کیا ہمارے بزرگ تنہائی کا شکار ہیں
رضا علی عابدی
ایک چھوٹے سے منظر کی بات ہے۔ منظر جس نے ذہن میں چھوٹی سی شمع روشن نہیں کی، ایک بڑا سا الاؤ بھڑکا دیا۔ پہلے تویہ منظر نگاہوں کے سامنے سے یوں گزرا جیسے چلتی ہوئی گاڑی کے اندر سے نظر آنے والا ہر منظر گزرا کرتا ہے۔ اس کے بعد وقت گزرتا گیا۔ وقت گزرتا ہے تو سب کچھ بدل جاتا ہے۔ مگراُس روز عجب واقعہ ہوا۔ وقت گزرا پر منظر نہ بدلا۔ جو ں کا توں رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ذہن پر اس کا جو نقش بنا تھا، آج تک بنا ہوا ہے۔اور کون جانے کب تک بنا رہے گا۔
یہ ذکر برطانیہ کے شہر لیڈز کا ہے جہاں پچھلے دنوں میرا جانا ہوا۔ میرے دوست ظہیر احمد میرے میزبان تھے۔ اتوار کی صبح تھی، سڑکیں خالی اور شہر پرسکون تھا۔ صبح کی تازہ دھوپ میں ہلکی ہلکی حرارت اور دھلی ہوئی روشنی تھی۔ ظہیر احمد مجھے اپنی کار میں بٹھا کر شہر کے وہ مقامات دکھا رہے تھے جنہیں دیکھ کر منہ سے دو ہی لفظ نکلتے ہیں:کمال ہے۔ لیڈز کی دو بہت بڑی یونی ورسٹیاں اور ملکہ وکٹوریہ کے زمانے کا تاریخی اسپتال دیکھتے ہوئے ہماری کار ایک موڑ پر مڑی تو اچانک حلوہ پوری کی مہک آہستہ سے کار میں داخل ہوئی۔
میں چونک کر اٹھ بیٹھا۔ یہ ہم کہاں آگئے ۔میری جگہ کوئی بھی اجنبی ہوتا ، یہی پوچھتا۔ ظہیر صاحب نے بتایا کہ یہ لیڈز کی دور تک چلی جانے والے سیدھی سڑک ہیئر ہلز روڈ ہے۔ پھر دکانیں آنے لگیں، کاروباری مرکز راہ میں ملے اور ان کے اندر کیا تھا، اس کی تفصیل باہرلگے بورڈوں پر اردو میں لکھی تھی۔ یہ سڑک اور یہ علاقہ خیر سے پاکستان اور آزاد کشمیر کے باشندوں نے آباد کیا ہے اور یہاں جو رونق ہے، اُن ہی کے دم سے ہے۔ صبح کی نکھری دھوپ میں سب کچھ اچھا لگ رہا تھا۔ راہ میں ایک بڑا پارک پڑا۔ وہیں سڑک کے کنارے راہ گیروں کے لیے بنچیں ڈال دی گئی تھیں۔ دیکھا کہ ایک بنچ پر دو بزرگ بیٹھے بڑے ہی انہماک سے باتیں کر رہے ہیں۔ دونوں کی عمریں پچھتّر سے آگے نکل چکی ہوں گی۔ ہم ان پر ایک نگاہ ڈالتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
ہندوستانی اور پاکستانی دکانیں اور طعام خانے دیکھتے ہوئے اور ان کے اردو بورڈ پڑھتے ہوئے ہم اپنی منزل پر جا پہنچے۔ کافی دیر بعد ، یوں کہوں کہ بہت دیر بعد ہم اُسی راستے واپس لوٹے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ اب زیادہ چمکتی دھوپ میں، اُسی بنچ پر بیٹھے ہوئے وہی دونوں بزرگ دنیا زمانے سے بے خبر، اپنے حال میں مگن، خدا جانے کس موضوع پر کیسی گفتگو کر رہے تھے۔ظہیر صاحب میرے تجسس کو بھانپ گئے اور بتانے لگے کہ یہ لوگ اصل میں آزاد کشمیر کے علاقہ میر پور کے باشندے ہیں۔ سنہ ساٹھ کے شروع کے برسوں میں جب برطانیہ میں داخلے پر پابندی لگنے والی تھی، تارکین وطن کا ایک ریلا انگلستان آیا تھا۔
آپ جن بزرگوں کو دیکھ رہے ہیں ، اُن دنوں اِن کی عمریںاٹھارہ بیس برس رہی ہوں گی۔ یہاں آنے کے بعد یہ لوگ اپنی دلہنیں بھی میر پور سے بیاہ کر لائے۔ اب ان کے بچوں کے بال بھی سفید ہو رہے ہوں گے اور ان کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاںگھرمیں انگریزی بول رہے ہوں گے۔ ان سے نئی نسل کا تعلق برائے نام رہ گیا ہوگا۔
