ہیری پوٹر کے جادو گر ، جادو گرنیاں اور مغرب کا سماجی نظام
از، منیر فیاض
جے کے رولنگ کی ہیری پوٹر سیریز کئی سال سے مقبولیت کی بہت سی منازل طے کرتے ہوئے بچوں کے ادب میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والی کتابوں میں شامل ہو چکی ہے۔ یہ سیریز نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں میں بھی بہت مقبولیت رکھتی ہے۔ بڑوں میں اس کی مقبولیت کے نتیجے میں سنجیدہ ادبی حلقوں نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ اس کا علمی و ادبی تجزیہ کیا جائے اور اس میں بیشتر رونما ہونے والے موضوعات جیسے موت اور مذہب کا مطالعہ کیا جائے۔ اس بات کو بھی تحقیق طلب سمجھا گیا کہ ہیری پوٹر میں موجود طبقاتی نظام کس طرح حقیقی معاشرے کو ظاہر کرتا ہے اور کس طرح معاشرے میں موجود طبقات سے اپنی ساخت کی تشکیل میں مدد لیتاہے۔ یہ بات بہرحال مستحکم ہو چکی ہے کہ ہیری پوٹر سیریز محض ’ایں و آں‘ کی جنگ سے متعلق ایک طلسمی کہانی نہیں بلکہ اس میں بہت واضح اور بجا طور پر انسانی اور مادی اقدار کے دو نظام پائے جاتے ہیں جو آپس میں برسرِ پیکار ہیں۔ اس سیاسی اور سماجی نظام کو پہچاننے کے لیے ہمیں اس میں موجود نسلی ، طبقاتی اور طاقت کے عوامل کا معائنہ کرنا پڑے گا۔
1997ء میں جب ایک سبز آنکھوں والا لڑکا اپنے دبلے پتے جسم اور چہرے پہ زخم کے نشان کے ساتھ منظر نامے پر نمودار ہُوا تو کوئی نہیں کہہ سکتا تھاکہ یہ معمولی سا نظر آنے والا لڑکا اس دنیا میں اتنی غیر معمولی اہمیت اختیار کرے گا۔ تقریباً ایک دہائی گزرنے کے بعد ہی جے کے رولنگ اور ہیری پوٹر کے نام ہمارے روزمرہ میں اس طرح شامل ہو چکے ہیں کہ انھوں نے اپنی ایک ثقافت تخلیق کر دی ہے۔ رولنگ نے افسانہ، دیومالا اورنظریہ کا ایسا آمیزہ تخلیق کیا ہے جو تجزیہ اور تفکر کے بہت سے در کھول رہا ہے۔ رولنگ بھی اپنے تخلیق شدہ کردار کے نام کی طرح ’کوزہ گر‘ ہے جو اپنے ناول کو فنی چابک دستی سے پیچیدہ تر کرتی جا رہی ہے اور اپنی مہارت دکھا رہی ہے۔ سیریز کے پہلے ناول سے ہی اس میں سماجی اور سیاسی موضوعات کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔
ہیری پوٹر سیریز کے ناولوں کے بنیادی کردار مگلوں اور جادوگروں کے ہیں۔ مگل وہ لوگ ہیں جو جادوگرنہیں ہیں۔ ہیری کے نگران ڈریسلز، اس سلسلے کے سب سے پہلے کردار ہیں۔ یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جادوگر طبقے کی اکثریت خود کو مگلوں سے برتر سمجھتی ہے۔ ایسے جادوگر بھی ہیں جو مگلوں سے نفرت نہیں کرتے بلکہ ان کی جادوئی طاقتوں کے مالک نہ ہونے کی وجہ سے ان میں دلچسپی لیتے ہیں مگر ان کو ذہین نہیں سمجھتے۔ جادوگروں کی دنیا میں فطانت کے لئے جادو کی شرط لازم ہے۔ کچھ جادوگرمگلوں کے مطالعے میں ایسے ہی دلچسپی رکھتے ہیں جیسے انسان، بندر یا گوریلے کے مطالعے میں۔ مجموعی طور پر مگلوں کے ساتھ جادوگروں کا یہ رویہ مبنی بر تعصب ہے۔ وہ انھیں ہرگز اپنے برابر کا نہیں سمجھتے۔ اس ضمن مسٹر ویزلے کا کردار بہت اہم ہے جو مگلوں کے لیے بہت زیادہ متعصب نہیں ہے۔ جادو کی وزارت میں اس کا کام مگلوں کو ان اشیا سے محفوظ رکھنا ہے جو جادو کے اثر کی وجہ سے مگلوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں اور انھیں جادوگروں کے ایسے اثرات سے محفوظ رکھنا ہے جس کے زیرِ اثر وہ خود کونقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس کا ایک نمونہ ہمیں ہیری پوٹر کے سلسلے کے چوتھے ناول میں نظر آتا ہے جہاں کو ایڈچ کپ کے دوران مگل ، جادو کے اثر میں آجاتے ہیں۔ اسی میں ہمیں پہلی مرتبہ ’موت خوروں‘ کے کردار کا سامنا بھی ہوتا ہے جو لارڈ ولڈے مورٹ کے معتقدین ہیں اور سرِ عام مگلوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے انھیں نے بے جان پتلوں کی طرح ہوا میں معلق کر دیتے ہیں اور اُٹھا اُٹھا کر پٹختے ہیں۔ نسلی اور طبقاتی نظام کے مطالعے کے لیے یہ ایک اہم نکتہ ہے۔ شاید یہ انسانی فطرت ہے کہ ان لوگوں کو اقتدار دیا جائے جو طاقت ور اور متعصب ہیں۔یہاں موت خوروں کی سادیت پسندی اور ملگوں کو لاحق خطرات سے بہت سی آمرانہ حکومتوں اور شخصیتوں کا خیال آ جاتا ہے جو محض اپنے اور اپنی نسل کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے بے گناہ لوگوں پر ظلم ڈھاتے رہے۔
اسی طرح ایک اور موضوع اصل النسل ہونے کا ہے۔ ایلین آسٹری نے جے کے رولنگ پر اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ رولنگ کی کہانیاں ہمیں یہ سبق سکھاتی ہیں کہ معاشرے میں موجود تمام انسانوں کو ان کے کردار اور اخلاق کی بنیاد پہ دیکھنا چاہیے نہ کہ ان کی نسل اور ذات کے تناظر میں۔ اس بات کو دکھانے کے لیے رولنگ نے ذات پات اور نسلی تعصبات کے روایتی تصورات سے مدد لی ہے۔ اسی وجہ سے ہیری پوٹر کے ناولوں کو نہ صرف تصوراتی کہانیوں کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے بلکہ ان کی حقیقی دنیا کے ساتھ تعبیر بھی کی جا سکتی ہے۔ انسان کو اس کے کردار کے معیار پہ دیکھنے کے تضاد کے طور پر جادوگروں کی دنیا کے اس تصور سے مدد لی گئی ہے کہ صرف ایک خالص النسل فرد کو ہی اعلیٰ مقام کا حق دار سمجھا جاتا ہے۔
