ہم سب محب وطن ہی تو ہیں
امر جلیل
ہم سب محب وطن ہیں۔ چونکہ زندگی کے ہر شعبے میں درجہ بندی ہوتی ہے لہٰذ ہم حب الوطنوں میں بھی درجہ بندی ہوتی ہے۔ چاولوں میں درجہ بندی ہوتی ہے۔ نمبر ون کوالٹی، نمبر ٹو کوالٹی، نمبر تھری کوالٹی، ہر کوالٹی کی قیمت الگ، دام الگ۔ میٹرک سے ماسٹرز یعنی ایم اے اور ایم ایسی سی تک آپ فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوتے ہیں یا پھر سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہوتے ہیں۔ اگر آپ میری طرح گئے گزرے ہیں تو پھر آپ تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوتے ہیں۔ میں آپ کو باور کروانا چاہتا ہوں کہ حب الوطنی میں درجہ بندی کو معیوب سمجھنا نہیں چاہیے۔
یہ قدرت کا قانون ہے۔ آم سب آم نہیں ہوتے۔ آموں میں بھی واضح درجہ بندی ہوتی ہے۔ کچھ آم چونسا، کچھ آم انور رٹول، کچھ آم سندھڑی، کچھ آم سرولی اور کچھ آم بڑے ہی گھٹیا کوالٹی کے ہوتے ہیں۔ اس میں قصور آپ کا ہے اور نہ میرا ہے۔ مگر یہ بات الگ ہے کہ آپ جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں۔ آپ چونسے کی گھٹلی بوئیں گے تو چار سال بعد آپ کو کھانے کے لیے کدّو نہیں ملے گا۔ آپ کے لگائے ہوئے درخت سے آپ کو کھانے کے لیے چونسا ہی ملے گا۔
ویسے تو درجہ بندی عام طور پر تین نمبروں تک مختص ہوتی ہے لیکن درجہ بندی میں ہمارے ہاں دو نمبری زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ درجہ بندی میں اوّل نمبر پر اعداد و شمار کم کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ لہٰذا عام طور پر دو نمبر چیز، شے، حتّیٰ کہ دو نمبر کے آدمی بھی نمبر ون یعنی درجہ بندی میں اوّل بنا کر مشہور کئے جاتے ہیں۔ یقین کیجئے آپ جو چاول نمبر ون کوالٹی کے باسمتی چاول سمجھ کر کھاتے ہیں وہ تیسرے نمبر کے گھسیٹا چاول ہوتے ہیں۔
اس بور تمہید سے میری مراد یہ ثابت کرنا، بلکہ آپ کے گوش گزار کرنا ہے کہ ہمارے ہاں درجہ بندی کے مطابق تین اقسام کے حب الوطن پائے جاتے ہیں۔ حب الوطن درجہ اوّل، حب الوطن درجہ دوئم، یعنی دو نمبری حب الوطن اور تیسرے درجہ کے حب الوطن۔ مگر درجہ اوّل، درجہ دوئم اور درجہ سوئم کے حب الوطنوں میں ایک سوچ، ایک بات مشترک ہے۔
ہم سب دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم دنیا کی عظیم ترین قوم ہیں۔ ہم بے انتہا بہادر ہیں۔ دشمن کی میلی آنکھ کو ملیامیٹ کر سکتے ہیں۔ تہذیب و تمدّن میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے۔ایمانداری اور پارسائی میں ہم نے تمام دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہم کسی سے امداد نہیں لیتے۔ آخر خود داری بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اس ایک نقطہ نظر کے علاوہ باقی تینوں طرح کے ہم حب الوطن مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔
ہم اپنے اپنے طریقے سے وطن سے محبت کرتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ لوگ ہماری حب الوطنی کو سمجھ نہیں سکتے۔ لوگ حب الوطنوں کی اپنے وطن کے لیے بے لوث محبت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مثلاً حب الوطن راستوں، سڑکوں، گلی کوچوں، فٹ پاتھوں پر کوڑا کرکٹ ڈالنے کو برا نہیں سمجھتے بلکہ اس کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ زیادہ سے زیادہ گند پھیلائیں۔ چوراہوں پر گندگی کے پہاڑ کھڑے کر دیں۔ میں جانتا ہوں۔ آپ سوچ میں پڑ گئے ہوں گے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسی حب الوطنی ہے کہ اپنے ہی وطن میں گندگی پھیلائی جائے!
