یا اللہ ہٹلر کی توپوں میں کیڑے پڑیں
وسعت اللہ خان
پہلے زمانے میں تو خیر یہ عام تھا کہ اگر کوئی مطلوبہ شخص ہاتھ نہیں آ رہا اور جنگل میں چھپ گیا ہے تو جنگل کو ہی پھونک ڈالو، کشمیر ٹائپ جگہ ہو تو گاؤں کے تمام مرد ہی شناختی پریڈ میں کھڑے کردو۔ ویتنام ہو تو دس ویت کانگ کو مارنے کے لیے پورے تعلقے پر ایجنٹ اورنج کا سپرے کر دو، کیا ہوا کہ ہزاروں انسانی تتلیاں بھی ساتھ ساتھ مر جائیں۔ کم از کم وہ دس بدمعاش ویت کانگ تو زندہ نہیں رہیں گے۔
جاپان کو دوبدو جنگ میں شکست تو دی جا سکتی ہے مگر اس میں اپنے بھی ہزاروں بندے مزید مریں گے لہذا دو ایٹم بم مار کے قصہ تمام کرو، لاکھوں جاپانیوں کی موت جنگ بندی سے زیادہ تھوڑی ہے۔ اگر ایک صدام حسین ہاتھ نہیں آ رہا تو اسے ڈھانے کے لیے راستے میں پانچ لاکھ عراقی بچے بھی آتے ہوں تو انھیں پابندیوں کے کوڑوں سے مار مار کے راستہ صاف کر لو اور صدام حسین کو گردن سے پکڑ لو۔
اس طرزِ عمل کی مقامی اور چھوٹی مثالیں دیکھنی ہوں تو کسی بھی دن کسی بھی بڑے شہر میں آسانی سے مل سکتی ہیں۔ اگر کوئی جلوس روکنا ہو تو آسان ترین طریقہ ہے کہ چاروں طرف کنٹینرز لگا دو یا پھر بسیں، ویگنیں اور ٹرک شاہراہوں پر ترچھے کھڑے کر دو۔ کیا فرق پڑتا ہے اگر دو سو افراد کے جلوس کو کنٹرول کرنے کا یہ سہل طریقہ لاکھوں شہریوں کی آمدورفت میں کئی گھنٹوں یا دنوں کی تکلیف کا سبب بنتا ہے۔
کسی مفرور کو گرفتار کرنا ہو تو بھاگ دوڑ اور قانونی تگ و دو کے بجائے سب سے آسان طریقہ ہے کہ اس کے اہلِ خانہ اور اہلِ محلہ کو اٹھا کر تھانے میں بٹھا لو (بشرطیکہ وہ پرویز مشرف یا کوئی اور ڈھاڈا ملزم نہ نکل آئے)۔
اگر کسی خاص طبقے یا قومیت کو بھٹکے ہوئے راستے سے کسی درست یا محبِ وطن راستے پر ڈالنا مقصود ہو تو کچھ جوان غائب کر دو، زیادہ خطرناکوں کو مار ڈالو اور کم خطرناکوں کو ایسی حالت میں چھوڑ دو کہ جو بھی ان کی حالت دیکھے توبہ توبہ کرے اور کوئی خیالِ بد ہو بھی تو اپنی سلامتی کی خاطر ذہن سے جھٹک دے۔ عدالت، قانون، انصاف کی کھکیڑ میں کون پڑے جب ’’پلس مقابلے‘‘ کا آسان راستہ سامنے ہے۔
اگرچہ ایف سی آر کہنے کو صرف وفاق کے زیرِ انتظام قبائیلی علاقوں میں ہی نافذ ہے جس کے تحت ایک شخص کے جرم کی سزا پورے قبیلے کو دی جا سکتی ہے مگر جب پاکستان کے دیگر علاقوں میں وارداتوں یا وارداتیوں سے نمٹنے کا چیلنج درپیش ہو تو قانون نافذ کرنے والے ظاہری اور باطنی ادارے عملاً سرزمینِ آئین میں بھی بے آئین طریقے استعمال کر کے ہی معاملہ سلٹاتے ہیں اور اس محنت اور محنت کی تھکن سے سے بچتے ہیں جو آئین و قانون کے طویل راستے کو اختیار کرنے سے ہوتی ہے اور جسے دیگر ممالک اس پیشے کا لازمی حصہ (اکوپیشنل ہیزرڈ) سمجھتے ہیں۔
