ہندی سینما اور طوائف : 1960 کی دہائی سے 80 کی دہائی تک

ہندی سینما اور طوائف : 1960 کی دہائی سے 80
 ہندی سینما اور طوائف : 1960 کی دہائی سے 80 کی دہائی تک

از، ذوالفقار علی زلفی

ممتا

1966 کی بلاک بسٹر فلم “ممتا” بنگالی ناول “اتر پھالگنی” سے ماخوذ ہے جسے بنگالی ہدایت کار اسیت سین نے فلم کے قالب میں ڈھالا ہے. فلم کے مرکزی کرداروں میں سچترا سین، اشوک کمار اور دھرمیندر نمایاں ہیں. فلم میں سچترا سین نے ڈبل رول یعنی ماں اور بیٹی کے کرداروں میں فلم کو امر بنا دیا ہے.

یہ ایک غریب عورت کی کہانی ہے جس کا باپ مالی پریشانیوں کی وجہ سے اس کی شادی ایک بدقماش آدمی سے کرا دیتا ہے. عورت اپنی بیٹی کو سماجی غلاظت سے دور رکھنے کے لیے خود کو بازار میں بکنے کے لیے پیش کر دیتی ہے. سماج اور طوائف ماں کی ممتا سے نمو پاتی یہ کہانی ہدایت کاری، موسیقی اور اداکاری کے باعث پُراثر فلم بن جاتی ہے.

چیتنا

1970 کی فلم “چیتنا” ایک منہ پھٹ طوائف (ریحانہ سلطان) کی داستان ہے جسے بظاہر تہذیب و تمدن سے کوئی سروکار نہیں. اس فلم کی بابو رام اشارہ نے ہدایت دی ہے. شتروگھن سنہا کے توسط سے اس کی ملاقات نوجوان انیل دھوَن (معروف ہدایت کار ڈیوڈ دھون کے چھوٹے بھائی) سے ہوجاتی ہے. انیل دھون لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوکر اس سے شادی کا خواہش مند ہوجاتا ہے. مرد کی محبت سے مغلوب ہو کر عورت بھی مستقبل کے سہانے سپنے بنُنے لگتی ہے مگر شیشے کے یہ سپنے حقیقت کے پتھروں سے اس وقت چکنا چور ہو جاتے ہیں جب عورت پر کھلتا ہے کہ وہ حاملہ ہے اور بچہ اس کے محبوب انیل کی بجائے کسی اور کا ہے. اپنے محبوب کو سماج میں سر جھکا کر جینے سے بچانے کے لیے عورت خودکشی کر لیتی ہے.

ماننا پڑے گا ریحانہ سلطان نے اس کردار کو نبھانے میں جان لڑا دی ہے. فلم کے بعض مناظر کافی بولڈ ہیں جو شاید ہمارے سماج میں فیملی کے ساتھ دیکھنے کے قابل نہ ہوں.

دستک

“ہم ہیں متاعِ کوچہ بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح”

مجروح سلطان پوری کے بول اور لتا منگیشکر کی آواز سے سجی سنوری “دستک” 1970 کی وہ دوسری فلم ہے جس میں ریحانہ سلطان نے اپنی اداکاری کا لوہا منوایا ہے.

“دستک” اردو زبان کے معروف افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کی لکھی ہوئی کہانی ہے جسے انہوں نے خود بڑی فنکاری و پرکاری سے ہدایت دی ہے.

فلم ایک مسلمان نوبیاہتا جوڑے (ریحانہ سلطان اور سنجیو کمار) کے گرد گھومتی ہے جو بازارِ حسن میں کرائے کا گھر لیتے ہیں , اتفاق سے وہ گھر بھی ایک طوائف کا کوٹھا ہوتا ہے. بازار کے خریدار بیاہتا عورت کو بھی ایک طوائف سمجھ کر اسے اشارے کرتے ہیں اور اس کے گھر میں تانک جھانک کرتے ہیں. اس صورت حال کے باعث میاں بیوی جس اذیت سے گزرتے ہیں وہ فلم کی جان ہے. بیدی نے طوائفوں کی زندگی کی بڑی زبردست عکاسی کی ہے. سنجیو کمار اور ریحانہ سلطان کی کیمسٹری بھی خوب ہے.

پاکیزہ

1972 کی فلم “پاکیزہ” 1939 کی “آدمی” کے بعد ایک دوسرا انقلابی قدم ہے. یہ فلم نہیں بلکہ مصوری کا شاہکار ہے، حسن کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے. کہانی، مکالمے، موسیقی، گیت، مجرے، اداکاری اور ہدایت کاری سمیت فلم ہر شعبے میں بے داغ ہے.

نوابی عہد کی منافقت اور عورت کو طوائف بننے پر مجبور کرنے والی نام نہاد اعلیٰ اقدار کی قلعی کھولتی اس فلم میں مینا کماری نے اپنی ساری زندگی کی فن کاری انڈیل دی ہے. “پاکیزہ” نہ صرف طوائفوں پر بننے والی سب سے بہترین فلم ہے بلکہ میرے نزدیک اسے ہندی سینما کی دس ناقابلِ فراموش فلموں میں بھی شمار کیا جانا چاہیے.

