جادو گَر، مقدس الفاظ پر دھندے ، کوہ قاف کے بُھوتنے اور تحفظ آدمیت
از، نصیر احمد
تاریک سایوں میں بے چہرہ بد روحیں استغفار پڑھتی گھنے اندھیرے کی ہولناک چادریں اوڑھے میری طرف دھیرے دھیرے بڑھ رہی ہیں۔ ان کی آہستہ روی میرا خوف بڑھا رہی ہے۔ وہ زیرِ لب مُقدس الفاظ دُہرا رہی ہیں اور ان کے ارد گرد مقدس الفاظ بہت اجنبی اور نا مانُوس لگتے ہیں۔ مقدس الفاظ جو کہ کبھی مجھ بے چاری لڑکی کا سہارا ہوتے تھے وہ ان بے چہرہ بد روحوں نے اِغوا کر لیے ہیں۔ وہ ان لڑکیوں کے خوفزدہ چہروں کی طرح ہو گئے ہیں، جنھیں کچھ دنوں پہلے ہزاروں مِیل دور انھی بد روحوں نے اٹھا لیا تھا اور ان کے جسم و جاں سے زندگی کھینچ لی تھی۔ یہ بد رُوحیں اب ہر جگہ مو جود ہیں، جس سے بھی جہاں بھی ملتی ہیں، اس سے زندگی چھین لیتی ہیں یا اپنی جیسی بے چہرہ بد روح بنا لیتی ہیں۔
وہ جو میری جان کا پیارا ہے، جس کا گَلّہ میں چَراتی تھی، جس کے تاکستانوں کی میں نگہبانی کرتی تھی، جس کی زلفیں کوّے سی کالی تھیں اور جس کا عشق مے سے لطیف تھا، وہ بھی ان بے چہرہ بد روحوں کا شکار بن گیا۔ میں نے اسے کل بَرگد کے پیڑ کے نیچے کھڑے دیکھا تھا، اس کی حیات بخش ہنسی اب وہ وحشت ناک قہقہہ بن گئی ہے جو موت کو بھی لرزا دے۔ جب وہ لڑتا تھا تو خون اس کے پنجوں پر گرتا تھا، اب سارے گھاؤ اس کی پیٹھ پر ہیں۔ وہ جب مسکراتا تھا، تو جیسے شمع جلتی تھی، اب اس کی مسکراہٹ میں افعی کا زہر بھرا ہے۔ کوہ و دَمن، دَشت و دریا اس کے حوصلوں کی وسعتوں کے باشندے تھے؛ اب وہ بھیڑیوں کی بھٹ میں چھپتا پھرتا ہے، اپنے بال نوچتا رہتا ہے اور زمین کھودتا رہتا ہے۔
جب بھی وہ بھٹ سے نکلتا ہے تو کسی بے بس لاچار، غریب، مسکین، بے نوا مسافر، یتیم، بیوہ، مسافر اور پردیسی کا خون پیتا ہے اور یہ بد روحیں اس کے ارد گرد موت کا وحشت ناک رقص کرتی ہیں۔ وائے جن لوگوں کی حفاظت کا ہم پر حکم تھا، ہم نے ان پر ہی ستم ڈھانا شروع کر دیا، جو حُسن و عزت کے تحفظ کا پیمان ہم نے باندھا تھا، اس سے ہی جبر اور زیادتی کے تصدیق نامے ہم نے حاصل کرنا اپنا شعار ٹھہرایا ہے۔ ہم نے نفع کی تلاش میں گھاٹے کا سودا کر لیا اور لگتا ہے گھاٹے کی اس پُر تعفّن گھاٹی میں ہم ہمیشہ رہیں گے۔ اب یہ بد روحیں میرے درپے ہیں کہ جو تھوڑی سی روشنی میں نے جو چھپا کی رکھی تھی، اس کو چھیننے آئی ہیں اور تھوڑی سی زندگی جو میں نے بچا کے رکھی تھی، اسے لوٹنے آئی ہیں اور تھوڑی سی ہنسی جو میں نے سجا کے رکھی تھی اسے غارت کرنے آئی ہیں۔
