رنگین وعدے اور شوبھا سڑکیں
(نعیم بیگ)
میں یہ تو نہ کہوں گا کہ ہم ایک گمراہ قوم ہیں ، البتہ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ہم گمراہی کی طرف تیزی سے جاتی ہوئی ایک قوم ضرور ہیں۔ اپنی راہ کھوٹی کرنا کوئی ہم سے سیکھے۔ دودھ میں مینگنیاں کیا بکریاں ڈالتی ہونگی جو ہم ڈالتے ہیں؟ انسانی ہاتھ ، پاؤں اور دیگر جسمانی اعضا ٗ کی منفی حرکات و سکنات کا مجسم نمونہ اگر کوئی دیکھنا چاہتا ہے تو وہ ملکی سڑکوں پر نکل آئے اور اگر کہیں کچھ نظر نہ آئے تو لاہور کی سڑکوں پر ٹہل لے۔
کمرشل ٹریفک تو اپنی جگہ ایک لامتناہی بنجر پہاڑ کی سخت چٹانوں کی طرح آپکی راہ میں حائل نظر آئے گی ہی، لیکن آپ کو حقیقی ’مسرت و انبساط‘ کا نذرانہ پیش کرنے کے خواہاں سینکڑوں کار سوار حضرات ۔۔۔ موٹر سائیکلوں پر اٹھکیلیاں کرتے ہزاروں نوجوان ، موت کے کنویں میں بھگاتے آٹو رکشا کے سرکس ڈرائیور،محنت کشوں کے رینگتے غول اور پیدل چلنے والے سفید چھڑی تھامے بغیر اِن لاکھوں’ نابیناؤں ‘ کو حقیقی سلام جنہوں نے سڑکوں پر آنے کا حق ادا کر دیا۔
کوئی شخص اس قدر رغبت و چاؤکے ساتھ اپنے گھر میں چہل قدمی کرتے ہوئے اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کرنے میں خوشی محسوس نہیں کرے گا، جس قدر اسے سرِ عام ہر دوسرے شخص کی سواری تلے آکر خود کو رسوا اور دوسرے کومجرم قرار دینے میں’ مسروت و کامرانی‘ ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ عوام الناس نے دن دہاڑے کوئی شراب کی دکان لوٹ رکھی ہے۔
کہتے ہیں بچہ اپنے پالنے میں پہچانا جاتا ہے۔ ہم سب من حیث القوم اپنی سڑکوں پر اپنے رویوں سے خوب ’جانے پہچانے ‘جاتے ہیں۔ باوجودیکہ ہم انفرادی طور پر اگر مکمل اچھے انسان نہ سہی ، کچھ نہ کچھ انسانی وصف ضرور رکھتے ہیں لیکن ناجانے اجتماعی طور پر جب گلیوں سے نکل کر سڑکوں پر آتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنی عالی شان روائتوں کے صدیق ، ورثہِ فخر کے امین ، صدیوں کی ثقافت کے سحر میں غرق ، کائنات کے وسعتوں میں کھوئے یہ ہزاروں انسان نئی کہکشاؤں میں دریافت کی نئی دنیا بسانے جا رہے ہوں،جہاں وہ اپنے سماجی اجتماعی کردار کے اندھیروں سے انہیں مزید تاریک کرنے پر تُلے ہوئے ہوں؟
درحقیقت ہم جلدی میں ہیں ۔ نفسیاتی طور پر ہائپر ہو چکے ہیں۔ قوت برداشت کا امتحان ہو،صبر و تحمل کی تلقین ہو، کوئی سماجی ایکٹیویٹی ہو، اجتماعی کھانے کی میز ہو کہ کسی سیاسی کھانے کا منظر نامہ ، حتیٰ کہ میڈیا کے پروگرام اور ٹاک شو تک، ہر شخص اس موقع کو زندگی کا آخری موقع سمجھتے ہوئے سب کچھ اپنے اندر یا اندر سے باہر انڈیلنے کی کوشش میں برق رفتار ہے۔ یوں سمجھا جائے جلدی پوری قوم کو ہے ، ناجانے کہاں پہنچنے کی ؟ غور سے دیکھیئے تو سیاسی منظر نامہ پر بھی یہی فلم چل رہی ہے۔