امر پریم

بانجھ پن کی وجہ سے گھر سے نکالی گئی عورت (شرمیلا ٹیگور) ایک عیار شخص (مدن پوری) کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر کلکتہ کے کوٹھے کی زینت بن جاتی ہے. کوٹھے کے قریب رہنے والا بچہ طوائف میں مادرانہ جذبات جگا کر عورت کو ماں کے منصب پر فائز کر دیتا ہے. ماں بیٹے کی یہ بے غرض محبت “امر پریم” بن جاتی ہے.

طوائف کے کردار کو شرمیلا ٹیگور نے بڑی خوداعتمادی سے پیش کیا ہے. دیگر کرداروں میں راجیش کھنہ، مدن پوری، اوم پرکاش اور ونود مہرہ قابلِ ذکر ہیں. لیجنڈ ہدایت کار شکتی سامنت کی یہ فلم 1972 میں ریلیز کی گئی. فلم کے بعض گیت بالخصوص کشور کمار کی گلوکاری ایک عجیب سا سماں باندھ دیتے ہیں.

پربھات

1973 کی فلم “پربھات” کو سکندر کھنہ نے ہدایت دی ہے. اس فلم میں ایک بدقماش نوجوان (روپیش کمار) بھولی بھالی معصوم لڑکی (جیا کوسلیا) کو شادی کا جھانسہ دے کر بازارِ حسن میں بیچ دیتا ہے. لڑکی اس دلدل سے نکلنے کی جدوجہد کرتی ہے اور اپنے نام نہاد شوہر کے دوبارہ آنے کی امید میں دنیا سے لڑتی ہے.

اس فلم میں یوں تو ہر کردار نے اپنے کام سے انصاف کیا ہے لیکن روپیش کمار نے دلال کے کردار میں ڈوب کر اداکاری کی ہے بالخصوص ان کے پُرلطف مکالمے اور ڈائیلاگ ڈلیوری اس فلم کی جان ہیں.

آئینہ

1977 کی فلم “آئینہ” کہانی ہے برہمن گھرانے کی ایک ایسی عورت ( ممتاز) کی جو اپنے گھر پر چھائے غربت کے بادل دور کرنے اور چھوٹے بھائی بہنوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے جسم فروشی کا پیشہ اپنانے پر مجبور ہوجاتی ہے. گھر کے بگڑتے حالات جب سنور جاتے ہیں تو ایک دن گھرانے پر کھلتا ہے کہ بڑی بیٹی طوائف ہے. گھر کے مرد، طوائف بنتی عورت کو دھکے دے دے کر گھر سے نکال دیتے ہیں.

مایہ ناز تامل ہدایت کار کے.بالاچندر کی تخلیق کو ممتاز نے اپنی فطری اداکاری سے چار چاند لگادیے ہیں.

قبل ازیں 1970 کی فلم “کھلونا” میں بھی ممتاز ایک ایسی طوائف کا کردار نبھا چکی ہیں جو ایک معزز گھرانے کے پاگل نوجوان (سنجیو کمار) کو اپنی توجہ اور محبت سے دوبارہ نارمل زندگی کی جانب لے آتی ہے. “کھلونا” کی کہانی چونکہ تکرار ہے اور اس میں ممتاز کی اداکاری بھی نسبتاً کمزور ہے اس لیے اس کو اس فہرست میں شامل کرنے سے جان بوجھ کر احتراز کیا گیا ہے.

منڈی

شبانہ اعظمی، سمیتا پاٹل، نصیر الدین شاہ، اوم پوری، سعید جعفری، کلبھوشن کھربندا اور دیگر باصلاحیت فن کاروں کی محفل کا نام ہے “منڈی”. ہدایت کار شیام بینگل اس محفل کے روحِ رواں ہیں جنہوں نے اردو زبان کے معروف افسانہ نگار غلام عباس کے افسانے “آنندی” کو دلفریب انداز میں 1983 کو “منڈی” کے نام سے سینما پر پیش کیا ہے.

شہر کے “شرفا” کوٹھے کو شیطان کا مرکز مان کر اسے ویرانے میں منتقل ہونے پر مجبور کرتے ہیں. طوائف اس ویرانے میں مٹی کے ایک ڈھیر کو بابا کھڑک شاہ کی درگاہ میں بدل دیتے ہیں. کوٹھے اور درگاہ کے ملاپ سے ویرانے میں بہار آ جاتی ہے اور چند سالوں بعد شہر کے “شرفا” پھر آپس میں بیٹھ کر اس بحث میں الجھ جاتے ہیں کہ ایک مقدس درگاہ کے قریب کوٹھے کا وجود زائرین کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کا باعث ہے. فلم میں بڑی صفائی سے سرمائے کو طوائف اور مذہبی جذبات کا استحصال کرتے دکھایا گیا ہے.

“شرفا کمیٹی” کے چیئرمین کے جائز بیٹے اور ناجائز و طوائف بیٹی کے درمیان عشق و محبت گویا دوغلے مردانہ سماج کے منہ پر طمانچہ ہے.

پہلا حصہ: ہندی سینما اور طوائف (1)
تیسرا حصہ: ہندی سینما اور طوائف (3)


بشکریہ: حال حوال ڈاٹ کام