حسن ابن نجار
جلد شائع ہونے والے ناول از، معراج رعنا سے ایک پارہ
سورج گڑھ کی آبادی تقریبا تین لاکھ افراد پر مشتمل تھی لیکن حسن کو اِس شہر میں تین ایسے افراد کی تلاش ہنوز مشکل تھی جن کی مدد سے وہ “کُسم باڑہ” کے پُر اسرار غلافوں کو ہٹا کر اُس کی حقیقت سمجھ سکے۔ حسن کے سرکاری بنگلے سے تقریبا پندرہ میل کی دوری پر شہر کے مشرق میں کُسم باڑہ واقع تھا۔
کُسم باڑہ در اصل ایک دو بابی سنگلاخی مکان تھا۔ جس کے دونوں ابواب بند تھے۔ اِن ابواب کی قُفل بندی کی قدامت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا تھا کہ اُن پر کائی کی ایک موٹی پرت جمی ہوئی تھی اور پتھروں کے درمیانی جگہوں سے گھنی جھاڑیاں اُگ آئی تھیں۔
چونکہ شہر کا مشرقی علاقہ نیم کوہساری ہونے کی وجہ سے کم آباد تھا، اِس لیے یہاں لوگوں کی آمد و رفت نسبتا دوسرے علاقوں کے بہت کم تھی۔ یہ وہی علاقہ تھا جہاں سے ایک میل کی دوری پر شمالی خطے میں وہ ندی بہتی تھی جس کے دوسری طرف ایک اور شہر آباد تھا۔ سورج گڑھ سے اُس شہر کو ملانے کے لیے جس سرکاری پُل کی تعمیرِ نو ہو رہی تھی اُس کا تکنیکی نگراں حسن ابنِ نجار تھا۔
حسن جب بھی اُس راستے سے گزرتا اُس کی نظر کُسم باڑے پر پڑتی اور وہ ایک نا قابلِ بیان تجسس سے دو چار ہو جاتا۔ یوں تو پرانے قلعوں، محلوں اور کھنڈروں سے اُسے کوئی دل چسپی نہیں تھی کہ اِن مقامات کا تعلق تاریخ سے ہے اور تاریخ سے وہ اُسی طرح ڈرتا ہے جس طرح کوئی سگ گزیدہ پانی سے۔۔۔۔ لیکن کُسم باڑے کی تعمیرِ ظاہری اور اُس کا اسرارِ باطنی دونوں کب اور کیسے اُس کے لاشعور کا حصہ بن گئے اِس بات کا انکشاف حسن کو اُس وقت ہوا جب تین متواتر رات کے خوابوں میں اُسے کُسم باڑہ نظر آیا۔
“کیا خواب سے حقیقت کا سفر ممکن ہے”؟ ہاں۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ اثبات و نفی کے جوابی آہنگ سے وہ گڑبڑا گیا۔ اور اُس کے گڑبڑاتے ہی اُس کے درون میں کہیں دور بہت دور اُسے کُسم باڑے کے آہنی دروازے کے کُھلنے کی آواز محسوس ہوئی۔ مگر اِس احساس سے وہ مسرور ہونے کے بجائے مغموم ہو گیا۔ مغموم ہونے کی وجہ وہ خود تھا یا کُسم باڑہ یا تاریخ؟
اِس بات پر وہ ابھی کچھ غور کرنے ہی والا تھا کہ اچانک اُسے مرشدہ آباد کی وہ پشتینی حویلی یاد آگئی جس کے دروازے کُسم باڑے کی طرح مقفل نہیں بلکہ آج بھی کُھلے ہوئے ہیں۔ لیکن وہ یہ سمجھنے سے آج بھی قاصر ہے کہ اُس کُھلے ہوئے دروازے سے اُسے آنے کی اجازت ہے یا نہیں۔ ایک بار وہ پھر سے گڑبڑا گیا۔ وقت کی تعظیم کا شعور حسن ابنِ نجار کو خاندانی وراثت میں ملا تھا۔ اس لیے وہ اپنے دفتری کاموں سے پہلے اور دفتری کاموں کے بعد جب بھی سورج گڑھ کی صبح و شام کے رو بہ رو ہوتا اُسے رفتارِ گیتی اور گردشِ سیار کے متعلق سوچنے کا خاصا و قت ملتا۔