اس سلسلے میں ہم گندگی پھیلانے والے محب وطنوں کا کہنا ہے کہ اگر لوگوں نے سڑکوں، راستوں، گلی کوچوں، چوراہوں، باغ باغیچوں میں گند ڈالنا اور پھیلانا چھوڑ دیا تو پھر بیچارے خاکروب بیروزگار ہو جائیں گے۔ ہم محب وطن نہیں چاہتے کہ ملک میں بیروزگاری ہو، اگر ہماری سڑکیں، گلیاں، چوراہے، روڈ، راستے صاف ہوں گے تو بیچارے خاک روب اور جمعدار کیا کریں گے؟ ان کو ملازمت سے فارغ کر دیا جائے گا جو کہ ہم محب وطن ہرگز نہیں چاہتے۔
لہٰذا آپ دل کھول کر گند پھیلائیں اور ملک سے اپنی محبت کا منہ بولتا ثبوت دیں۔ خاکروب اور جمعداروں کے بال بچّے آپ کو دل سے دعائیں دیں گے۔ یاد رہے کہ بیروزگاری بڑی بری بلا ہے۔ آپ صفائی ستھرائی کا کیڑا اپنے دماغ سے نکال دیں۔ صفائی ستھرائی ہو گی تو خاک روب، جمعدار اور ان کے افسران اور ان کے افسران اعلیٰ و افسران بالا بیروزگار ہو جائیں گے۔
حال ہی میں یورپ کے کچھ ممالک نے اپنے زیادہ تر جیل خانے بند کر دِیے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب جرائم نہیں ہوتے بلکہ نہ ہونے کے برابرہوتے ہیں تب ضرورت سے زیادہ جیل خانے رکھنا سرکاری خزانے پر خواہ مخواہ کا بوجھ ہے۔ لہٰذا انہوں نے بڑی تعداد میں جیل خانے بند کر دِیے۔ دنیا نے ایسے یورپی ممالک کی تعریف کی، انہیں سراہا۔ مگر ہم پاکستانی محب وطنوں نے ایسے یورپی ممالک کی نہ تو تعریف کی اور نہ ہی انہیں سراہا۔ نام نہاد ترقی یافتہ یورپی ممالک نے قلم کی نوک سے اپنے جیل خانوں کے ملازمین کو بیروزگار کر دیا۔ بیروزگاری کی وبا کو ہم سے زیادہ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔
اصل میں ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ ایسے یورپی ممالک جہاں جرائم نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں وہاں جرائم بڑھانے کی ترکیبوں پر سوچا جاتا اور ان ترکیبوں پر عمل کیا جاتا تاکہ جیل خانے کھلے رہتے، چلتے رہتے اور پھلتے پھولتے رہتے۔ ہم دنیا کی عظیم ترین قوم ہیں۔ یورپی ممالک کیا سمجھتے ہیں! کیا ہم اپنے وطن سے جرائم کو جڑ سے اکھاڑ نہیں سکتے؟ یہ ہمارے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ اگر ہم چاہیں تو دیکھتے ہی دیکھتے جرائم کا صفایا کر سکتے ہیں۔ مگر دانستہ ہم ایسا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں جیلوں کی فراوانی ہے۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ جیل خانوں میں ہم خود کفیل ہیں۔ لاکھوں کنبوں کی روزی، روٹی جیل خانوں سے بندھی ہے۔ اگر ہم نے جرائم کو جڑ سے اکھاڑ دیا، جو کہ ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ تو پھر مجرموں کی تعداد کم سے کم تر ہوتے ہوتے ختم ہو جائیگی۔ ایسے میں ہمارے جیل خانے ویران ہو جائیں گے۔ جیل کے عملے کو فارغ کر دیا جائے گا۔ لاکھوں کنبے روٹی کے ایک نوالے کو ترس جائیں جو کہ ہم محب وطن نہیں چاہتے۔
ہم چاہتے ہیں کہ جیل خانے آباد رہیں۔ جیل خانے کےعملے کی روزی روٹی چلتی رہے۔ وہ لوگ بیروزگاری کا شکار نہ ہو۔ ہم محب وطن لوگوں کی بھلائی کا سوچتے ہیں۔ خودکفیل ہونے کے باوجود ہماری جیلوں کی حالت ابتر ہے۔ لہٰذا اعلیٰ نسل کے مجرم بیرون ملک خاص طورپریورپی ممالک میںسیاسی پناہ لے لیتے ہیں۔ ہم محب وطن کس طرح اپنی حب الوطنی کو چارچاند لگاتے ہیں، وہ میں آپ کو اگلے منگل کے روز جنگل میں بتاؤں گا۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