مجھ ہزارہ کے لیے تمہاری ہمدردی بہت مہنگی ہے پیارے
از، علی ارقم
کوئٹہ میں دھماکہ ہوا، سولہ لوگ شہید ہوئے، جس میں آٹھ کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے، ایک ایف سی کا نوجوان ہے، باقی سات منڈی کے دکان دار ہیں۔
یہ مقتولین جن کا پاکستان کے سب سے بڑے اخبار ڈان نے بدرجہ موت تین الگ طرح سے بیان کیا ہے، مارے جانے والے ہزارہ، شہید ہونے والا سپاہی، اور زندگی ہارنے والے سات دکان دار، جن کی قومیت، نسل، مسلک نا معلوم ہے (یا شاید وہ خبر نہیں، ان کے لئے کوئی کی ورڈ دستیاب نہیں، رائج نہیں، یا اس کی نیوز ویلیو نہیں ہے)۔
چند اعلیٰ دماغوں کی نظر میں گو یہ سب ایک ایک بڑے، عظیم مقصد کے حصول کے لئے لڑی جانے والی مقدس جنگ کا کولیٹرل ڈیمج ہیں، جن کی موت کا افسوس کیا جا سکتا ہے، کسی حد تک بچانے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے، لیکن اسے کلیتاً روکا نہیں جا سکتا، اس لئے جو اصل ہدف تھے یعنی کوئٹہ کے ہزارہ، ان کے گرد زیادہ اونچی دیواریں کھڑی ہوں، ان کو مزید محبوس کیا جائے، کوئٹہ کی سوشل لائف میں ان کے فوٹ پرنٹس مزید محدود کیے جائیں تاکہ کچھ بگڑے ہوئے جہادی ہائیڈ، سیک، اینڈ کل کے اس کھیل میں اتنی آسانی سے بازی نہ لے جا سکیں۔
کچھ کی نظر میں یہ خطے میں انوالو بڑی طاقتوں کی سرپرستی و پشت پناہی سے چلنے والی جہادی انڈسٹری جس کی سپلائی چین میں تھوڑی ساجھے داری یا یوں کہیں کہ مارکیٹنگ اور ہیومن ریسورس مینجمنٹ کی چھوٹی سی فرنچائز پاکستان کے پاس بھی ہے، اس کے تحت ہونے والے فرینڈلی فائر یا کراس فائر کی زد میں آنے والے مقتولیں ہیں۔
بقول ماہم ماہر، ’’ہمارے ہاں آج کل سب کے پسندیدہ لفظ ’بیانیہ یعنی نیریٹیو‘‘ کی ان سب سمرسالٹس کے بیچ ایک ننگی سچائی سبزی منڈی کے فرش پر بکھری ہوئی یا نشانہ بننے والی پک اپ میں پڑی لاشیں ہیں۔
ان لاشوں کے سرہانے کھڑے ہوکر بیان کیے جانے والے سارے نیریٹیوز اور اسے بیچنے والے سب فنکار بکواس کرتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد لکھا جانے والا سارا صحافتی مواد بکواس ہے، کیونکہ وہ اسے ان سب نیریٹیوز کے لگے بندھے خانوں میں ڈال کر فارغ ہوجائے گا، شیعہ جینوسائیڈ، ہزارہ نسل کشی، ریاستی دہشت گردی، حکومتی نااہلی، یہ سب نعرے مرنے والے کو بے شناخت کردیں گے، اس کی موت کو دہشت کے اس کھیل کا ایک ناگزیر سا حصہ قرار دیں گے، اٹز ان ایوی ٹیبل یو نو۔
حملہ کس نے کیا؟ ہدف کون تھا؟ کسی گُم نام نمبر سے، کسی جعلی شناخت کے حامل شخص نے کہا کہ حملہ ہم نے کیا ہے، اور ہم نے مان لیا، اس نے کہا، ’ہمارا ہدف ہزارہ کمیونٹی کے لوگ تھے’ ، اور ہم یہ سوال نہیں کر سکتے کہ باقی سات پھر کیوں مارے گئے، وہ تو شاید تمہارے ہم مسلک نکل آئیں، شاید وہ بھی جواب میں یہی کہتے، کولیٹرل ڈیمج، اٹز ان ایوی ٹیبل یو نو۔
وہ جیتے جاگتے انسان، کسی کی آنکھ کے تارے، کسی کے محبوب، کسی کی چھتر چھاؤں سب سے پہلے اپنی ذاتی شناخت سے محروم ہوئے، ان کے رونے والے اپنے ذاتی المیے کا ماتم کہاں کریں۔
فرش پر پڑے اس مقتول کی موت جن کے لیے ایک شدید ذاتی نوعیت کا سانحہ ہو، وہ جو گھر کے ایک فرد، معاشی کفیل، سربراہ خاندان، بچوں کے سائے سے محروم ہوئے، ایک محبوس و مقید، آباء و اجداد (والدین) سے جینیٹکلی منتقل ہونے والی شکل و شباہت رکھنے اور موروثی طور پر حصے میں آنے والے عقیدے کے باعث قابل گردن زنی قرار پانے والی اقلیت سے تعلق کا اجتماعی المیہ ان کا مقدر بنا، اپنی بے چارگی اور مظلومیت کا احساس لے کر کیا اس جملے کی گردان سے مطمئن ہو جائیں، اٹز ان ایوی ٹیبل یو نو۔
ڈر ہے کہ ماتم، احتجاج، غصّے اور اشتعال کی فضا تھم جانے کے بعد آنے والے طوفانوں میں وہ اکیلے کھڑے ہوں شاید۔
پس نوشت: ڈان اخبار نے صحافی دوستوں کے فیڈ بیک کی بنیاد پر اپنی رپورٹ درست کر کے مقتولین کی موت کی درجہ بندی ختم کر دی ہے۔ ان کا اقدام قابلِ تحسین ہے۔