کنبے کے درمیان رہ کر بھی یہ لوگ اکیلے ہوں گے۔ یوں سمجھیے کہ ان کی ضعیفی اپنے ساتھ غضب کی تنہائی لے کر وارد ہوئی ہے۔ بس یہ گھر گھر کامنظر ہے۔ جیسے بھی بنتا ہے یہ اپنا دن گزارتے ہیں، کبھی دوسرے ہم عمروں کے ساتھ یا کبھی بازاروں میں مال اسباب سے بھری دکانیں دیکھتے ہوئے۔ اس پر یاد آیا کہ اسی علاقے میں ایک گول چوراہے پر دو بہت بڑے اسٹور دیکھے۔ ظہیر احمد نے بتایا کہ یہاں میر پور کے ایک کنبے نے ایک چھوٹی سی دکان کھولی تھی۔پھر پورے کنبے نے دن رات ایک کرکے یہاں اتنی محنت کی کہ آج ان کے دوبڑے اسٹور کھل گئے ہیں اور لاکھوں کا کاروبار کر رہے ہیں۔
اس برادری کے ایسے ہی جوشیلے اور سرکردہ لوگوں نے ایک بڑا کام کیا ہے۔انہوںنے بچّوں، جوانوں، ادھیڑ عمر لوگوں او ربوڑھوں کے لیے ایک بڑا مرکز قائم کردیا ہے۔ پوری برادری نے طے کیا ہے کہ یہ مرکز ہم سب کا ہے۔اسی مناسبت سے مرکز کا نام ’ہمارا‘ رکھا گیا ہے۔ شروع میں اس کا ایک چھوٹا سا دفتر تھا اور دو جز وقتی ملازم یہاں بوڑھوں کو مصروف رکھنے کی تدبیریں کیا کرتے تھے۔ آج صورت یہ ہے کہ خاص طور پر بنائی گئی بڑی عمارت میں اقلیتی نسل کی ایک ایسی تنظیم قائم ہے کہ لیڈز میں ایسی کوئی دوسری رضاکار تنظیم موجود نہیں۔
مشہور علاقے بیسٹن میں بارہ لاکھ پاؤنڈ سے قائم ہونے والے اس ادارے میں بیس افراد کا عملہ ہے جو وہ سارے کام کررہا ہے جن کا شمار نیکیوں میں ہوتا ہے۔ ضرورت مندوں کو مشورے دینا، صحت کی دیکھ بھال کرنا،تعلیم اور ٹیوشن دینا، بوڑھوں کو خدمات فراہم کرنا، معذوروں کی تعلیم و تربیت کرنا،خواتین کی سرگرمیوں کو فروغ دینا، کھیل کود اور ورزش کا اہتمام کرنا، نو جوانوں کے لیے ہر طرح کی خدمات کا بندوبست کرنا اور برادری کو ایک دوسرے سے قریب لانا، یہ محض چند کام ہیں جو ’ہمارا‘ سر انجام دے رہا ہے۔ ان خدمات کا شہر کے اداروں نے اعتراف کرتے ہوئے ’ہمارا‘ کے کام میں بارہا ہاتھ بٹایا ہے۔
ادارے میں ایک کتاب کی تعارفی تقریب تھی۔ شہر کے سرکردہ افراد آئے تھے۔ سب ہی سے ملاقات ہوئی۔ خاص طور پر تنظیم کے چیئرمین فاروق بٹ صاحب سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ ان کا تعلق بھی میر پور سے رہا ہے۔ انگلستان آکر ایک فضائی کمپنی میں ملازمت کی اور وہاں سے فارغ ہوکر کمیونٹی کی خاطر کچھ کر گزرنے کی ٹھانے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ’ہمارا‘ کی ترقی میں بہت حصہ لیا ہے اور ایک ہی فکر انہیں ستائے جاتی ہے۔ وہ یہ کہ برادری کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کس طرح ادارے کی طرف راغب کیا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہر عمر کے مرد اور عورتیں اپنے گھروں سے نکلیں، سماجی کاموں میں مصروف ہوکر اپنے وقت کو کارآمد بنائیں۔ وہ تمام سہولتیں جو موجود ہیں ان سے خوب خوب فائدہ اٹھائیں اور معاشرے کے مثالی شہری بنیں۔
کام زور شور سے جاری ہے۔ لوگ آرہے ہیں اور استفادہ کر رہے ہیں۔ مگر جی چاہتا ہے زیادہ سے زیادہ لوگ آئیں۔ اب دوسری برادریوں کے لوگ بھی آرہے ہیں۔ ٹیوشن پڑھنے ساٹھ فی صد پاکستانی اور چالیس فی صد دوسری برادریوں کے نوجوان آنے لگے ہیں۔ ان میں گامبیا کے سیاہ فام لڑکے لڑکیاں بھی ہیں جنہیں’ہمارا‘ بانہیں پھیلا کر خوش آمدید کہتا ہے۔
تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ میں نے فاروق بٹ صاحب سے پوچھا۔ کہنے لگے کہ ہم نے بزرگوں کا ایک کلب بنادیا ہے جہاں ان کا دل بہلانے کے لیے ہر طرح کے کھیل فراہم ہیں مثلاً کیرم بورڈ ہے۔ آپ جاکر دیکھیے۔کیرم بورڈ دیوار سے لگا رکھا ہوگا اور سارے بزرگ حضرات پاکستان کی سیاست پر گرما گرم بحث کر رہے ہوں گے۔اب اس میں ان کا کیا قصور۔ وہ برطانیہ کی سیاست میں مارگریٹ تھیچر اور ٹونی بلیئر کے کردار پر تو بحث کرنے سے رہے۔
روزنامہ جنگ پر شائع ہوا