ہمارے معاشرے کا بنیادی مسئلہ : شعور کی کٹی پتنگ
از، یاسرچٹھہ
ہمارے سماج کا بنیادی مسئلہ اس کا غیر علمی، شعوری تسلسل سے عاری اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار قسم کا اندازِ فکر ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آپ کے گرد و پیش میں جاری کام کسی زندہ اور نامیاتی احساسِ منزل سے جڑے نہیں معلوم ہوں گے، بَل کہ ایسے لگے گا ایک ایسی چیز جس کا درخت بننے کا سپنا تو ہے، مگر اس کی ہر ٹہنی اپنی خود سَری میں ایک الگ درخت کا روپ دھارنے پر بَہ ضد ہے (اور کوفت یہ ہے کہ یہ اپنے آدرشوں کی بنیادوں پر تنِ تنہا کچھ بھی کر گزرنے کی بلند ہمتی جیسی صفتِ عالیہ نہیں، بَل کہ صرف اپنے کم ترِیں ذاتی اور ذیلی گروہی مفادات کو کسی بھی قیمت پر حاصل کر لینے کی پست خیالی ہے۔) کسی بھی متعین منزل کی جانب، یک سُوئی سے، کٹھن اور طویل تر فاصلے طے کرنے کے لیے درکار بلند کرداری کی قوتِ حیات اور کسی رواں دواں شعوری لہر کا تسلسل نہیں۔
آپ اپنے ارد گرد کتنے لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں کہ ان سے ہونے والے افعال و اعمال کسی واضح شعوری اور فکری بنیاد سے عاری ہوں گے۔ آپ کے ارد گرد کئی گھومتے پھرتے، باتیں کرتے اور لکھتے، رسالوں میں چھپتے اور چھاپتے، اخباروں میں شائع ہوتے، ٹی وی پروگراموں میں چیختے چِلّاتے، بے ربط قسم کے جملے تراشتے، اور بہ غیر کسی نامیاتی ربط کے احساس کے، ان جملوں کو آپس میں جوڑتے، کتنے سارے حضرات و خواتین ملیں گے۔ ان کی نظموں غزلوں کو پڑھیے، ان کی کہانیوں کو دیکھیے بھالیے، یا ان کی تقریروں، وعظوں اور باتوں کو سننے کی پل دو پل کی ہمت کیجیے۔ بہت دقت ہو گی لیکن پھر بھی نا ہو سکے گا، کہ آپ ان کی نگارشات کی زیریں ساختیات میں کوئی مربوط فکری نظام محسوس کر سکیں۔ کتنے سارے ناول لکھنے والوں کے ناول پڑھنے پر بھی مجال ہے کہ لکھنے والے کا کوئی منظم تصورِ کائنات ( worldview) آپ کے آس پاس آن پھٹکے۔ اپنے طور پر بالوں کو بکھیرے ہوئے، اپنی ظاہری حالت میں ناٹک سے بھرا فَقر و غربت، اور ساغر صدیقی پنا لانے کی بھونڈی نقالی کرتے نظر آئیں گے۔ پوچھ کر ہر چند آپ ہی شرم سار ہوں گے، (معذرت کہ آپ کو اچھی دعوت نہیں دے رہے) لیکن ان سے ضرور پوچھیے کہ ہمارے عہد کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ عجب شانِ بے نیازی سے جواب ارزاں کریں گے: ” بھیا ہم فن کار لوگ ہیں، ہم اپنی نگارشات میں بولتے ہیں، نظم میں گویا ہوتے ہیں، غزل میں اشارہ کرتے ہیں، افسانے میں بولتے ہیں، ناول میں کہے دیتے ہیں!” ہم سوچتے رہتے ہیں کہ اے کاش، ایسا ہی ہوتا!
