چاچو، چودھری اور چوہان
از، یاسر چٹھہ
اور سن لیجیے کہ اخبار بھلے درجنوں بند ہوں ہمارے لیے چودھری، چوہان اور وہ ہی کافی ہیں۔ وطنِ عزیز میں درجنوں کے حساب سے اخبارات و دیگر ذرائع ابلاغ کا بند ہونا ایک اہم ترین مثبت خبر ہے۔
اسی پر بوڑھے درویش نے کہا:
“سن لیجیے، ہمارے لیے چودھری، چوہان اور… تائی… ہیس… بی آر ہی کافی ہیں… تتثلیثِ اثبات و نفی… حق دم، حق دم، حق دم….. یوں بھی اہلِ ایمان کو حِسی ذرائع خبر و رسل پر یقین نہیں کرنا ہوتا، ان کے لیے ٹویٹ و کانفرنس ہی جامِع و مانِع ہیں۔”
اور ہاں، بوڑھا درویش بہت اونچی آواز میں سنتا ہے۔
ہیں؟ اونچی آواز میں کیوں سنتا ہے؟
اس کے کان خدا نے سچ سننے کے لیے بنائے تھے۔ یا پھر تھوڑا سا ملا جلا سچ۔ جسے کسی فرانسس بیکن نے تخلیق و فن سے منسلک کیا تھا۔ وہ مکمل طور پر alt-truth جسے اہلِ وطن اُلٹ ٹرُوتھ سُن اور پڑھ کر بھی جان، مان اور سمجھ سکتے ہیں۔
لیکن، لیکن، ہاں، لیکن۔ پھر بوڑھے درویش کے کان کام سے گئے۔
اب بوڑھے درویش کے کان صرف اونچا سنتے ہیں۔ پر کانوں کا اونچا سننے کے نَقص کی کھائی میں گرتے چلے جانا، اس کی آنکھوں کو دیکھنے سے نہیں روک پایا۔ اور یہی درویش کا سب سے بڑا دکھ ہے۔ وہ سن نہیں سکتا، لیکن دیکھنے کا سزا یافتہ ہے۔ بھلے اس سے بھی اگلے درجے کی سزا ہے؟
وہ کیا ہے؟
اے میرے اہلِ وطن اپنے سوالوں کو “کیا” کے درجے سے “کیسے” اور “کیوں” پر کب لے جاؤ گے؟ اسی “کیا” پہ اٹک گئے ہو، اور وہ کیسے، کیسے، ایسے، ویسے، بَل کہ جیسے تیسے، ایسے تیسے کرتے جا رہے ہیں؛ اور تم ہو کہ “کیا” ہے کہ بَچپَنے سے آگے جانے کو تیار نہیں ہو رہے ہو۔ کیا ہی جَپتے جا رہے ہو۔
اور تم کیا جانو کہ دیکھ کر کہہ نا پانے کا “کیا” کرب ہوتا ہے؟ تم کیفیتوں کےسوالیہ “کیاؤں” کو کیا جان پاؤ گے؟ تمہیں تو “دانہ” کھانے، اور رات کو سونے کی مَعصِیّت، اور رات جاگنے والوں کے بھاری عِوْضانے پر ہونے کے با وجود، “ان” کے احسان سے بری ہونے میں پوری کی پوری زندگیاں تیاگ دینے پر بھی احساسِ گناہ سے رہائی نہیں ملنے کی۔ کیا ملنے کی ہے؟ نہیں۔ بابو، نہیں۔
مزید دیکھیے: سولہ دسمبر کا داغ: سانحات کا چنیدہ دن از، ملک تنویر احمد
بوخن والڈ کیمپ: فاشسٹ نظریے کا چشم دید گواہ از، عبدالرؤف
اور تاریخ کہے گی کہ منگول بڑے ظالم تھے از، نصیر احمد
بابو، اے بابو، بات سنو، بوڑھا درویش اب اونچا سنتا ہے۔ اور یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ جو اونچا سنتے ہیں وہ عمومی طور پر بولتے بھی اونچا ہیں۔ یہاں کچھ فرق ہے۔ نہیں یہ مت سمجھنا کہ درویش بولتا اونچا ہے۔ بَل کہ وہ نہیں بولتا، اسے نہیں بولنا کہ وہ سننے سے پریشان ہو جاتے ہیں۔
بوڑھا درویش خاموش ہے۔ یہ تو ہم تک بس اُس کی سوچ کی آواز آن پہنچتی ہے۔
تو سنو بوڑھے درویش نے کل پھر کیا سوچا۔
بوڑھے درویش نے سوچا، جو ہم نے سُن کر لفظوں کی جھولی میں ڈال دیا کہ یاد داشتوں پر بُری نظر رکھنا ہمیشہ سے عوام کے پاپاؤں اور مُلُوک کا وتیرہ رہا ہے۔ یاد داشت پر گرفت، یاد داشتوں کی چُنیدہ تخریب و تعمیر ان کی سیاست کاری و سیاہ کاری کا اہم موقع و مَحَل site رہا ہے۔
آج سولہ دسمبر ہے۔ جی دسمبر کی سولہ۔ اس دن کی بھی کئی ایک یاد داشتیں ہیں۔ ہمارے لیے تو صرف بری۔
لیکن دیکھتے جاؤ کہ سولہ دسمبر کی یاد داشتوں کے گرد کون کون گلاب کے پھول ڈال رہے ہیں، اور کون کون آہنی، ہزار ہا آہنی زنجیروں کو بھی بَر سبیلِ سبق یاد داشت میں رکھنے کا کہہ رہے ہیں۔ سب مُحبّانِ وطن ہیں۔ پر دیکھیے کہ کون سولہ دسمبر کی یاد داشت کو کیسے یاد کرنا چاہ رہا ہے، اور کون کس پر پردہ ڈالنا چاہ رہا ہے۔ حب الوطنی بھی غریب کی زوجہ ہوتی ہے، اور ڈاڈھے کی مُنھ بولی… پتا نہیں کیا؟
بوڑھے درویش نے کچھ سَمے سوچنا موقُوف کیا اور پھر ہیگل بابا کی اس کہنی کو سیاقوں اور سباقوں کے حوالے اور کڑیوں سے جوڑے بِنا بہ صورتِ آیت و شعر پڑھا، جسے سب سن سکتے تھے، لیکن سمجھ مرضی کا سکتے تھے:
History combines in our language the objective as well as the subjective side. It means both res gestae (the things that happened) and historia rerum gestarum (the narration of the things that happened)
Hegel, Philosophy of History
بوڑھا درویش سوچتا ہے کہ ہیگل بابا یہ کیوں نا کہہ گئے کہ تاریخ یہ ہوتی ہے کہ جو وہ ہمیں سنانے کی اجازت دیں۔ اور جو قالین کے نیچے پھینکنا ہے، اس کا بتاتے جائیں؛ یا، پھر مثبت نا مل سکنے کی صورت میں بند ہوتے جائیں: اپنے اندر، اپنے باہر۔ باقی جو وہ ہمیں سنائیں، بس اسے ہی سنیں۔
وما علینا الا لبلاغ المبین