ہیپی برتھ ڈے بوڑھی ماں
تسنیم عابدی
جناب میری دھرتی ماں ستر برس کی بوگئی میں نے اس کی سالگرہ کے لیے کیک خریدا اور اس کے حضور دو زانو ہو کر بیٹھ گئی اس کے چہرے پر جھریاں نمودار تھیں ہر جھری کے پیچھے ایک داستان تھی جسے وقت روانی سے لکھتا چلا گیا۔ جسے اس کے سپوتوں نے شاید کبھی پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی تھی کہیں پر اس کے بیٹوں کے اختلاف کی خلیج تھی، کہیں اس کے ٹوٹے ہوئے بازو کی کہانی تھی۔
ایک جُھری کو پڑھتے ہوئے میں کانپ کانپ گئی اس کے محافظ ہی اس کی نقب زنی میں مصروف تھے، ایک جھری جو اس کے ما تھے کی شکنوں میں گم شدہ ہوچکی تھی وہ فسطائیت شدہ جمہوریت کی طرح بل کھا کھا کر ابھرنے کی ناکام کوشش میں مبتلا نظر آئی۔
اس کی ویران آنکھوں میں عدل و انصاف کے جُھکے ہوئے ترازو نظر آئے جس کے ایک پلڑے میں جمہوریت کی کرپشن اور دوسرے پلڑے میں ڈکٹیٹر شپ کا جبر سی سا کی طرح اپنے اپنے وقت پر اوپر اور نیچے اتا نظر آیا۔
میری ماں میری بوڑھی ماں کی ناک جو بہت ستواں تھی اس پر مذہب اور مسلک کے جنونیوں نے وہ ظلم ڈھایا کہ اب اس کو موم کی طرح حسبِ ضرورت اتنا موڑا اور توڑا گیا کہ اس کی ساری دلکشی ختم ہوگئی میری ماں تو تو حسن میں اپنی مثال اپ تھی تجھ میں تو ایسا توازنِ صفات تھا کہ کسی بھی ایک صفت کا تقابل دوسری صفت سے ممکن نہ تھا مگر اب تو تیرے عیب ایک دوسرے سے بازی لے گئے ہیں۔
ماں تیرے کان کبھی اتنے بڑے لگتے ہیں کہ لگتا ہے رائی کا پہاڑ بنادیا گیا اور کبھی اتنے چھوٹے کہ نوحہ کرتی آوازیں ترے کانوں میں جگہہ نہیں پاتیں ماں یہ صحافتی کان یہ صحافتی زبان تجھے کب تک تماشا بنائے رکھے گی۔
تیرے عارض پر یہ خون کیوں لگا ہے یہ ہمیشہ تازہ کیوں رہتا ہے میں اسے الگ کرنا بھی چاہوں تو اس کا ایک قطرہ بھی الگ نہیں ہوتا مسلک، مذہب، زبان کے خلیوں کی ترکیب اجزائی بس سرخی دیتی ہے اور میری ماں خجالت اور ندامت سے سرخ ہوجاتی ہے۔
ماں ترے سِلے ہوئے لب بتا رہے ہیں کہ آزادی کے باوجود تجھے آمریت اور بیورو کریسی نے سننا نہیں چاہا ان ہونٹوں کے ٹانکوں کے پیچھے گم شدہ افراد کی چیخیں ہیں ماں تیری بے بسی کی تصویر بہت کربناک ہے تیرے گلے کی ہر جھری میں ایک خنجر کا نشان پیوست ہے۔
مگر تیری ممتا نے ان خنجر بدست ہاتھوں کو پھر بھی کلیجے سے لگایا ہوا ہے اور تیرے اپنے کمزور ہاتھ آف لرزتے ہوئے یہ ہاتھ دُعاؤں کے قیمتی کاسے کو سنبھالے ہوئے ہیب جس میں سے حرفِ دعا آسمان تک پہنچنے کی فکر میں فضاؤں میں محو پرواز ہیں تیری کمر جھک گئی ہے مگر تو پھر بھی اس پر شکر گزار ہے کہ یہ کمر ٹوٹی نہیں کیونکہ تیرا حوصلہ بلند ہے۔
ماں تیرے کمزور پیر راستے کی صعوبتوں کی وجہ سے زخمی ہیں مگر رک نہیں رہے۔ ماں کاش کوئی تجھے اس دائرے کے سفر سے نکالے اور رحم کھائے۔ ماں میں تو تیری سالگرہ منانا چاہ رہی تھی یہ قیافہ شناسی کے کس جھنجٹ میں پڑ گئی۔ بس مجھے تو تجھے مبارکباد دینا تھا تیرا پرچم لہرانا تھاناچنا تھا، گانا تھا۔
پُر جوش جذبات کے ساتھ تیرا جھنڈا لہرانا تھا اور لہک لہک کر قومی ترانے گانا تھا مگر تیرےحلیے تیری خستہ حالت نے اب کی مرتبہ مجھے یہ سب کچھ نہیں کرنے دیا کیک پر لگی موم بتیاں بھی جل نہیں رہیں کہ جنھیں بجھایا جاسکے چلو ماں تم اپنا آنچل ہم پر سایہ کرو اور سب کچھ بھول جاو ہم بھی گرفتہ مگر پر درد اواز سے کہتے ہیں ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ہیپی برتھ ڈے پاکستان ہیپی برتھ ڈے ٹو یو تم سلامت رہو اور سب پر سایہ فگن رہو