کسی بھی معاشرے کے فکری مینار، یعنی ادباء ور شعراء سے آگے کی جانب چلیے۔ اب عام گلی، کوچے یا سڑک پر آ جائیے۔ آپ کہیں کسی روز مرہ کے کام جا رہے ہوں۔ تو کسی جگہ لوگوں جَمگھٹا لگا عمومی طور پر دیکھتے ہوں گے۔ جب آپ نے یہ سماجی مظہر پہلے پہل اپنے بچپن میں دیکھا ہو گا تو آپ نے بھی ضرور پاس جا کر ملاحظہ کیا ہو گا۔ جاننے کی کوشس کی ہو گی کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر معاملات میں ایسا ہو گا کہ کوئی کرین کسی برساتی آبی گزر گاہ کی صفائی کا کام کر رہی ہو گی؛ کوئی سپیرا اپنی پٹاریاں سجائے اپنے وہ قصے سنا رہا ہو گا، وہ قصے جو نہ تو کبھی پرانے ہوتے ہیں، اور نہ ہی کبھی نئے، اور نا ہی کبھی ختم ہونے کا نام لیتے ہیں۔ لوگوں کا ایک بڑا جمگھٹا ان جیسے مناظر کو اتنی سنجیدگی سے دیکھ رہا ہو گا جیسے کسی نئے مسیحا کا ظہور ہو رہا ہو، اور اپنے اپنے گھروں سے جس جس مسئلے اور کام کے لیے یہ لوگ نکلے ہوتے ہیں وہ اس فنتاسی مسیحا کی ایک پھونک مارنے سے حل ہونے والا ہے۔
کتنی دیر یہاں یہ عام لوگ اپنا وقت برباد کرتے رہیں گے؛ اور اگر آپ نے ان سے پوچھ لینے کی ہمت باندھ کر پوچھ لیا کہ “میاں کدھر کو؟” فوری جواب ملے گا،” بس جناب ایویں ای ذرا دیکھ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے!” حالاں کہ یہی تماشا اور قصہ اس نے کل بھی دیکھا سنا تھا، پرسوں بھی جھیلا اور ترسوں بھی یہی نشریہ ہضم کیا تھا۔
اب اپنے معاشرے کے طالب علم سے ملیے۔ یہ قبلہ وہ ہیں جو آنے والے دنوں کے ہمارے معاشرے کے جنم لیتے کل کے تعبیرِ کار ہیں۔ پوچھ لیجیے کہ اے نوجوان، آپ کیا پڑھ رہے ہیں اور کیوں پڑھ رہے ہیں؟ اس کے جواب کا انتظار کیجیے۔ آپ کو ایسا لگے گا کہ بہ ظاہر کچھ سوچ رہا ہے۔ لیکن کچھ لمحوں بعد وہ اپنے مضامین تو بتا دے گا لیکن وہ ان مضامین کو کیوں پڑھ رہا ہے، وہ نہیں بتا پائے گا۔ آپ کے سوال کے”کیا” والے حصے کا جواب دے دے گا، “کیوں” والے حصے پر چپ سادھ لے گا۔ اس سے جواب نہیں بن پڑے گا۔ اگر وہ بہ ظاہر تھوڑا تیز ہے تو ایسا جواب دے گا کہ آپ کو فوری محسوس ہو گا کہ خود آپ کو سوال کے الفاظ کو مناسب انداز سے ترتیب دینا نہیں آتا۔ آپ کو کئی ایک ضمنی سوال کرنا پڑیں گے تا کہ آپ اس کے مقاصد اور ترجیحات کا تھوڑا سا اندازہ لگا پائیں۔
لیکن عام طور پر وہ جواب اسی طرح کا ہو گا کہ یہ مضامین اس لیے پڑھ رہا ہوں کہ ابا نے کہا تھا، ماموں نے بتایا تھا، یا بڑے بھائی نے ایسے کرنے کا مشورہ ہے دیا تھا۔ خود اس کے اپنے شعور اور اس شعور کو بَہ رُوئے کار لانے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوئی نایاب مثال ملے تو اس راقم کو بھی بتائیے گا:
کہ خوشی سے مر نا جاتے اگر اعتبار ہوتا
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی بڑھتی آبادی کا مسئلہ اُمّ المسائل کا درجہ رکھتی ہے۔ ہمارا ملک ان چند ملکوں میں سے ہے جہاں افزائشِ آبادی کی شرح خطر ناک حد تک بلند ہے۔ اور یہ آبادی کوئی کھیتوں میں نہیں اگ رہی، یا درختوں پر نہیں نمودار ہو رہی۔ یہ ہمارے ارد گرد کے لوگوں کے افعال کا نتیجہ ہے۔ یہ افعال جنسی عمل کی غیر شعوری اور ضبط سے عاری ذہنیت کا شاخسانہ نہیں تو اور کیا ہے۔ ذہن و اعصاب کے ریشے ریشے میں چڑھی ہوئی جنسیّت کو کچھ فکر نہیں کہ اولاد پیدا کرنے کی انسانی مشینری، یعنی اس بابت فیصلہ کرنے سے محروم عورت، کی صحت پر کیا گزرے گی۔ اگر ایک بچے اور دوسرے بچے کی پیدائش میں مناسب حد سے کم وقفہ ہے تو اس دنیا میں فطرت کے مُنھ زور اصولوں کے ہاتھوں مجبور آ جانے والے بچے کی ذہنی اور جسمانی حالت کیسی ہو گی۔ اس لمحے اگر جنسیت کی لت میں اغواء شدہ ذہنیت کو فکر ہے تو محض اپنی رگوں میں دوڑتی لذت کی ندی کو کسی اندھے سمندر میں کسی نا کسی طور گرانا۔ ضبطِ حمل کی سب مصنوعات کا استعمال جانے کوئی کافر! یہاں تو بس اس لمحے کے ٹوٹے شعوری دھارے کی مرضی چلنے والی ہے۔ دو ایک منٹوں اور ایک آدھ آدھے پورے لمحوں کے بعد جب شہوت کا گھوڑا کھیت اجاڑ آئے تو شاید نتائج و عواقب کے متعلق کچھ خیال آئے۔ لیکن “اب کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔” یعنی یہ انسانی افزائشِ نسل کا اہم فیصلہ بھی شعوری فیصلہ نہیں بل کہ جبلّت کے مارشل لاء کے تحت ہی جاری ہے۔ تو پھر آنے والی نسلیں بھی تو “فیکُن” کی عملی تفسیر ہی بنیں گی اور بھلا کیا؟ جس کے متعلق کسی استاد شاعر کی معنوں میں اتنی جلدی میں اتنا اور ایسا ہی ممکن تھا۔ اور، ہممم بس، رہے نام مولا کا!
