(اسامہ شعیب)
لغوی تحقیق
نعت عربی زبان کا لفظ ہے۔جس کا مادہ’ ن ع ت‘ ہے۔اس کی جمع نعوت ہے۔ اس کے لفظی معنیٰ’ وصف بیان کرنا،کسی چیز کی خوبی بیان کرنا، بہ تکلّف عمدہ صفات دکھانا‘ وغیرہ کے آتے ہیں۔خاص کر جب کسی چیز کے وصف میں مبالغہ سے کام لیا جائے تو اس وقت لفظ نعت کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ابن سیدہ کے مطابق:
” ہر عمدہ اور جیّد چیز کو جس کے اظہار میں مبالغہ سے کام لیا جائے اسے نعت کہا جاتا ہے“۔
ازہری کہتے ہیں:
”نعت کا لفظ اس گھوڑے کے لیے استعمال ہوتا ہے جو بہت ہی خوب صورت اور دوڑ میں سبقت لے جانے والا ہو“۔
ابن الاعرابی فرماتے ہیں:
” نعت کا لفظ اس انسان کے لیے استعمال ہوگا جونہایت ہی خوب صورت اور حسن و جمال سے متصف ہو۔ابن الاثیر لکھتے ہیں کہ نعت کسی شئے کی اچھائیوں کے بیان کا نام ہے“۔)النہائیة فی غریب الحدیث و الاثر،ابن اثیر:(5/76
احادیث میں یہ لفظ اظہارِ مطلق،بیان،عام اشیاءاورافرادکی تعریف،صفت،کیفیت،حالت،خصوصیت، علامت یا کسی شخص کے حلیہ کے بیان میں استعمال ہوا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں حدیث میں آیا ہے:
عن ابن عباسؓ انہ سال کعب الاحبار:کیف تجد نعت رسول اللہ فی التوراة؟فقال کعب:نجدہ محمد بن عبداللہ یولد بمکة الخ) سنن دارمی(1/159:
اس وجہ سے بعض محدثینِ حدیث اور شارحین نے اپنی کتابوں میں نعت کو نبی کریم کی توصیف وتعریف سے خاص کر دیا ہے۔چنانچہ ابن اثیر(544-604ھ) لکھتے ہیں:
فی صفتہ صلی اللہ علیہ وسلم بقول ناعتہ لم ار قبلہ و لا بعد مثلہ۔
نعت رسول اکرم کی صفت کو کہتے ہیں جیسے کہ ناعت(نعت کہنے والا )کہتا ہے،میں نے آپ سے قبل اور آپ کے بعد آپ کے مثل نہیں دیکھا۔ اردو لغات میں یہ لفظ وصف کے معنی میں تو ہے لیکن اس کا استعمال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ستائش و ثنا کے لیے ہی مخصوص ہے۔)نور الحسن نیر کاکوروی،نور اللغات:(4/681
اسی لیے لغات میں اس کے معنیٰ’ وہ نظم جو رسول اکرم کی شان میں کہی جائے ‘کے آتے ہیں۔(مرزا مقبول بیگ ،اردو لغت ص437)۔
اصطلاحی تعریف
اصطلاح میں نعت وہ نظم کہلاتی ہے جو رسول کی شان میں کہی جائے۔(مرزا مقبول بیگ ،اردو لغت ص437)۔
لفظ نعت کا استعمال پہلی بار کس نے اور کب کیا؟اس سلسلے میں سید رفیع الدین اشفاق کا خیال ہے کہ سب سے پہلے حضر ت علیؓ نے اس لفظ کو آپ کے لیے کیا تھا۔جس کا ثبوت شمائل ترمذی کی یہ حدیث ہے :
من راہ بدیہة ھابہ و من خالطہ معرفة احبہ یقول یناعتہ: لم ار قبلہ ولا بعدہ مثلہ(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)۔(ترمذی:3638)
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یکایک جس کی نظر پڑتی ہے ہیبت کھاتا ہے،جو آپ سے تعلق بڑھاتا ہے محبت کرتا ہے، آپ کا وصف بیان کرنے والا کہتا ہے کہ آپ سے پہلے نہ آپ کے جیسا دیکھا اور نہ آپ کے بعد آپ جیسا دیکھا“۔
اس حدیث میں حضرت علی نے آپ کے اوصاف بیان فرماتے ہوئے اپنے لیے بجائے وصف کے ناعت کا لفظ استعمال کیا ہے۔
