ہاروکی موراکامی ، تحت شعور کی سرنگوں میں آوارگی
تبصرۂ کتاب: شیخ نوید
انتخاب کا مرحلہ نہایت کٹھن تھا، ایک طرف اورحان پاموک کا ناول ’سنو‘ دل کو کھینچ رہاتھا، دوسری طرف مارکیز کا ’اے نیوز آف کڈنے پنگ‘ آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کے لیے تیار پڑا تھا لیکن قرعہ فال ہاروکی موراکامی کے ناول ’کافکا آن دی شور‘ کے نام نکلا، وجہ یہ تھی کہ پاموک اور مارکیز کے فکشن سے شناسائی محبت سے عقیدت اور پھر ارادت کے مراحل تک طے کرچکی ہے لیکن موراکامی کے ذائقے سے اب تک میرا محدود مطالعاتی ذوق محروم رہا تھا، چنانچہ اس تجسس کے ساتھ چھ سوصفحات کا ضخیم ناول اٹھایا کہ میں بھی دیکھوں! آخر فکشن کا وہ کون سا اسلوب، کیسی ہیئت اور کون سی تیکنیک ہے جو ہاروکی موراکامی کو ہرسال نوبیل انعام کی دوڑ میں لاکھڑا کرتی ہیں؟ حالانکہ جتنی زبانوں میں بغیر نوبیل ملے موراکامی کا ترجمہ ہوچکا ہے اتنا تو نوبیل انعام جیتنے والے اکثر ادیبوں کا بھی نہیں ہوا ہے۔
موراکامی نے مایوس نہیں، ناول کے ابواب میں جادو کے منتروں کی تاثیر تھی، ہرباب اگلے باب کی طرف مجھے یوں دھکیلتا رہا جیسے کسی نے ہپناٹائز کردیا ہو، ناول ختم ہوگیا لیکن موراکامی کی بنائی گئی تخیلی دنیا میں خیالات کی آوارگی اب بھی جاری ہے۔
کافکا آن دی شور، میں با ب در باب دو کہانیاں متوازی طور پر آگے بڑھتی ہیں۔
ایک کہانی پندرہ سالہ لڑکے کی ہے جو اپنی پندرہویں سالگرہ پر والد کے گھر سے اپنی والدہ اور بہن کی تلاش میں فرار ہوجاتا ہے،پولیس سے بچنے کے لیے لڑکا اپنا نیا نام ’کافکا تامورا‘رکھ لیتا ہے، پورے ناول میں لڑکے کا اصلی نام نہیں بتایا گیا۔ کافکا کا والد ’کوئچی تامورا‘ ایک مشہور مجسمہ ساز ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہےکہ کافکا کی عمر کے چوتھے سال اس کی والدہ بہن کو لے کر غائب ہوگئی تھی۔ کافکا کے پاس اپنی والدہ اور بہن کی کوئی تصویر، کوئی ایڈریس نہیں ،کوئی شناخت نہیں، صرف دھندلی سی مشکوک یاد داشت کا سہارا ہے۔
دوسری کہانی ایک ساٹھ سالہ بوڑھے کے گرد گھومتی ہے، بوڑھا ’ناکاتا‘ کی شرافت اور سادگی ایسے درجے کی ہےکہ اس کے سامنے اللہ میاں کی گائے بھی شرمندگی سے اپنی دم ہلانا چھوڑ سکتی ہے۔ بوڑھا بلیوں سے بلا تکلف بات چیت کرسکتا ہے چنانچہ محلے میں جس گھرکی پالتو بلی گم ہوجاتی ہے وہ کچھ پیسے اور کھانے پینے کا سامان دے کر بلی کی تلاش کا ذمہ ’ناکاتا‘ کے ذمہ لگا دیتا ہے۔ شریف بوڑھا محلے بھر کی بلیوں سے بات چیت کے ذریعے گمشدہ بلی کا سراغ لگا تا ہے اور اکثر اپنی مہم میں کامیابی سے ہم کنار ہوجاتا ہے۔
کافکا تامورا کے گھر سے بھاگنے کی وجہ اپنے والد کی ایک پیش گوئی تھی، جس کے مطابق وہ اپنی والدہ اور بہن سے ہم بستری اور اپنے والد کوقتل کرے گا۔ سالگرہ کے دن سے شروع ہونے والی کافکا کی اوڈیسی اسے حقیقت اور خواب کی سرحدوں کے پار دھکیل دیتی ہے۔ ایسا موقع بھی آتا ہے جب کافکا جس خاتون کو اپنی ماں سمجھنا چاہتا ہے اسی کے پندرہ سال نوخیز بھوت سے عشق لڑانا اور شبستان کو سجانا شروع کردیتا ہے۔
ایک بلی کی تلاش میں ’ناکاتا‘ کی مڈ بھیڑ بلیوں کی روح سے بانسری بنانے والے ایک عجیب اور پراسرار کردار سے ہوجاتی ہے، حالات سے مجبور ہوکر ’ناکاتا ‘ شیطانی کردارکا خون کردیتا ہے۔ چند نامعلوم گتھیاں سلجھانے کے لیے ’ناکاتا‘ شہر چھوڑدیتا ہے۔ نگرنگر شہر شہر گھومتے ہوئے اسے پتا چلتا ہے کہ اب وہ بلیوں سے بات چیت نہیں کرسکتا لیکن قدرت کی طرف سے اُسے کچھ دوسری خصوصیات مل جاتی ہیں۔ وہ آسمان سے مچھلیوں کی بارش کرواسکتا ہے، طوفان اور آندھی کی پیش گوئی کرسکتاہے، پتھروں سے بات کرسکتا ہے۔ 36 اور 40 گھنٹے گھوڑے بیچ کو سو سکتا ہے۔
بوڑھا ’ناکاتا‘ ہمیشہ سے ایسا غبی نہیں تھا، بچپن میں اسکول کے دوسرے بچوں کے ساتھ اسے ایک پراسرار حادثہ پیش آتا ہے، کئی ہفتے بے ہوش رہنے کے بعد جب اسے ہوش آتا ہے تو اسے اپنا نام بھی یاد نہیں رہتا۔ پراسرار واقعے کو بیان کرنے کے لیے موراکامی نےفکشن کی جس قسم کی تیکنیکوں کوکامیابی استعمال کیا ہے یہ قاری کو تجسس ،مسرت اورحیرت سے بیک وقت دوچار کردیتی ہیں۔
جنسی معاملات کوبیان کرنے میں موراکامی کا قلم جتنا بے باک ہے اتنا ہی لذت آمیز بھی ہے۔ میں نے منٹو، مارکیز اور کنڈیرا کو پڑھا ہے، ہرگل را رنگ و بوئے دیگر است، لیکن جتنے خوب صورت بیانیے کے ساتھ یہ مقامات موراکی کے ناول میں آتے ہیں اس پر قاری آہ اور واہ کی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے۔ مضبوط ایمان اور کمزور صحت والے دوست صرف اوریا مقبول جان کے کالم پڑھنے پر گزارا کریں۔
’کافکا آن دی شور کا مطالعہ تحت شعور کی سرنگوں میں ایسی بے لگام آوارگی ہے، جس کا انجام مزید پراسرار آوارگی کی جانب گامزن کرتا ہے، ناول ایک مکمل ’مسٹری‘ ہے۔ خود موراکامی کے مطابق ناول کی تفہیم اس کی متعدد قرأت میں چھپی ہوئی ہے۔