آگے چلیے۔ جس جگہ آپ کام، کاروبار یا ملازمت کرتے ہوں گے، آپ نے اپنے رفقائے کار سے کبھی پوچھا تو ہو گا کہ انھوں نے اپنا، جو کوئی بھی ہے، موجودہ پیشہ کیوں چُنا؟ جواب یا تو کوئی اور پامال خیال ہو گا، یا یہ والا پامال ترین جواب ہو گا: صاحب، زندگی گزارنے کے لیے کچھ نا کچھ کرنا تو تھا ہی نا اس لیے اس شعبے میں آ گئے۔ آپ کے کتنے آفیسرز ہوں گے جنھیں ساری عمر آفیسر بننے کا شوق رہا ہو گا۔ سال ہا سال وہ خواب دیکھتے رہے ہوں گے کہ کب افسری ملے گی۔ لیکن جونھی افسری کا ننھا اور نیا نویلا ہما ان کے سر پر آن بیٹھے گا تو یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی، کہ صاحبِ زمان کو تو بس افسری کا ہی شوق تھا۔ کچھ کرنے کا منظر نامہ نا تو انھوں نے کبھی سوچا بُنا تھا اور نا ہی ان کے بس کی بات ہے۔ پتا چلتا ہے کہ صاحب کو تو صرف بس رہ نما بننے کی منزل پر پہنچنے سے ہی غرض تھی۔ رہ نمائی کرنا، دماغ کے اندر، شعور کی پہنائیوں میں کو تصوّرِ ترقی و بہتری نا ان کے بس کی بات تھی، نا ہی اسے یہ اپنی جان کا روگ بنانے کو تیار۔ اصلی سرکاری وردی والوں کی کل کی قومی محبوبہ اور آج کل کی زیر عتاب ایک جماعت کا سرکاری نعرہ بھی تو رہا ہے کہ منزل نہیں، رہ نما چاہیے!
اپنے دیس میں اصلی مقتدر حلقوں کی سنیے تو تو سر جھٹکیے، سر دھننے کا نہیں کہہ سکتے۔ وہ کہتے ہیں ملک کی آبادی، قوم محض اس وقت بن سکتی ہے جب ہر وقت اسلحے اور گولے بارود کی ثقافت کو گنگنایا جائے، دشمن کی نیت کے ایکس رے اور فوٹو شاپ حقائق بنائے جاتے رہیں اور سستے داموں بیچے جاتے رہیں۔ بس ایک ہی منظم ادارہ کا حرفِ مکرّر قومی و ملی گردان قرار پائے۔ بھلے اس قوم کا یومِ آزادی ہو، یومِ جمہوریہ (معذرت، اس کو یومِ پاکستان بنا دیا گیا تھا) ہو یا کوئی بھی قومی دن، فکرِ عسکریت کو ہی عوام کو قوم بنانے کا واحد اور سببِّ لا شریک سمجھا جائے۔ ان مواقع پر ملک کے ثقافتی اور تہذیبی تنوع کی پیش کاری کر کے اشتراک و شمولیت کا احساس دلانے کی بَہ جائے ہر وقت سجیلے جوان کی قربانی کو ہی جینا مرنا اور اوڑھنا بچھونا بنا دیا جائے۔ اس ٹوٹے شعور کی سوچنے والوں کو کون یہ گوش گزار کرے کہ صحت مند معاشرے عسکریت کے شانوں پر نہیں بنتے اور نا ہی پلتے ہیں۔
مزید مطالعے کے لیے دیکھیے: ہمارے سماج میں سوچ کی پس ماندگی
ملک کی منصوبہ بندی کی وزارت کے وزیر با تدبیر جب اپنی بصیرت کو ارزاں کر رہے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں اس ملک کے تعلیمی نظام میں ادب، تاریخ، فلسفہ اور دیگر سماجی و عمرانی علوم کی اب قطعی طور کوئی ضرورت نہیں۔ فرماتے ہیں ہمیں اچھے خواب دیکھنے والے، بے معنویت میں سے معنویت تلاشنے والے، قومی پہچان و جمالیات کی تعمیر کرنے والے نہیں چاہییں، بل کہ ہمیں کاغذ پر کھینچی ہوئی لکیریں دیکھ کر اینٹیں لگانے والے، اپنے حقوق کے احساسات سے عاری روبوٹ چاہییں؛ ہمیں سائنس دان نہیں ہمیں تکنیک کار چاہییں۔ تاریخ، ادب اور فلسفہ تو سوچنے سمجھنے ولاے انسان بناتے ہیں، بھلا ان کی اس رِی پبلک میں کیا کھپت!