یہ نکتۂ نظر ’موت خوروں‘ کے کردار سے واضح ہو کے سامنے آتا ہے اور ان میں بالخصوص میلفائے کا کردار بالائی طبقے کی ذہنی بدعنوانی کا نمونہ ہے۔ خالص النسل جادوگروں کے بعد ایک طویل قطار ان کرداروں کی ہے جو مخلوط النسل ہیں۔ یہ ایسے جادوگر اور جادوگرنیاں ہیں جن کے والدین میں سے ایک جادو گر اور دوسرا مگل ہوتا ہے۔ ایسا بھی ہے کہ والدین میں سے ایک کوئی دیو اور دوسرا مگل ہو۔ ان کے بعد جادوگروں کی اورذاتیں ہیں۔ ایک وہ جو مکمل مگل ہویعنی اس کے دونوں والدین مگل ہوں اور جادو کرنے کی اہلیت رکھتا ہو اور دوسرے وہ جو نجیب الطرفین جادوگر ہو مگر خودجادو کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ آخر الذکر دو قسمیں کمیاب ہیں اور ان کو بہت کمتر بھی سمجھا جاتا ہے۔ ان دونوں قسموں کو مگلوں کے برابر بلکہ ان سے بھی کمتر سمجھا جاتا ہے۔
اس نسلی قضیہ کی وجہ سے ہیری پوٹر کی کہانیوں میں موت خوروں کا کردار واضح ہوتا ہے۔ لارڈ ولڈے مورٹ، جو کہ جادوگروں کا قائد ہے، اصل میں خالص النسل نہیں ہے۔ اس کا باپ ایک مگل تھا۔ اس نے اپنے آپ کو نجیب الطرفین مشہور کرنے سے پہلے اپنے تمام مگل رشتہ داروں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اس نے اپنا اصلی نام ’ ٹام رڈل‘ بھی خود تبدیل کیا۔ ولڈے مورٹ اپنے خاندان کے قتل کو اپنے نجیب الطرفین بننے کی قیمت کے طور پر دیکھتا ہے۔ جے کے رولنگ خود ولڈے مورٹ کے بارے میں یہ کہتی ہے کہ وہ ایسا کردار ہے جو طاقت کا بھوکا ہے چاہے اسے اس کے لیے کوئی قیمت ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ ولڈے مورٹ اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ جادوگروں کی دنیا میں اس کی مضبوط حکمرانی کے لیے محض اس کا ایک ماہر جادو گر ہونا ضروری نہیں بلکہ اس کے اپنے مقلدین بھی ہونے چاہیں جو اس کے ظلم کی حکمرانی کو اُستوار رکھیں۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنے دائیں بائیں بہت کٹر نسل پرست جادوگروں کو اکٹھا کیا ہُوا ہے۔ ولڈے مورٹ کے تمام ساتھی صرف ذاتی خواہشات کا احترام کرتے ہیں اور ایسا صرف تبھی ممکن نظر آتا ہے جب وہ ولڈے مورٹ کے مقاصد کی تکمیلکے لئے کام کریں اور ظالمانہ عزائم میں اس کا ساتھ دیں۔ دوسری طرف وہ کمزور کردار ہیں جن کی بقا کو اس ظالمانہ حکمرانی سے خطرہ ہے۔ ولڈے مورٹ ایک ہولوکاسٹ کے ذریعے تمام مگلوں سے نجات کا خواہاں ہے لیکن وہ اس بات سے بھی آگاہ ہے کہ خالص النسل جادوگر بھی بہت کم رہ گئے ہیں۔ اگر اس نے تمام مگلوں کو مار دیا تو اس کی رعایا میں لوگوں کی تعداد بہت کم رہ جائے گی۔اس تناظر میں وہ طاقت کے استعمال سے اپنا راج قائم رکھنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ مگلوں کے مکمل خاتمے کے بغیر صرف ظلم اور خوف کے بل بوتے پر حکومت کرتا رہے۔
