ہندی سینما اور طوائف : 1990 کی دہائی سے تا حال
(ذوالفقار علی زلفی)
آستھا:
ہدایت کار باسو بھٹاچاریہ کو شہری مڈل کلاس جوڑوں کی پُرتضاد زندگی کو سینما کے پردے پر کمال مہارت کے ساتھ دکھانے میں ملکہ حاصل ہے. 1997 کی فلم “آستھا” بھی ایک شہری مڈل کلاس گھرانے کی داستان ہے.
مڈل کلاس پروفیسر امر (اوم پوری) کی بیوی مانسی (ریکھا) پُرتعیش چیزوں کے حصول کا خواب دیکھتے دیکھتے جسم فروش بن جاتی ہے. مانسی کی جسم فروشی، پروفیسر امر کی روشن فکری اور طبقاتی سماج کی تکون کو بڑی باریکی اور فن کاری سے فلم کے قالب میں ڈھالا گیا ہے. باسو بھٹاچاریہ نے اپنی دیگر تخلیقات کی طرح اس فلم میں بھی علامتوں کا بھرپور اور ماہرانہ استعمال کیا ہے. ریکھا نے متعدد فلموں میں طوائف کے خوب صورت کردار نبھائے ہیں مگر اس فلم میں ان کا فن نقطہِ عروج پر دیکھنے کو ملتا ہے. اسی طرح پروفیسر کے کردار سے اوم پوری نے بھی مکمل انصاف کیا ہے.
چاندنی بار:
ہدایت کار مدھر بنڈارکر کی فلم “چاندنی بار” اداکارہ تبو کی چند بہترین فلموں میں سے ایک ہے. بار ڈانسر، گینگسٹر کی بیوی پھر دو بچوں کی ماں کے کرداروں کو تبو نے متاثر کن انداز میں پیش کیا ہے. یہ فلم 2001 کو سینما کے پردے پر پیش کی گئی.
فسادات میں یتیم ہونے والی بھانجی کو ماما شہر لاکر بار ڈانسر کا پیشہ اپنانے پر نہ صرف مجبور کرتا ہے بلکہ ماموں بھانجی کے رشتے کو پامال کر کے اسے اپنی ہوس کا بھی نشانہ بناتا ہے. حالات بار ڈانسر کو گینگسٹر کی بیوی پھر بیوہ اور دو بچوں کی ماں بنا کر بے رحم سماجی حالات اور کرپٹ سسٹم کے سامنے پھینک دیتے ہیں. طوائف ماں اپنے بچوں کو بہترین زندگی دینا چاہتی ہے مگر……سماج اور فرسودہ نظامِ سیاست اسے دوبارہ وہاں پہنچا دیتے ہیں جہاں سے اس نے یہ اذیت ناک سفر شروع کیا تھا.
چمیلی:
کرینہ کپور کی فنی زندگی کا جب بھی تجزیہ کیا جائے گا مستقبل کا مؤرخ یقیناً فلم “چمیلی” کو کرینہ کپور کی سب سے بہترین پرفارمنس قرار دے گا. 2004 کی اس فلم کے ہدایت کار بنیادی طور پر آننت بالانی ہیں مگر شومئیِ قسمت وہ فلم کی تکمیل سے قبل ہی وفات پاگئے. آننت بالانی کی اچانک وفات کے بعد سدھیر مشرا نے باقی ماندہ فلم کو پایہ تکمیل تک پہنچایا.
طوائف چمیلی (کرینہ کپور) اور ممبئی کے اپر مڈل کلاس نوجوان (راھول بوس) برسات کی ایک رات حادثاتی طور پر سڑک کنارے ایک جگہ مل جاتے ہیں. اس رات طوائف کے ساتھ گوں ناگوں حالات و واقعات پیش آتے ہیں جو مڈل کلاس شخص کے لیے حیرت انگیز جب کہ طوائف کی زندگی میں معمول کا درجہ رکھتے ہیں. حالات و واقعات اور ان پر کرینہ کپور کے تبصروں و مکالموں سے زندگی سے مایوس شخص دنیا کو ایک اور ڈھنگ سے دیکھنے لگتا ہے، طوائف کی نظر سے چیزوں کا تجزیہ کرتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کی بے رنگ زندگی بدل سی جاتی ہے.
کرینہ کپور نے طوائف کے کردار میں خود کو اس طرح ڈھالا ہے کہ دوئی کا کوئی احساس ہی باقی نہیں رہتا. فلم کی زبردست سینماٹوگرافی سمجھ لیں سونے پہ سہاگہ ہے.
**********
ان فلموں کے علاوہ بھی طوائفوں پر مبنی یا طوائفوں کے کردار کے حامل بعض اچھی فلمیں موجود ہیں مگر چوں کہ ان فلموں میں طوائفوں کا وہ مضبوط کردار ابھر کر سامنے نہیں آتا جو درج بالا فلموں کا خاصا ہے اس لیے ان کو اس فہرست میں جگہ نہیں دی گئی. ان فلموں میں “دیوداس” (تینوں ورژن)، “عدالت” ، “مرزا غالب” ، “محبوب کی مہندی” ، “شرافت”، “امراؤ جانِ ادا” ، “مقدر کا سکندر” ، “جیت” اور “تلاش” قابلِ ذکر ہیں.
بعض فلمیں ایسی ہیں جن میں طوائف اور سماج کے رشتے کو بھونڈے طریقے سے بس کام چلاؤ انداز میں پیش کیا گیا ہے، جب کہ کچھ میں اداکاری نہایت ہی کمزور ہے یا طوائف کی کہانی میں تکرار ہے یا اس میں کوئی دم نہیں. ان فلموں میں “مہندی” ، “نرتکی” ، “بے نظیر” ، “ہنستے زخم” ، “منورنجن” ، “سہاگ” ، “کالی شلوار” ، “سلام بمبے” ، “امراؤ جان ادا” (ابھیشک بچن و ایشوریہ رائے) اور “بیگم جان” وغیرہ شامل ہیں.
ہندی سینما میں متعدد دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ طوائف کو ایک بینک چیک سمجھ کر اسے گلیمر کی دنیا میں کیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے. ایسی ہر کوشش میں سماج میں طوائف کے مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ بیان کرنے کی بجائے اسے سینما کے پردے پر بیچا گیا ہے. ایسا زیادہ تر 80 کی دہائی اور اس کے بعد کی دہائیوں میں ہوا ہے. ان فلموں کی فہرست کافی لمبی ہے جن میں “پتی، پتنی اور طوائف” ، “دلال” ، “ہیٹ اسٹوری” وغیرہ جیسی قابلِ نفرت فلمیں شامل ہیں.
پہلا حصہ: ہندی سینما اور طوائف (1)
دوسرا حصہ: ہندی سینما اور طوائف (2)
بشکریہ: حال حوال ڈاٹ کام
2 Trackbacks / Pingbacks
Comments are closed.