اپنے بنیادی نکتے، کہ ہم ٹوٹے، بکھرے شعوری اور تخیلی دھارے کے ہاتھوں پِٹا ہوا معاشرہ ہیں، کی بابت اپنے معاشرے سے بہت ساری اور مثالیں بھی پیش کر سکتے ہیں۔ وہ انگریز شاعر ڈرائیڈن نے جیسے کہا تھا، Here is God’s plenty لیکن اپنی ذات اور نا سمجھی کے شعوری لاوے میں جلتے جانے کی مزید سکت نہیں جمع ہو پا رہی۔ راقم اس نتیجے پر پہنچتا ہوا محسوس کر رہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مختلف سطحوں پر اور متفرق سیاقوں میں جاری کارِ روائیوں کے سر انجام دینے میں پیش بینی کا کچھ لینا دینا نہیں؛ شعور کے سہاروں پر اور فہم کی بنیادوں پر افعال و اقوال اور اعمال سر انجام دینے کا عمل دخل نہیں ہے، یا، نا ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے روز مرہ کے عائلی، ادبی، معاشرتی، انتظامی اور حکومتی معاملات میں کسی مربوط شعوری اور تخیلی انداز فکر و کاوش اور منصوبہ بندی کے تصور کا نشان نحیف تک بھی نہیں ہے، بل کہ یہ سب “اللہ کریسی” نظام کے تحت خودکار طریقے سے بہ غیر کسی کی مدد کے چلتے محسوس ہوتے ہیں۔
راقم کو اب یہ بتانے، بل کہ دُہرانے کی قطعی ضرورت نہیں کہ خدا آج کل کہاں ہے! نیٹشے نے جو کہا اسے مؤمنین کے بیچ کہنے سے زبان جلتی ہے اور جان جاتی ہے۔ جن معاشروں کو اس ہنڈیا کے اندر ڈال چڑھایا پکایا جاتا ہے کہ تمھارے واسطے زندگی گزارنے کے لیے سوچنے سمجھنے کی چنداں ضرورت نہیں، کہ تمھارے لیے سب “تیار مال ہے،” جہاں کے سکول منقُولات کی بت پرستی سکھاتے ہوں، جہاں معقولات اور سوال کرنے کی نفسیات کو کفریہ آگ میں جلانے کی خبر داریاں ہوں، جہاں خدا اور اس کے بنائے جہانوں میں اپنے خالق کی نشانیاں ڈھونڈنے والی آیتوں اور تعلیمات کے اسباق یادوں سے محو کرانے کا چلن ہوں، وہاں اور تو کچھ نہیں ہوتا، بس ان کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہوتی، دریافت و ایجاد کی بلند ترین تہذیبی خوبی پنپ نہیں پاتی، بل کہ جنم ہی نہیں لے پاتی؛ شعور کا دھارا افقی اور دائروی حرکت میں خواری کاٹتا رہتا ہے۔ وہ معاشرہ اپنا حال اس جھاڑی جیسا کر لیتا ہے جو زمین پر ہی لَوٹتی رہتی ہے، بس لَوٹتی رہتی ہے، اس جھاڑی کو ایسا عالی قد درخت بننا مقدر نہیں ہوتا جو آسمانوں کے بوسے لیتا ہو، ہر چند اس کی جڑیں مضبوطی سے مادرِ ارضی میں پیوست ہوں۔ معاشرہ بدلے نا بدلے فلک اپنی فطرت نہیں بدلتا۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.