ہمزاد کا المیہ
معصوم رضوی
مومن، کافر، جنت، جہنم، جو فیصلے خدا کے ہیں اب دنیا میں ہوتے ہیں پھر شرک کا کیا رونا۔ سوچنے سمجھنے کا وقت اب بھلا کس کے پاس ہے۔ ویسے بھی سوچ تو ٹھہری جرم ، تقلید کا دور دورہ ہے۔ بس اپنے اپنے مرشد کی مقدس انگلی تھامے انجان منزل کی جانب بڑھتے چلو سچ، جھوٹ، غلط ، صحیح کا فیصلہ تو راہبر نے کرنا ہے۔
ہر میرِ کاررواں بزعمِ خود حق و صداقت کی معراج، اس کے سامنے بولنا، سوال کرنا تو دور کی بات ایسا سوچنا بھی گناہ عظیم ہے۔ جس معاشرے میں سوال جرم اور فکر گناہ تصور کی جائے وہاں اندھیروں میں جہالت کی کالی چڑیلیں روشنی کا اوتار بن کر چھم چھم ناچا کرتی ہیں۔
میں ایک خوفزدہ پاکستانی، گناہگار مسلمان اور عامی انسان ہوں، ظاہری طور پر میرا قد و قامت آپ کو عام انسانوں جیسا لگے گا مگر راز کی بات بتاؤں اندر سے میں بونزائی بن چکا ہوں۔ بونزائی تو آپ جانتے ہیں ناں، جاپان میں کا ایک قدیم فن ہے جس کے ذریعے جیتے جاگتے درختوں کو سینٹی میٹرز تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ بالکل نارمل پھل پھول دیتے ہوئے، بس میری بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔ میرا ظاہر تو آپ جیسا ہے مگر دنیاوی غلاظتوں میں لتھڑا باطنی ہمزاد خوف کی ہر نئی لہر کے ساتھ سکڑتا جاتا ہے۔
آپ سے کیا چھپانا میرے ذھن پر بڑے چھوٹے ڈھیر سارے تالے پڑے ہوئے ہیں۔ معاشرتی، لسانی، مذہبی، نسلی، سیاسی، سماجی، عسکری، پاکستانی، فرقے اور تاریخ کے تالے بھی ہیں۔ جب کبھی سوچنے کی کوشش کرتا ہوں تو متعلقہ تالا اتنی زور سے کھڑکھڑاتا ہے کہ خدا کی پناہ، خوفناک دھمکیاں دیتا ہے، ڈراتا ہے کہ میرا بونزائی ہمزاد سہم کر مزید چھوٹا ہوتا جاتا ہے۔
خیر ہمزاد کی یہی سزا ہونی چاہیے کمبخت سوچنا چھوڑتا ہی نہیں۔ شاید آپ جانتے ہوں پیرس میں دریائے سین پر بروکلین پل کی ریلنگ پر منت ماننے والے عاشقان تالہ لگا کر چابی دریا میں پھینک دیا کرتے تھے۔ فرق یہ ہے کہ اس چھوٹے سے پل کے تالے بے جان اور میرے جاندار ہیں۔ سوچنے کا گناہ شروع بھی نہیں ہوتا نجانے انہیں کیسے خبر ہو جاتی ہے پھر ایسا اذیت ناک دھمال کہ الامان الحفیظ، خیر بروکلین پل پر تالوں کا بوجھ اس قدر پڑ گیا تھا کہ گرنے کے خوف سے کچھ سال پہلے سارے تالے ہٹا دیے گئے مگر میرے تالے تو وقت کے ساتھ توانا ہوتے جا رہے ہیں اور ہمزاد ان کے بوجھ تلے دب کر سکڑتا جا رہا ہے۔ ان پراسرار تالوں کی اذیت مجھے جینے نہیں دیتے اور ہمزاد کے سوال مجھے مرنے نہیں دیتے۔
جب کسی محفل میں لوگ اپنے اپنے ظاہر و باطن ایک ہونے کی بات کرتے ہیں تو میں ایک منافقانہ اطمینان بخش مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلا کر پرزور تائید تو کرتا ہوں۔ مگر صرف میں جانتا ہوں کہ میرا ظاہر اور باطن ایک ہو ہی نہیں سکتے۔
میں یہ راز میں کبھی کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتا، آپ بھی کسی کو نہ بتائیں ورنہ میری پارسائی اور بہادری کا سارا بھرم بھرِشٹ ہو جائے گا۔ ایسا نہیں کہ میں نے کوشش نہیں کی، یقین مانیں نیک نیتی سے قسمیں کھائیں کہ مر بھی رہا ہوں تو بھی نہیں سوچوں گا مگر یہ کمبخت ہمزاد ایسا ہونے نہیں دیتا۔ ایسا بھی نہیں کہ میں نے ہمزاد سے چھٹکارا پانے کی کوشش نہیں کی، عامل اور سنیاسی باوا لوگوں سے بھی ملا، روحانی درباروں کی چوکھٹ پر بھی دھونی بھی رمائی مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔
کوئی جنوں کو تسخیر کرنے کے چلے بتاتا تو کوئی اگیابیتال سے پاتال تک پراسرار دنیا کی سیر کرواتا۔ ایک پیر و مرشد کے در پر گیا، مرید شدید گرمی میں چندے کی بریانی کا لنگر کر رہے تھے۔ منت سماجت کر کے حاضری کا موقعہ ملا، مرشد یخ کمرے میں حالت جذب میں تھے۔ سامنے نمکین میوہ جات اور بھیڑ کا بھنا گوشت، مگر توجہ منرل واٹر کی بوتل پر زیادہ تھی جس میں سے مجھے سوڈے کی خوشبو محسوس ہوئی تو ایک برہمچاری نے ٹہوکہ مار کر آگے بڑھا دیا۔ آنکھیں موندے حالت جذب میں سوال آیا مانگ کیا مانگتا ہے؟ احترام و عقیدت سے مسئلہ بیان کرنا چاہا تو تحکمانہ سرگوشی سنائی دی: مختصر، مختصر۔
ہڑبڑا کر عرض کیا کہ سوچنا چاہتا ہوں، سچ، جھوٹ، صحیح، غلط کا فیصلہ خود کرنا چاہتا ہوں، ایک دم سرخ جلالی آنکھیں کھلیں، دھاڑ کر بولے مورکھ، اب تجھ جیسے جاہل مطلق، گناہگار ۔۔۔۔۔ اور جو کچھ کہا اسے صرف پارلیمان میں ہی کہا جا سکتا ہے۔ اشارہ پاتے ہی برہمچاریوں نے ڈنڈا ڈولی کر کے بچی کچھی بریانی کے ڈھیر پر اچھال دیا، جہاں چند معصوم بچے مریدوں کے دانتوں سے بچنے والی بوٹیاں تلاش کر رہے تھے۔ یقین مانیں کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اپنی تلاش کا سفر اس قدر دردناک اور بھیانک ثابت ہو گا۔
میں نے پھر بھی ہمت نہ ہاری سوچا تقلید کی متبرک چھتر چھایہ میں آ جاؤں، مقدس مرشدوں کی تلاش شروع کر دی۔ ایک مسلم الثبوت محب وطن، شعلہ بیان پاکستانیت کے دانشور سے ملا، تاریخی ابہام کے حوالے سے کچھ سوال کیے تو انہوں نے پاکستان کی شان میں ایسے قصیدے سنائے کہ ذھن پر سناٹا چھا گیا۔ سیاسی اور عسکری مرشدین نے صرف ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالی، لسانی اور نسلی مرشدین نے اتنے پرتشدد بھاشن دیے کہ میں تو میں بیچارہ ہمزاد بھی لرز کر رہ گیا۔
تاریخ کے دانشور نے ایسے پردے اٹھائے کہ چودہ طبق روشن ہو گئے۔ اس سفر کا نتیجہ تو کچھ نہیں نکلا مگر یہ ضرور سمجھ آیا کہ پرتقدس مرشدین کی درباری اور خلوتی سوچ میں جو کچھ ہے اسے فرق کہنا توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ میرے ظاہر اور باطن کی جنگ بھی مزید تیز ہو گئی۔ سمجھ نہیں آتا تھا میٹھی میٹھی باتیں کرنے والے اتنے کڑوے کسیلے کیسے ہو سکتے ہیں، خدا کی قسم آج تک حیران ہوں کہ نورانی ہالوں سے منور لوگ اپنے ہمزادوں کی سیاہی کیسے چھپا تے ہیں۔
ذھن میں دھواں دھار جنگ جاری تھی کہ ایسے میں ایک یار باش، پیرِ مغاں سے ملاقات ہو گئی، نجانے کیا تاثیر تھی ان کی ذات میں نہ چاہتے ہوئے بھی زندگی بھر چھپائے راز کھول بیٹھا، ظاہر و باطن، تالے، ہمزاد کے سوال، سوچ کا گناہ سب کچھ سامنے رکھ دیا۔ ایک گہری مسکراہٹ کے ساتھ بولے تو سوچ کو روکتا کون ہے؟ حیرت سے جواب دیا حضور کون نہیں روکتا، بولنا تو دور کی بات سوچنے سے بھی خوف آتا ہے۔ ایک فلک شگاف قہقہے کے ساتھ گویا ہوئے، بھائی میرے قرآنِ مجید بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔
امام غزالی فرماتے ہیں کہ ایک آیت سمجھ کر اور غور و فکر کے ساتھ پڑھنا بغیر غوروفکر کے ساتھ پورا قرآن پڑھنے سے بہتر ہے۔ نیوٹن کہتا ہے منطق آپ کو حروف تک محدود رکھتی ہے جبکہ فکر لامحدود زمانوں تک لے جاتی ہے۔ قائد اعظم کی سوچ کسی سے چھپی نہیں، اقبال خرد وجنوں کی داستان بیان کرتے رہے، عشق کو فکر کی بنیاد قرار دیتے رہے۔ ژان ژاک روسو کہتا ہے جھوٹ کے پاس ان گنت جوڑ توڑ ہوتے ہیں مگر سچ کے وجود کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے، اور رینے ڈیکارٹ نے تو مسئلہ ہی حل کر دیا ہے، کہتا ہے I think therefore I am یعنی شعور ہی وجود کا تعین کرتا ہے۔
سوچ کی طاقت اللہ نے دی ہے تو بندہ جھٹلانے والا کون؟ تو جناب یہ تھی علامہ گوگل سے میری پہلی ملاقات، مسئلہ حل، سارے تالے کھٹا کھٹ کھل گئے۔ کبھی کبھی افسوس ضرور ہوتا ہے شعوری زندگی کے نجانے کتنے سال عظیم بونزائی مرشدین کی تقلید کی نذر ہو گئے۔