ہائر ایجوکیشن اور موٹی ویشنل سپیکر
از، یاسر چٹھہ
ویسے موٹی ویشنل سپیکر کی نسبت ہائر ایجوکیشن کے حصول کے لیے فیصلہ کُن اور زور دار انداز کا پالیسی رسپانس آنے کی اشد ضرورت ہے۔
ہائر ایجوکیشن میں صرف فلٹر شدہ افراد کو جانا چاہیے، تا کہ عوامی پیسے کا درست استعمال ہو سکے، اور per capita waste of time بچایا جا سکے۔
فنی اور تکنیکی تعلیم پیشہ ورانہ سرٹیفکیشنز کو سولہ برس کی عمر تک کی بنیادی اور پاکستانی آئین کی شق 25 اے تعلیم کے بعد کے عرصے میں incentivise کرنے کی اشد ضرورت ہے، اور اس طریقے سے پَروَردہ افراد کی ملازمت کے بعد آن جاب ٹریننگ کا مربوط اور متعلقہ شعبے میں پیش رفت و ترقی سے ہم آہنگ تربیتی سلسلہ بنانے کی ضرورت ہے۔
ہائر ایجوکیشن تک رسائی پر سبسڈی صرف inventiveness، شخصی فعّالیت اور تنقیدی بصیرت کے کیفیتی پیمانوں، qualitative parameters کے strainer سے گزارے بہ غیر نہیں دینا چاہیے۔
ہم اعلیٰ تعلیم کو مذاق بنائے ہوئے ہیں۔
بہت سارے عوامی پیسے کا چارا گدھے munch رہے ہیں۔ یونی ورسٹی اور کالج کو تھیئوریٹکل علم کی پیش رفت اور ٹیکنالوجی کی ترویج کرنے پر مامور ہونا چاہیے، مگر وہ
…because I have nothing other to do, so I go to college/university.
والی بات چل رہی ہے۔
یونی ورسٹی اور کالج اپنے انسانی وسائل کے لحاظ سے بھی اکثریتی طور پر اسی rat race اور لا یعنی وقت گزاری کی مصنوعات اور نتیجوں سے بھرے پُرے ہیں، کناروں سے بہہ رہے ہیں۔
ایک جاننے والے جو ڈاکٹریٹ ہو گئے ہیں، انھوں نے چند برس پہلے بتایا کہ انھیں قاسم شاہ بڑے اچھے لگتے ہیں۔
اس وقت ان کی بات سن کر دل ہی دل میں وہ ہنسی ہنسا تھا جس کی سفاکیت خود مجھ پر ہی صحیح انداز سے کُھلتی تھی؛ سمجھا تھا کہ وہ میٹرک کے بعد کسی مسجد کمیٹی کے ساتھ بہ طورِ الیکٹریشن منسلک ہو جاتے تو معاشرے اور معیشت کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوتے۔ لیکن وہی جاننے والے اب ایک جنرل یونی ورسٹی میں تھیسس کراتے ہیں۔