موضوع
نعت کا سب سے اہم موضوع ’مدح‘ ہے۔آغاز سے ہی اس کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ مسلم شعراءنے کفار مکہ کی ہجو اور گستاخانہ اشعار کے جواب میں نبی کریم کے حسب ونسب اور کردار و صفات کی تعریف میں جو مدح کی، اسے اولین نعتوں میں سے شمار کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ دیگر موضوعات میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت،شخصیت اور سیرت کی گواہی،ظاہری حسن و جمال، شجاعت و سخاوت،دیانت وامانت،صداقت و عدالت،بعثتِ نبوی،نبوت کا اعلان،معجزات،چاند کا دو ٹکڑے ہوجانا،درختوں اور بتوں کا جھک جانا،معراج کاواقعہ،مدینہ میں تشریف آوری ،خاتم النبیین اور رحمة للعالمین ہونا وغیرہ اہم ہیں۔رفتہ رفتہ نعتیہ اشعار میں اپنے احساسات و جذبات کا بھی اظہار کیا جانے لگا۔جیسے مدینہ سے دوری،ہواو ¿ں سے اپنا پیغام پہنچانا وغیرہ۔
برصغیر کی نعت کے موضوعات پر ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے اثرات پڑے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس میں بعض ایسی چیزیں شامل ہوگئیں جو عربی وفارسی نعتیہ کلام میں نہیں تھیں۔چنانچہ ان میں الوہیت اور نبوت میں فرق کو ختم کر دیا گیا، اللہ اور اس کے رسول کے درمیان فرق کو مٹا دیا گیا،دونوں کی صفات کو ملا دیا گیااور اس میں بعض مشرکانہ افکار ونظریات بھی شامل کر لیے گئے۔جیسے نبی کریم کو’ احمد بے میم‘ اور’ عرب بلا عین‘ کہا جانے لگا۔اسی طرح اللہ اور اس کے رسول میں مقابلہ کیا جانے لگا۔جیسے:
ہے خدا کو جس قدر اپنی خدائی پر گھمنڈ
مصطفیٰ کو اس قدر ہے مصطفائی پر گھمنڈ(کلّیاتِ شائق،ص128)
بعض نے اس سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ کر صاف لفظوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ بنا دیا۔جیسے
وہی جو مستوی عرش ہے خد اہوکر
اتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفی ہو کر
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ نعت میں ہندو تہذیب سے متاثر ہوکر لوگوں نے غلو،شرک سے کام لیا اور وحدت کا مذاق اڑایا۔جو صریح طور پر نبی کریم کے ارشادات کے خلاف ہیں۔آپ نے فرمایا:
مجھے حد سے نہ بڑھاؤ جیسا کہ نصاریٰ نے مسیح علیہ السلام کے ساتھ کیا۔میں تو صرف خدا کا بندہ ہوں اور ا س کا رسول ہوں۔مجھے صرف اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو۔
اسی طرح لوگوں نے ہندو مذہب کے دیو مالائی قصوں، دیوتاؤں سے منسوب بے سرو پا کہانیوں سے متاثر ہو کر نبی کریم کے معجزات اور سیرت نگاری میں بھی غلو سے کام لیا اورمیلاد، ولادت، معراج جیسے دیگر موضوعات کو خاص اہمیت دی۔ ہندی زبان نے بھی نعت پر اپنا اثر ڈالا اور ان کے رموز و اشارات، تشبیہات واستعارات وغیرہ کا استعمال بھی اس میں کیا جانے لگا۔ ہندی راگ کے لَے اور گیتوں کے طرز پر نعت بھی لکھی جانے لگی۔ جیسے:
کوئی ایسی سکھی چاتر نہ ملی مجھے پی کے دوارے بٹھا دیتی
میں نے راہِ مدینہ بھی دیکھی نہیں مجھے بیّاں پکڑ کے بتا دیتی) کنور اندر سیائے سکینہ علم بدایونی،بزم طرب:(1/57
نعت گوئی کی شروعات عربی سے ہوئی پھر یہ فارسی اور اردو زبان میں آئی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ عربی کے بعد سب سے زیادہ نعتیں اردو میں لکھی گئی ہیں۔ اردو کے غیرمسلم شعرا نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے متاثر ہو کر کافی تعداد میں نعتیں کہیں ۔ اس کا اردو میں ایک بڑا سرمایہ موجود ہے۔
غیر مسلم شعراءکا نعت گوئی میں حصہ
غیر مسلم شعراءکی نعت گوئی کا آغاز جنوبی ہند سے ہو چکا تھا اور مسلم شعراءکی طرح ان لوگوں نے بھی عقیدت و محبت کے اظہار کے لیے حضور اکرم کی سیرت و نعت کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنا یا۔لیکن حقیقی دور 1857کی جنگ ِآزادی کے بعد سے شروع ہوا۔
عصر جدید میں ہمیں متعدد ایسے غیر مسلم شعراء ملتے ہیں جنہوں نے اس میدان میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ اس کے مختلف اسباب رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پرکشش ذاتِ مبارک اور آپ کا دنیا پر بلا تفریق قوم و ملت کے احسانات سے متاثر ہو کر ان شعراء نے آپ کو نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ دوسری بڑی وجہ رواداری کی وہ فضا ہے جو جنگ آزادی کے بعد ہندو مسلم قوموں میں پہلے کی بہ نسبت کچھ زیادہ نمایاں ہوگئی تھی۔ انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کی خواہش نے بھی اس میں اہم کردار نبھایا۔
مخلوط معاشرے میں اگرچہ ہندو مسلم تعلقات میں ایک کشیدگی ہمیشہ رہی اور دونوں قوموں کے تہذیب و تمدن میں واضح اختلاف رہا، اس کے باوجود اہلِ فکر و قلم کے حلقوں میں رواداری کی ایک انوکھی فضا ملتی ہے۔
غیر مسلم شعرا کی نعتوں کو جمع کرنے کی سب سے پہلے کوشش مشہور شاعر مرحوم والی آسی نے کی تھی اور اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ یوں تو اردو میں غیرمسلم نعت گو شعرا کی تعداد کئی سو تک پہنچتی ہے۔ لیکن نور میرٹھی نے جو کتاب ” بہ ہرزماں بہ ہر زباں“ مرتب کی وہ بہت اہمیت کی حامل ہے اس میں انہوں نے 336 ہندو شعراءکی نعتوں کویکجا کیا ہے۔چند مشہور ہندو نعت گو شعراءدرج ذیل ہیں:
٭ عصر جدید میں پہلے غیر مسلم اہم نعت گو شاعر منشی شنکر لال ساقی(1890) ہیں۔انہوں نے اردو و فارسی دونوں زبان میں اشعار کہے۔
جیتے جی روضہ اقدس کو نہ آنکھوں نے دیکھا
روح جنت میں بھی ہوگی تو ترستی ہو گی
نعت لکھتا ہوں مگر شرم مجھے آتی ہے
کیا مری ان کے مدح خوانوں میں ہستی ہوگی(محمد دین فوق،اذان تبکدہ ص 33-35)
