اپنشد ہند آریائی دانش کا اعلیٰ ترین نمونہ
از، محمد ابوبکر
اپنشد ہند آریائی دانش کا اعلیٰ ترین نمونہ اور برصغیر کی روحِ تمدن کا لافانی کلام ہیں۔ مشرق اور بالخصوص ہندوستان کا تہذیبی مزاج مغرب سے کسی قدر مختلف رہا ہے۔ چنانچہ اس کلام میں مذہب اور فلسفہ ، تعقل اور عرفان ، علم اور سریان ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ تاہم یہ سارے اجزا ایک بڑی کلیت میں نہایت صفائی سے جوڑے بھی گئے ہیں۔
ہندی فکر میں یہ کلیت اتنی جامع ہے کہ تقریباً تمام قسم کے نظریات کو اپنے اندر سما لیتی ہے۔ تاہم اسی کلیت کے اندر ہی ایک طاقتور تصور انسان (جز) بھی موجود ہے۔ اپنشد جس حقیقت کا بیان ہے اس حقیقت تک رسائی ہر شخص کے لیے برابر ممکن ہے۔ اپنشد حقیقت اعلی کو ایک روح برتر کی صورت میں مانتی ہے جو لافانی، ہر جگہ موجود لیکن کہیں بھی نہیں، ہر شے میں جاری لیکن سب سے جدا ہے۔ وہ اس قدر ورا ہے کہ ابتدا میں خدا بھی اسے پہچاننے سے عاجز رہے۔
تاہم اس کا علم ہمیں اپنی سادگی ، ضبط نفس اور گیان سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد انسان اس اہل ہوجاتا ہے کہ وہ ذرے ذرے میں اسے جاگزیں دیکھے اور جب انسان اس منزل پر پہنچتا ہے تو اس کا علم اسے رنج و مسرت ، موت و حیات سے بلند کر دیتا ہے۔ وہ روح برتر کا حصہ بن جاتا ہے۔ علم کا یہ سفر حسیات سے شروع ہوتا ہے لیکن بلند ہوتے ہوئے تعقل میں داخل ہوجاتا ہے۔ حسیات کا اظہار جسم ہے جس میں روح موجود ہے۔ جسم کی مثال گھوڑے جیسی ہے جو خواہشوں کے پیچھے سرپٹ دوڑ رہا ہے۔
عقل اس گھوڑے کی لگام ہے اور عمل کا دارومدار ہم پر ہے۔ اس واحد اور اعلیٰ کی معرفت سب سے اہم ہے اور جسے یہ نصیب ہو گئی وہ حیات ابدی کا حصہ بن گیا۔ سچائی اور لذت کے راستے جدا جدا ہیں۔ جس نے سچ کا راستہ چنا اسے لذات سے ہاتھ چھوڑنا پڑا اور جو لذتوں میں پھنس گیا وہ گیان سے محروم ہوا۔ بار بار زندہ کیا جائے گا اور اور نامراد ہو کر موت کا بار اٹھاتا رہے گا۔ عظیم ہے وہ شخص جو اس مہم پر روانہ ہوا جس سے واپس نہ آیا۔
ایک حیران کن پہلو ہے کہ مغربی تعلقی فلسفے کی اڑھائی ہزار سالہ روایت کی تقریباً تمام بنیادیں اور اہم تشریحات اپنشد کے چند ابواب کی حدود کے اندر واقع ہیں۔ اپنشد کی تصنیف کا زمانہ پانچ ہزار سال قبل مسیح تک جاتا ہے۔ تاہم حقیقت کے واحد اور تعقلی ہونے، مظہر اور حقیقت کی دوئی لیکن موجود میں یکجائی، امکان علم کا اثبات اور اس میں حسیات و عقل کا بتدریج کردار، حقیقت اعلیٰ اور خیراعلیٰ کی وحدت ( حقیقت خیر ہے اور اس کا علم ممکن ہے اور یہ علم خیر کی جانب لے جانے کا راستہ ہے۔یہ نہایت اہم تصور افلاطون کے ہاں بھی بنیادی ہے۔ ) ، حیات بعد الموت کا تعقلی اثبات اور روح کی لافانیت پر یقین جیسے بنیادی تصورات جس انداز میں اپنشد میں بتائے گئے تقریباً اسی صورت میں یونان میں نمودار ہوئے اور جدید دور تک یورپ میں فکری طور پر رائج رہے۔