ان دنوں انصار الشریعہ خبروں میں ہے۔ ٹی وی چینلز کھولو تو پتہ چلتا ہے کہ یہ گروہ نہیں بلکہ دہشتی ہیضے کی وبا ہے جس نے پورے ملک کو اچانک اپنی لپیٹ میںلے لیا ہے۔ کمال بات یہ ہے کہ جب تک اس گروہ نے فروری میں دو پولیس والوں کی ہلاکت کی پہلی وارادت کے بعد خود سے ذمے داری قبول نہ کی تب تک اس گروہ کا نام بھی کسی کو نہیں معلوم تھا۔ اس کے بعد اس گروہ نے ایک ریٹائرڈ کرنل، چار روزے دار پولیس والوں اور تین نامعلوم افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تب بھی کسی نشریاتی ادارے کے کان کھڑے نہیں ہوئے۔ مگر جیسے ہی سندھ اسمبلی کے قائدِ حزبِ اختلاف خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملہ ہوا تب میڈیا کو اندازہ ہوا کہ اوہو ہمارا سامنا کس قدر موذی اعلی تعلیم یافتہ گروہ سے ہے۔ پھر سب کو اعلی تعلیم یافتہ نورین لغاری بھی یاد آگئی اور ڈاکٹر شکیل اوج کا قتل اور اس کے محرکین کے نام بھی ذہن میں گھومنے لگے۔ یوں دہشت اور نشریاتی ریٹنگ کا تانا بانا مکمل ہو گیا۔
اب کہا جا رہا ہے کہ جامعہ کراچی اور این ای ڈی یونیورسٹی سمیت تمام اعلی تعلیمی اداروں میں چھان پھٹک ہو گی، ریکارڈ کھنگالا جائے گا۔ کیریکٹر سرٹیفکیٹس اور داخلوں سے پہلے نیک چال چلن کی ضمانت اور پولیس انکوائری جیسی تجاویز بھی قیاس آرائی سے بنے آسمان میں اڑ رہی ہیں۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ فساد کی اصل جڑ مذہبی مدارس میں چھپی ہوئی ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کا جو خوفناک تانا بانا دراصل جدید تعلیمی اداروں میں ہے اس کے مقابلے میں تو مدارس محض کنڈرگارٹن ہیں۔
بات یہ ہے کہ شاید ہی کوئی قوم یا ملک ہو جو اپنے سر پر ہتھوڑا مار کر مجرم کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگنے کا ٹورنامنٹ ہم سے جیت سکے۔ پہلے ہم نے ہنسی خوشی قومی مفاد میں بھولے شاہین کو پہاڑوں کی چٹانوں میں بسیرا کرنا سکھایا، پھر تلواروں کی چھاؤں میں لڑنے کی درخشاں ماضیانہ مثالوں سے دل گرمایا، پھر دیواروں پر ’’موت وہ جو جوانی میں آئے‘‘ ٹائپ نعرے لکھے۔ پھر تعلیمی نصاب کو جہادی اینٹی بائیوٹک میں ڈبو کر خشک کر کے بچوں کو تھما دیا۔ پھر ایسے اساتذہ کی حوصلہ افزائی کی جنہوں نے بچوں کو اسلاف کی راہ پر لگانے کے لیے دن رات و دل و جان ایک کر دیے۔ رہی سہی کسر تعلیمی اداروں میں طلبا یونین سازی پر پابندی لگا کے پوری کر دی گئی اور جواز یہ پیش کیا گیا کہ یونین کا ادارہ طلبہ کو تعلیم سے بے تعلق کر کے تشدد سے ان کا تعلق جوڑتا ہے۔
کوئی یہ بتائے کہ جب جنرل ضیا الحق نے یونین سازی پر پابندی لگائی تب تعلیمی اداروں میں تشدد کا گراف کتنا تھا اور آج کتنا سکھ چین ہے؟ طلبا یونینیں بھلے دائیں بازو کی تھیں کہ بائیں کی۔ وہ جھگڑتی بھی تھیں مگر طلبا کی مقامی، ملکی، بین الاقوامی سیاسی آگہی کے لیے روشندان بھی تھیں۔ تقریری مقابلوں میں طلبا دلائل کی گولیوں سے ایک دوسرے کو چھلنی بھی کرتے تھے۔ یہ یونینیں تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور عام طالبِ علم کے مسائل اور ان کے حل کے لیے پل کا کام بھی کرتی تھیں۔