ولڈے مورٹ اور موت خورایک ایسا بورژوا بناتے ہیں جو مگلوں کے پرولتاریہ پر حاکم رہنا چاہتا ہے۔ ولڈے مورٹ یہاں بھی اپنی انفرادی خواہشِ حکمرانی کو اجتماعی یا گروہی مفاد سے بڑھ کر عزیز رکھتا ہے۔ اسی نکتہ پر ربیکا سٹین نے کہا ہے کہ ولڈے مورٹ کی شکست کی یہی وجہ ہے کہ ہیری کی اس کے خلاف جنگ اجتماعی نوعیت کی ہے لبکہ اس کے عزائم انفرادی ہیں۔ انفرادی بچپن ہونے کے باوجود ہیری ایک گروہی فکر کا حامل کردار ہے۔ وہ ولڈے مورٹ کے خلاف اپنے ساتھیوں کو مجتمع کر کے اپنی اسی دوہری طرز کی شخصیت کو یکجا کرتا ہے۔ وہ معاشرتی قدروں کی بہتری اور رکھوالی کے لیے کوشاں ہے۔ وہ یہاں تک کہتا ہے کہ اگر اسے مارا گیا تو وہ اپنے ساتھ ولڈے مورٹ اور بہت سے موت خوروں کو بھی لے کر مرے گا۔
اس جنگ میں ہیری کے اتحادی آرڈر آف فونکس کے لوگ ہیں۔ اس گروپ کا کوئی انفرادی حکمران نہیں ہے لیکن سب لوگ مل کر اس مقصد کے لیے جدوجہد کرتے ہیں کہ ولڈے مورٹ کہیں جادوگروں کی دنیا کا مطلق العنان حکمران نہ بن جائے۔
مختصر یہ کہ آرڈر آف فونکس ایک مبنی بر اخوت معاشرہ کی تمثیل ہے۔ یہاں آکر ولڈے مورٹ اور ہیری کا جھگڑا مادی اور روحانی دنیاؤں کے جھگڑے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ ولڈے مورٹ کے عزائم اور شوق سرمایہ دارانہ نوعیت کے ہیں۔ وہ چیزوں کو اکٹھا کر کے ، چھین جھپٹ کے اپنے تصرف میں رکھنے کا خواہش مند ہے۔ ہیری اس کی اس فطرت کا ادراک کرتے ہی اس کے خلاف بغاوت کر دیتا ہے۔
ہیری کی یہ بغاوت صرف ولڈے مورٹ کے خلاف نہیں بلکہ ایک بد عنوان طرزِ حکمرانی کے خلاف ہے۔ وہ جادو کی وزارت کی انتظامیہ سے بھی بد ظن ہے اور ایک ایسا نظام لانا چاہتا ہے جس میں مگلوں سمیت سب کا تحفظ یقینی ہو۔ وہ وزارت میں بد عنوانی کی وجہ سے خائف ہے اور نئے وزیر کا پوسٹر بوائے بننے سے انکار کر دیتا ہے۔
ہیری کی کوششوں کے نتیجے میں ایسے مثالی معاشرے کا ظہورجس میں طبقاتی تفرقات نہ ہوں حقیقت اور واقعیت کے خلاف ہو گا ۔ جے کے رولنگ ، جو اپنے اسلوب میں جادوئی حقیقت نگار کے طور پہ سامنے آتی ہیں، خود بھی ہیری پوٹر کی سیریز کا ایسا اختتام نہیں کرے گی جو خلافِ واقعیت ہو۔سیریز کے چوتھے ناول میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایلفوں کی چلائی گئی آزادی کی تحریک کا خود بہت سے ایلفوں نے مذاق اُڑایا اور آزادی کے بارے میں بات کرنے کو شرمناک سمجھا جاتا رہا ۔اس تحریک کی بانی ہرمیونے نے اسے خود ہی چھوڑ دیا لیکن اس کی مدد سے رولنگ نے قارئین کو یہ باور کرا دیا کہ ذات پات اور نسل کے اس معاشرے میں لوگوں کے خیالات میں بڑی تبدیلی پیدا کرنا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔ ایسا ضرور ہو سکتا ہے کہ وہ ہیری کی جدوجہد کو ایسا رُخ دے ، جہاں طبقاتی اختلاف اور تنوّع کی موجودگی میں معاشرتی ہم آہنگی پر مبنی معاشرہ قائم ہوتے دکھا دیا جائے۔