شارٹ کٹ ہماری رگوں میں دوڑتے خون کی طرح آنکھوں سے ٹپک رہا ہے۔ گھر سے نکلتے ہی والدین ، بڑے بزرگوں اور قانون و اخلاق، سب کی آوازیں ہم اوپری چیمبر میں سیسہ پلائی دیوار کے اُس پار چھوڑ آتے ہیں ،جہاں آسمانی بلاؤں نے رنگ بکھیر رکھے ہیں۔
انصاف نامی عفریت کا سیاہ لبادہ اوڑھے ہماری سڑکوں پر قانون نافذ کرنے والے ادارے حصہ بقدر جثہ شابر بیگوں سے جیبوں اور پھر رات گئے تک خود بخود پہنچنے والے تبرکات کا بوجھ اٹھائے اگلے دن کی تیاریوں میں اپنے اِن خاندانوں کے ساتھ اچھا وقت گزارتے ہیں جنہوں نے بعد میں انہیں کندھا دیتے یا قبر میں اتارتے ہوئے صرف یہی کہنا ہوتا ہے کہ قرض خواہ ابھی بول اٹھیں تو بہتر ہے ورنہ شائد گھر پہنچنے تک قبر کا حساب ہو چکا ہو اور پھر ’چراغوں میں تیل ڈالنے ‘ کی ضرورت باقی نہ رہے۔
اربابِ کُشت و خون اور بست و کشاد دونوں اپنے اپنے مفادات کی حفاظت پر یوں معمور ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ دہائیوں میں شہدا عوام و سپاہی دشمن ملکوں سے آئے ’ایلینز‘ تھے جو اپنے انجام کو خود ہی پہنچ گئے۔ اس سب کے باوجود ہر بجٹ میں ہر باراعلان ہوتا تھا کہ اگلے پانچ سالوں میں جی۔ڈی۔پی کا چار سے پانچ فیصد تعلیم پر خرچ کریں گے۔ تاہم علاقہ ، جگہ ، قوم اور افراد کی تفصیلات کبھی سامنے نہیں آئیں کہ یہ اخراجات اشرافیہ کے ’پانچ فیصد‘ پر ملک سے باہر خرچ ہوگا یا اندر؟ یاپھر تعلیم کے نئے روشن و درخشاں’’ دانش مند‘‘ کھلنے والے ان اسکولوں، کالجوں پر جہاں بچوں کی تعلیم کا بنیادی معیار اخلاقی انحراف سے شروع ہوتے نصاب پر مبنی ہوگا۔
اب تو یہ درخشاں ’ دانشمند‘ اسکول بھی قصہِ پارینہ بن گئے ہیں، صدیوں نے لمحوں میں کروٹ بدل لی ہے جو بات تین برس پہلے ابتدائے عشق میں مائک کو مکے مارتے ہوئے جذباتی انداز میں کہی گئی ،وہ بات بکھرے خوابوں کی طرح معشوق کی زلف کا وہ بال بن گئی ہے جو کھانے کواب مکدّر ہی کر سکتا ہے۔ رہے مقتدر عُشاقِ دنیا ئے سیاست جو کہکشاؤں کی نئی دنیا دریافت کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے، انہوں نے جو کرنا تھا سو ہو چکا ۔ وقت کا سمندر اپنے جزیروں اور جوار بھاٹوں کو گود لئے دور کہیں اپنی’ آف شور‘ دنیا بسا چکا ہے۔
دیکھتے ہیں کہ ان بقیہ دو سالوں میں اب ہم کیا تیر چلاتے ہیں؟ پچھلے سب تیر تو ڈھیلی کمان سے نکلتے ہی اپنی راہ کھوٹی کر لیتے تھے اور پھر نزدیکی جھاڑیوں میں یوں جا گرتے تھے کہ جیسے سنگترے مالٹے اور دیگر پھلوں کے چھلکے، استعمال شدہ ہوا میں اڑتے شاپر ، ٹافیوں اور چپس کے ریپر اور کچرے کے دیگر ’ساز و سامان‘ وغیرہ سڑکوں کے دونوں اطراف میں پھیلے ہماری تاریخی و ثقافتی ورثہ کو حیات جاوداں بخش رہے ہیں۔ شاید اب جنازہ بھی یہی کندھے اٹھائیں گے جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے۔