اپنشد میں روح اعلیٰ آگ، ہوا اور روشنی کے مادی عناصر سے بلند ہے۔ یہ عناصر مختلف تعداد اور صورتوں میں مانے جاتے رہے ہیں تاہم فکر قدیم میں مادے کے بنیادی عنصر سمجھے جاتے تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ روح اعلیٰ عقل و حکمت کی دیوی سے بھی بلند ہے۔ یہ دیوی تعقل اور تجرید کا اصول ہے۔ روح اعلیٰ ان سب سے برتر ہے تاہم یہ دونوں پہلو اسی کے اظہار ہیں اور خود اس کی ذات میں یکجا ہیں۔ حقیقت و مظہر میں یکجائی کا یہ اصول اسپائینوزا سے ہیگل تک میں نظر آتا ہے۔
اپنشد کا ایک اور دلچسپ پہلو ایک عمومی قنوطی رویہ ہے۔ ہر چند اپنشد کے نزدیک موت اور فنا، رنج و الم ناقابل تسخیر مسائل نہیں ہیں اور ان سے بلند ہوا جا سکتا ہے۔ تاہم اپنشد میں بلندی کی طرف جانے کا یہ راستہ لذت اور زندگی کے لیے سرپٹ دوڑنے سے باز آنے پر ہی نظر آتا ہے۔ حقیقت اور مسرت میں ابتدائی سطح پر ہی تفریق کر دی گئی ہے۔ حقیقت کی طرف جانے کا راستہ بڑا دشوار ہے اور اگر یہ راستہ نہ مل سکے تو آدمی بار بار زندگی موت کے چکر میں پھنس جاتا ہے۔
جدید یورپی فکر میں قنوطیت کا امام آرتھر شوپنہار اپنشد سے شدید متاثر تھا اور اس کا فلسفہ بڑی حد تک اپنشد سے ہی اخذ کردہ ہے۔ شوپنہار کی قنوطیت پر بھی اپنشد کے اثرات پہلی نظر میں ہی نمایاں محسوس ہوتے ہیں۔ آواگون (اعمال کی وجہ سے بار بار مختلف روپ میں پیدا ہونا) اور انسانِ اعلیٰ جو اپنی سعی سے اس چکر سے بلند ہوجاتا ہے کے اپنشد نظریات اہم مماثلت کے ساتھ نطشے کے ہاں بھی موجود ہیں۔
اپنشد کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے ایک عجیب سی سرشاری محسوس ہوتی ہے۔ فی الوقت اس تاثر کو شرح و بسط سے نقل کرنے کی ہمت نہیں پاتا ۔ تاہم دل کی ایک بات کا بیان کچھ یوں ہے۔
میں عدمیت پسند ہوں اور صرف فنا پر یقین رکھتا ہوں۔ میں اپنی وجودی سطح پر انفرادی اشیا کو قائم و دائم سمجھ سکنے کا اہل ہی نہیں ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ ایک وقت تھا جب میں نہ تھا اور وہ وقت جلد آنے والا ہے جب میں دوبارہ سے نہ ہوں گا۔ میں جن اجزا سے اٹھایا گیا ہوں شاید وہ کسی اور صورت میں دوبارہ سر اٹھائیں۔ مجھ میں جو دمِ حیات ہے اس پر میرا کوئی ملکیتی دعویٰ نہیں ہے۔ میں نہ ہوں گا لیکن یہ دم اور صورتوں میں جلوہ گر ہوتا رہے گا۔ مٹتا جائے گا اور پھر سے مٹنے کو دوبارہ بنتا رہے گا۔ اپنشد اسی احساس کا گونا گوں اظہار اور اس اظہار کےان گنت و بے مثال تاثرات سے لبریز ہے۔
اس کتاب کی شان یہ ہے کہ یہ میرے اور ان گنت صدیوں سے میرے اجداد کے مشترکہ گھر اتری ہے۔ میں اس بات پر ہرگز شرمندہ نہیں ہوں کہ میری مٹی جس زمین سے اٹھائی گئی اسی کو گوندھ کر اس کتاب کی ابتدائی تختیاں پکائی گئی ہوں گی۔ میں اپنے تہذیبی نسب نامے پر غور کرتا ہوں تو یہ پیچھے جاتے جاتے پانج ہزار سال کی دوری پر اپنشد کے کسی باب میں داخل ہوجاتا ہے۔