طلبا تنظیمیں نوجوانوں کے جذباتی و فکری اظہار کا اسٹیج تھیں۔ سب کو سب کے بارے میں معلوم ہوتا تھا کہ کون سا طالبِ علم پڑھاکو ہے، کونسا جماعتی ہے، کون سرخا ہے، کون غصیلہ ہے، کون انتہا پسند ہے۔ یوں بروقت نشاندہی اور تدارک کا ایک خودکار قدرتی نظام موجود تھا۔ جب آپ نے یونین ہی ختم کر دی تو گویا رابطے کے پل کو اپنے ہاتھوں آگ لگا دی۔ تقریر کا چلن ختم ہو گیا، دلائل کے پھلنے پھولنے کے لیے جگہ چھین لی۔ سیاسی بحث کے ذریعے تربیت کا راستہ بند ہوا تو تعلیمی اداروں سے غیر سیاسی دولے شاہ کے چوہے نکلنے لگے اور اس خام مال کو جس نے چاہا اچک لیا اور انھیں نہ صرف اپنے مخصوص نظریے بلکہ اسلحے سے بھی مسلح کر دیا۔
اب آپ ڈھونڈتے پِھریے انتہا پسندوں کو تعلیمی اداروں میں جو دو دو چار چار کے سیل میں آپ کی ناک کے نیچے کام کرتے ہیں اورپتہ تب لگتا ہے جب وہ پہلی واردات کی ذمے داری قبول کرتے ہیں۔ اور پھر تمام ریاستی و تعلیمی لال بجھکڑ سر جوڑ کے بیٹھ جاتے ہیں کہ اس کا مقابلہ کیسے کریں۔ اور پھر کسی طویل المیعاد پائیدار حل کے تھکا دینے والے دماغی کام سے بچنے کے لیے پورے پورے اداروں اور کمیونٹیز کو کوسنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ کچھ دنوں بعد یہ عمل بھی دم توڑ دیتا ہے۔ اس وقت تک کے لیے جب کوئی نیا گروہ نئی واردات کے ساتھ نمودار نہیں ہو جاتا۔
ہاں ان وارداتیوں کو شناخت کرنے اور گیہوں میں سے گھن الگ کرنے کے آلات بھی ہیں، ماہرین بھی اور مخصوص تربیت بھی۔ مگر جو ادارے ان آلات، جانکاری اور تربیت سے مسلح ہیں وہ اسے دیگر اداروں کو منتقل کرنے کے بجائے غریب کی جوڑی رقم کی طرح اپنے سینے سے لگا کے رکھتے ہیں۔ اور پھر بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ انتہا پسندی و دہشت گردی کی بیخ کنی کا سارا بوجھ کب تک ہم اٹھاتے رہیں گے۔ باقی ادارے بھی تو اپنا کردار ادا کریں۔
کسی کو معلوم ہے کہ انتہاپسندی سے نمٹنے کی ہماری حکمتِ عملی کیا ہے اور کون کس کام کا ذمے دار ہے؟ نیشنل ایکشن پروگرام کے نفاذ کو تین برس سے زائد ہوگئے اور چار روز قبل ہی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ایک مسودہِ قانون کیبنٹ ڈویژن کے حوالے کیا تاکہ وہ یہ معلوم کر کے بتا سکے کہ اس بارے میں اقدامات وزارتِ دفاع کے احاطے میں آتے ہیں یا وزارتِ داخلہ کے دائرے میں۔
ہاں ہم نے شدت پسندی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے بے انتہا محنت کی ہے بالکل اس مریض کی طرح جو معالج کے پاس جا کر کہتا ہے ’’ڈاکٹر صاحب چھ سو روپے دا ایکسرے وی کروا لیا پر ارام نہیں آیا‘‘ ……
اگر بعد از واردات پھرتیاں دکھانے، گدھے گھوڑے کو ایک صف میں کھڑا کرنے اور مذمت سے مسئلہ حل ہو جاتا تو پھر میری پرنانی اکیلی ہی ہٹلر کے لیے کافی تھیں جو اٹھتے بیٹھتے کوستی تھیں ’’یا اللہ ہٹلر کی توپوں میں کیڑے پڑیں‘‘…
بشکریہ: ایکسپریس اردو