یہ بد روحیں کون ہیں؟ کہاں سے آئی ہیں؟ یہ روشنی کا قتل کیوں کرنا چاہتی ہیں، یہ زندگی کو ختم کیوں کرنا چاہتی ہیں؟ یہ راز میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں تا کہ آپ میرے بعد روشنی، زندگی اور ہنسی کے امین بنیں۔ آپ کے کندھے نازک سہی، آپ کسی گیسُو دراز کے گیسُو تراش ہی سہی، آپ کھیل کود، ناچ گانے کے رَسیا ہی سہی مگر آپ کو یہ بارِ امانت تو اٹھانا ہی پڑے گا۔ کیوں کہ آپ کی بہادری اور دلاوری میں ہماری بقا ہے۔
کچھ برس ہی گزرے ہیں، ہم جسے بہت دانش مند جانے تھے، اس کی بے وقوفی کے باعث ہمارے شہر پر ایک کانے جادو گر کا تسلط ہو گیا تھا۔ اس جادوگر کی پرورش توہین کی سیاہ کثافتوں نے کی تھی، توہین کے اس ماحول میں اسے توہین کو عبادت کا درجہ دینے والی ایک کتاب ملی، جسے کہتے ہیں چند لالچی اُچکّوں نے لکھا تھا اور جس کی نقلیں ہر شہر میں موجود تھیں۔ تمھیں تو پتا ہی ہے لفظوں میں چُھپے فساد کی جڑیں بہت ہی گہری ہوتی ہیں۔ اور اس کتاب کی ہولناکیوں نے آدھی دنیا کچھ عرصہ پہلے تباہ کر ڈالی تھی۔ جب کانے جادُو گر کو یہ کتاب ملی، اس نے لالچ، حِرص و ہوا، درندگی، بے ہودگی اور جہالت کے اس نسخے سے فائدہ اٹھانے کی ٹھانی۔ کچھ عرصہ توہین سہتے سہتے، سازشیں کرتے کرتے اس نے میرِ شہر کو قتل کروا کر شہر پر قبضہ کر لیا۔ اب جو توہین کی کثافتیں اس نے سَہِیں تھیں، اس نے مقصد ٹھہرا لیا کہ پورے شہر کی اس قدر توہین ہو کہ شہر توہین کی کثافتوں اور تذلیل کی غلاظتوں سے آلود ہو جائے۔
اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے اس نے کوہ قاف سے بہت سے بُھوتنے اور چڑُیلیں منگوائیں، ان کو زر کار قُبائیں اور سنہری عبائیں اوڑھائیں اور شہر پر جبر کا سِحر پُھونک دیا۔ ان بُھوتنوں اور چُڑیلوں نے سب سے پہلے شہر سے آ زادی چھین لی، شہر کی شہزادی زندان میں قید کر ڈالی۔ پھر شہر کے قانون کو شہریوں کی توہین کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ پھر شہریوں کے دین کو شہریوں پر تشدد کا ذریعہ بنا ڈالا۔ پھر شہریوں کے شعر و نغمہ کا اس قدر اِستِحصال کیا کہ شعر و نغمہ حسن و محبت کا اظہار کرنے کی بجائے نفرت اور بد صورتی کے مُقلد و مبلغ بن گئے۔ پھر اس نے شہریوں سے ان کی ذاتی آزادیاں اور ذاتی خوبیاں چھیننے کے لیے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کی تعلیم و تربیت شروع کرا دی۔ جس کے نتیجے میں دوستی کے دعوے کا مطلب دشمنی کرنا تھا۔ عاشقی کے گیت گاتے گاتے لوگ معشوقوں کا خون کرنے لگے۔ ہمدردی کرتے کرتے پیسے چرانے لگے۔ جو جس سے جتنا حسد کرتا، اس کی اتنی زیادہ تعریف کرتا لیکن اپنے ممدوح کی پیٹھ پر خنجر گھونپنے کا ہر وقت منتظر رہتا۔ ریشِ دراز عیب پوشی کے ہنر کی علامت بنی۔