کبھی کبھی اس تفکیری وقفے میں وہ اتنا منہمک ہو جاتا کہ اُس کی گردشِ پا اور گردشِ زماں کے بیچ کی ہر حدِ تفریق معدوم ہو جاتی۔ لیکن جب وہ اپنی موجودہ حالت میں واپس آتا تو اُسے اپنے آپ سے ڈر محسوس ہوتا جو اُس کے لیے اس لیے بھی ضروری تھا کہ ڈر کے بغیر اُس کے وجود کا اُس کے زمانی وجود سے تا دیر مربوط رہنا بہت مشکل تھا۔ قدیم فلسفے کی ایک جدید تفہیم یہ بھی ہے کہ انسانی وجود روحانی وجود سے اُس وقت تک منسلک ہوتا ہے یا یہ کہیے کہ اُس کی اطاعت قبول کرتا ہے جب تک کہ اُس کے اندر ڈر کی صورتِ حال موجود ہوتی ہے۔ اخلاقیات کا نظام بھی اِسی ڈر کی وجہ سے قائم و دائم ہے۔
حسن کو اس نئے شہر میں وارد ہوئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ رخشِ وقت پر سوار دھندلکوں اور سایوں کی ایک نادری فوج اپنی ٹاپوں سے اُس کے ماضی و حال کے سر سبز علاقوں کو روندتی ہوئی گزر گئی تھی۔
سورج گڑھ کے زمیندار کی بھانجی روپ وتی سنگھ راٹھور کاحُسن ایسا تھا کہ حسن جب بھی اُسے دیکھتا تو سوچتا کہ دُنیا کی تمام خوب صورتی اس لڑکی میں یکجا کر دی گئی ہے۔ دراز قد، بڑی بڑی آنکھیں جو بولتی کم اور مسکراتی زیادہ تھیں۔ مخروطی گردن، لعلِ بدخشاں جیسے سرخ ہونٹ، رنگ اتنا سفید جیسے ابھی ابھی غسل کر کے صبحِ اولیں طلوع ہوئی ہو۔ اُس کا حُسن محض حُسن نہیں بلکہ حُسنِ شگفتہ تھا جس کا اپنا الگ رنگ، الگ خوشبو اور الگ کشش تھی۔ اور جب وہ اپنے مخصوص احمریں رنگ کے تنگ راجپوتانا لباس میں ملبوس بالوں کا جوڑا بنائے حسن کے روبہ رو ہوتی توحسن کو تھوڑی دیر کے لیے ایسا لگتا جیسے کسی قدیم یونانی مجسمے میں خدا نے روح ڈال دی ہے۔
وہ جتنی حسین تھی اتنی ہی ذہین بھی۔اُس کے مزاج میں تھوڑی سی شوخی ایسی لگتی جیسے ایمان میں چٹکی بھر کفر ملا دیا گیا ہو۔ اُسے سب پیار سے روپم کہتے تھے۔ لیکن حسن ابھی تکلف کی حد عبور کرکے بے تکلفی کی اُس منزل میں داخل نہیں ہوا تھا کہ وہ بھی اُسے دوسرے لوگوں کی طرح روپم کہ کر مخاطب کر سکے۔
روپم سورج گڑھ کے مشہور راجا مان سنگھ کالج سے انگریزی ادب میں ایم۔اے کر رہی تھی۔ وہ اکثر کالج سے لوٹتے وقت حسن کے سرکاری دفتر آجاتی جو اُس کے کالج اور اُس کے گھر کے راستے میں واقع تھا۔ ایک دن اُس نے حسن سے بڑی معصومیت سے کہا
“اتنی بات تو میں جانتی ہوں کہ آپ انجینئر ہیں اور بنگال کے رہنے والے ہیں۔”
“لیکن یہ بات آپ نے ابھی تک نہیں بتائی کہ آپ بنگال کے کس شہر یا ضلع کے رہنے والے ہیں۔”
مرشدہ آباد، حسن نے مسکراتے ہو ئے کہا۔
اچھا تو آج پتا چلا کہ آپ نواب زادے بھی ہیں۔
نواب زادے! کیا مطلب حسن نے تھوڑی حیرت سے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
میں نے پڑھا ہے کہ وہ نگر ی نوابوں کی نگری ہے۔
کہاں؟ حسن کے سوال پر وہ پھر گویا ہوئی
تارٰیخ کی کتابوں میں۔
تاریخ کا نام سُن کر حسن کو ایسا لگا جیسے اُس کے مدفون ماضی کو قبرِ بے نشان سے نکال دیا گیا ہو۔
کہاں کھو گئے آپ؟
تاریخ
تاریخ میں؟ وہ پھر بولی۔
نہیں۔ مجھے تاریخ سے کوئی دل چسپی نہیں۔ کیوں؟ اُس نے پھر سوال کیا۔
مجھے سائے اور دھندلکے سے ڈر لگتا ہے۔
آپ اتنے بڑے ہو کر بھی اسکول کے بچوں کی طرح سایوں اور دھندلکوں سے ڈرتے ہیں۔
اتنا کہہ کر وہ کِھل کھلا کر ہنسنے لگی اور حسن کو اپنے اندر سے کسی کے رونے کی آواز سُنائی دینے لگی۔