٭مہاراجہ سرکشن پرشاد(م 1359ھ) پہلے معروف ہندو نعتنگار تھے جنہوں نے کثیر تعداد میں سے نعتِ رسول کہا۔آپ کے اشعار جذب و شوق اور حب رسول سے بھرے ہوئے ہیں ۔ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ کسی غیر مسلم کا کلام ہے۔آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری جمال کے بارے میں متعدد اشعار لکھے ہیں جن میں آپ کے زلف و عارض، خدوخال اور ابرو اقامت کے حسن کو تشبیہ اور استعارہ کی شکل میں پیش کیا ہے اور ان میں عربی الفاظ و تراکیب بھی ملتی ہیں۔آپ کا مجموعہ 200 صفحات پر مشتمل ہے۔
کافر ہوں کہ مومن ہوں خدا جانے میں کیا ہوں
پر بندہ ہوں اس کا جو ہے سلطانِ مدینہ
مدینہ کو چلو دربار دیکھو
رسول اللہ کی سرکار دیکھو(کشن پرشاد شاد،ہدیہ شادص92)
٭دلو رام کوثری(1365ھ) بھی نعت گوئی میں بہت مشہور ہوئے۔برصغیر کے مشہور صوفی پیر جماعت علی شاہ نے آپ کی شاعری سے متاثر ہوکر آپ کو ’حسان الہند‘ کا لقب دیا تھا۔آپ نبی کریم کی محبت وشفقت اور حلم و درگزر سے بہت متاثر تھے اس لیے آپ نے انہیں ہی اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ جیسے
کچھ عشق محمد میں نہیں شرطِ مسلماں
ہے کوثری ہندو بھی طلب گارِ محمد(محمد دین فوق،اذان تبکدہ ص24)
٭عرش ملیسانی بھی صاحب ِدیوان نعت گو شعرا میں سے ہیں۔آپ کے مجوعہ کا نام’ آہنگ حجاز‘ ہے۔آپ کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعہ مسلم ہندو کے مخلوط معاشرے میںمذہبی تعصب سے اوپر اٹھ کر باہمی محبت و یگانگت کو فروغ دیا۔آپ کی شاعری میں نبی کی ذات سے عقیدت و محبت دلی تڑپ اور خلوص کی چاہت پائی جاتی ہے۔جیسے
تیرے عمل کے درس سے گرم ہے خونِ ہر بشر
حسن نمود زندگی، رنگ رخ حیات نو(عرش ملیسانی،آہنگِ حجاز ص۶)
دیگرہندو نعت گو شعراءکرام میں منشی بالا سہائے متصدی(پرچہ درشان محمد مصطفی1905ئ، جلسہ مولود شریف مع غزلیات ونعت محمد مصطفی1907ئ)،پنڈت شیو ناتھ چک کیف م1914(مناجات کیف1898ئ،دیوان کیف1907)، منشی للتا پرشاد شاد 1886-1959(مخزن اسرار معرفت،نالہ دل خراش1949،پنجہ پنج تن)،پربھو دیال رقم(پ1891)(تحفہ عید میلاد النبی1958)، پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی 1811-1844(مثنوی گلزار نسیم)، شیو پرشاد وہبی لکھنوی (مرقع از ژنگ1880)،منشی درگا سہائے سرور جہان آبادی 1873-1910ء(جام سرور، خمخانہ سرور)، مہر لال سونی ضیا(پ1913)(طلوع1933،نئی صبح1951،گردِ راہ1962)،چاند بہاری لال ماتھر صبا (پ1885) ، جگن ناتھ آزاد ھ (پ1918) ، کنور مہندر سنگھ بیدی (پ(1910،منشی روپ چند، پیارے لال رونق، چندی پرشاد شیدا، مہاراج بہادر برق،منشی لچھمی نرائن سخا،تربھون شنکر عارف، پنڈت ہری چند اختر،پنڈت لبھو رام جوش ملسیانی، علامہ تربھون ناتھ زار زتشی دہلوی، تلوک چندر محروم، گوپی ناتھ امن، پنڈت نوبت رائے نظر، پنڈت امر ناتھ آشفتہ دہلوی، بھگوت رائے راحت کاکوروی، مہاراجہ کشن پرساد، پنڈت برج نرائن دتا تریا کیفی، رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، کرشن موہن، چندر پرکاش جوہر بجنوری، آنند موہن زتشی، گلزار دہلوی، پنڈت دیا پرساد غوری، اوما شنکر شاداں، اشونی کمار اشرف، ہری مہتا ہری اور چند ر بھان خیال جیسے شعراءکے نام آتے ہیں۔