پردہ داری بُرائیاں چھپانے کا ایک وسیلہ بنی۔ بس نیکی اور اچھائی کا ایک پردہ سا تَن گیا، جس کے پیچھے گھاتیں لگی ہوئی تھی اور زندگی چوری چھپے خنجر زنی کا ایک اکھاڑہ بن گئی۔ ہر نئے دن نفرتیں، عداوتیں اور شقاوتیں بڑھتی گئیں۔ محبتوں اور دوستیوں کی روزانہ توہین و تدفین اور تذلیل ہوتی رہی۔ سَرِ بازار قتل ہوتے تو مقتول کی رُسوائی کے تماشائی تو بہت ہوتے مگر قاتلوں کو روکنے کی کسی میں ہمت نہیں رہی۔ بلاد کار ہوتے تو پنڈت پوتھیاں اٹھا لاتے اور جس کا بلاد کار ہوتا، اس کے آنسو نہ پونچھتے بَل کِہ اس کو بے حیائی اور فحاشی کے جرم میں سنگ سار کرنے کی سزائیں دینے کی باتیں کرتے۔
ظلم و زیادتی کا شکار لڑکیاں ظالموں کے سامنے سر جھکا دیتیں اور اپنے محبوبوں پر سنگ باری کرتیں اور اس بے رحمی پر انھیں کوئی دکھ نہیں ہوتا، کوئی ملال کوئی تاسُّف نہ ہوتا۔ مقدس اوراق کے نام پر لوگ ستم کا کاروبار کرتے، دوزخ کے نام پر کپکپی طاری کر لیتے لیکن معصوم لوگوں کے قتل کو ثواب جانتے۔
مزید دیکھیے: ہندو مائتھالوجی میں عورت کا حسن از، ڈاکٹر کوثر محمود
شہزادی سمیت سب مُصلحین کے ماضی، حال، مستقبل اتنا داغ دار ہو گیا تھا کہ جادو گر کے مرنے کے بعد بھی جو بھی شہر سنبھالنے کی سَعی کرتا، تو اس کے دامن کی طرف انگلیاں اٹھ جاتیں، دن رات جادو گر کی ناجائز اولاد، یہ سب بد رُوحیں اس کا گھیراؤ کر لیتیں، کبھی کتوں کی طرح اس پر بھونکتیں اور بھیڑیوں کی طرح اس پر دانت نِکوستیں۔ اس آفت میں صالِحِین اپنا دامن، اپنی جان بچاتے کہ شہر کی حفاظت کرتے۔
لیکن شہزادی کہ ایک دلاور باپ کی بیٹی تھی، اس نے ہمت نہیں ہاری۔ شہر کو ان بد روحوں سے بچانے کا ایک ایسا نسخہ ایجاد کر گئی کہ اس نسخے سے وفا داری میں شہر کی بقا ہے۔ وہ نسخہ میں آپ کو بتائے دیتی ہوں۔
شہزادی اس نسخے کے بدلے اپنی جان ہار گئی لیکن اگر آپ ہمت کریں اور یہ بارِ امانت اٹھائیں تو شہر کو آپ ان بد روحوں کے تسلط سے آزاد کروا سکتے ہیں۔ وہ نسخہ کچھ یوں ہے کہ اپنے چُنے ہوئے آدمی سے خوب جی بھر کر اختلاف کریں لیکن اس کے چُناؤ کا احترام کریں۔
مقدس الفاظ کو جادو گروں سے قبضے سے چھڑانے کی پوری کوشش کریں۔ جو قانون نے متعین کر لیا ہے، اس سے تجاوز مت کریں۔ جو قوانین انسانیت کی توہین کرتے ہیں، ان قوانین کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ انسانی برابری پر سمجھوتے مت کریں۔ اور جب بھی کوہ قاف سے بد روحیں حملہ کریں، سارے مل کر اپنے قانون، اپنی جمہوریت، اپنی انسانیت کی حفاظت کریں۔
آپ یہ پیغام محفوظ رکھیں میں اب اور ان بد روحوں سے نہیں لڑ سکتی۔ میں اپنی زندگی خود ہی کھینچ کر ختم کر دیتی ہوں، اپنی روشنی خود ہی گُل کر دیتی ہوں مگر اب روشنی اور زندگی کے آپ امانت دار ہیں اور ان کی حفاظت آخری لمحے تک کریں۔