اِن حالات پہ قابو صرف دو صورتوں میں پایا جا سکتا ہے۔ ایک تو اساتذہ جو اس سسٹم کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈرز ہیں اُن کو پروفیشنل رویہ اپنانا ہو گا۔ نا صرف اپنی ٹیچنگ پر توجہ دینا ہو گی اور جدید تعلیمی تھیوریز، ٹیچنگ ٹیکنیکس اور لرننگ پراسس سے جانکاری حاصل کرنا ہو گی بلکہ سہولیات کی فراہمی کے لئے بھی ہنگامی سطح پر کام کرنا ہو گا۔ اس ابتر حالت سے اگر کسی کو فرسٹ ہینڈمعلومات ہیں تو وہ اساتذہ ہیں۔ اُنہیں ہر سطح پر اپنی آواز کو بلند کرنا ہوگا۔ تاکہ حکومتی ایوانوں تک یہ بات سنی جا سکے اور عوام میں بھی ان حالات کا شعور آ سکے۔ سکولز میں کرپشن کو اگر کوئی روک سکتا ہے تو وہ صرف اساتذہ کی کمیونٹی ہے۔ دوسرے لوکل کمیونٹیز میں تعلیمی facilities سے متعلق شعور آئے بغیر حالات کا ٹھیک ہونا معجزے سے کم نہیں ہوگا۔ با شعور افراد کو تعلیم کے میدان میں عالمی تبدیلیوں کو سمجھنا ہو گا اور حکومتوں پر ان تبدیلیوں کے مطابق اپنے تعلیمی نظام کی ترقّی اور ارتقاء کے لیے پریشر ڈویلپ کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ عملی میدان میں بھی سکولز کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ (جاری ہے)
فکر انگیز تحریر۔