(معصوم رضوی)
پاکستان میں دوعہدے اعزازی ہوتے ہیں وزیر دفاع اور شوہر، آخرالذکر اپنی حیثیت سے بخوبی وافف ہے۔ وزیر دفاع پاکستان کی تاریخ کے فضل الہیٰوں، تارڑوں اور ممنونین سے زیادہ مظلوم رہا ہے۔ کیونکہ تینوں بزرگان مملکت ایوان کی حدود میں حسب استطاعت آزادانہ نقل و حرکت کے مجاز رہے۔ معاملہ یہاں تک رہتا تو کوئی بات نہیں مگر تاریخ میں ایسے مقامات آہ و فغان بھی ملتے ہیں جہاں بسا اوقات بیچارہ شوہر بھی وزیر دفاع سے کہیں زیادہ زیادہ معزز و معتبر نظر آتا ہے۔
کوئی نہیں سوچتا کہ بظاہر پروقار اور با اختیار نظر آنے والا شوہر درون خانہ مظلومیت کا شاہکار ہے۔ آخر کو مرد ہے رو بھی نہیں سکتا اور بچی کھچی عزت کی خاطر کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا۔ فیصلے الٹے ہوں، یا سیدھے منظوری بھی دیتا ہے اور دنیا کے سامنے اہلیائی فیصلوں کا مسکرا کر دفاع بھی کرتا ہے۔ لیکن شوہر کو وزیر دفاع پر اس لحاظ سے برتری حاصل ہے کہ گھر میں بیشک بےعزتی کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو باہر مجازی خدا کی عزت اور وقار بہرطور قابل دید ہوتا ہے۔ برا نہ مانیں تو یوں جانیں کہ حکومت کے نزدیک دفاعی معاملات پر جمہوریت کا حسن بس دور سے دیکھنے کی چیز ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت جمہوری ہو یا فوجی، وزارت دفاع ان اثرات سے بالاتر ہے۔ فوج کے آتے ہی تمام وزارتیں بیشک بے اختیار ہو جائیں مگر وزارت دفاع پر فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ فوج بھی اعزازی عہدوں کو بے ضرر سمجھتی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ جہاں اعلیٰ ترین قیادت کے پر جلتے ہوں تو بیچارا وزیر کس کھیت کی مولی ہے۔ بس یوں سمجھیں کہ وزارت دفاع ایوب خانی دور میں ہی اختیارات سے رضاکارانہ طور پر سبکدوش ہو کر درویشی اختیار کر چکی ہے۔
سانحہ کچھ یوں ہوا کہ 17 جنوری 1951 کو متعدد ٹھوس تحفظات کے باوجود جنرل ایوب خان فوج کے کمانڈر انچیف بنے تو دھندلے خواب واضح ہونے لگے۔ حسب روایت تعبیر کیلئے دو سیاسی ساتھی بھی میسر آ گئے۔ اس وقت کے سربراہ مملکت گورنر جنرل غلام محمد اور سکریٹری دفاع اسکندر مرزا کیساتھ یہ ٹرائیکا سیاستدانوں کے خلاف سرگرم ہوا۔ پھر اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہوا کہ کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو ہی وزیر دفاع مقرر کر دیا گیا۔ گویا خود ہی حاکم خود ہی محکوم، ایک نئی تاریخ رقم کی گئی۔ پھر اس کے بعد ایوب خان نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ 1954 میں وزیر دفاع بنے اور 1958 میں پہلے فوجی انقلاب کے بانی، ایوب خان پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا باب ہیں جنہوں نے متعدد نایاب اولین روایات رقم کی ہیں۔ پاکستان کے پہلے مقامی فوجی سربراہ، پہلی بار بیک وقت فوجی سربراہ اور وزیر دفاع کا عہدہ رکھنے والے (شاید یہ نایاب ریکارڈ تو عالمی تاریخ کا حصہ ہو)، پہلے فوجی قابض و آمر، پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، پہلے فیلڈ مارشل (یعنی فائیو اسٹار جنرل)، پاکستان کے پہلے فوجی وزیر اعظم، پہلے فوجی صدر، یوں ہری پور کے قریبی گائوں ریحانہ کے رسالدار میجر میر داد خان کے بیٹے ایوب خان پورے گیارہ سال ملک کی نوزائیدہ جمہوری روایات کو بوٹوں تلے روندتے رہے اور 1969 میں جب ملک گیر مظاہرے ہوئے تو ایوب خان عسکری اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے دیانتداری کے ساتھ سجی سجائی اندرسبھا فوجی جانشین جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر کے واپس ریحانہ جا بسے۔
داستان سنانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ دن ہے اور آج کا دن، پھر کوئی بھی سیاسی وزیر دفاع با اختیارنہ ہو سکا۔ حتیٰ کہ عوام کا نمائندہ اور رکن پارلیمنٹ ہونے کے باوجود بیچارا اپنے سکریٹری کا انتخاب کرنے کا بھی مجاز نہیں۔ دور جتنا جمہوری ہوتا ہے وزیر دفاع انتا ہی نمائشی ہوتا ہے۔ خواجہ آصف سے پہلے پیپلز پارٹی کے دور میں نوید قمر اور احمد مختار اعزازی عہدے پر براجمان رہے۔ اس سے پہلے راؤ سکندر اقبال، شاہد حامد، آفتاب شعبان میرانی، محمود ہارون، میر علی احمد تالپور سمیت متعدد سیاسی اکابرین جذبہ ایمانی سے یہ مقدس فریضہ انجام دے چکے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ تمام وزیر دفاع صاحبان نے نہایت نیک نیتی اور صابرانہ محنت شاقہ سے اس اعزاز کا حق ادا کیا۔ نہ پہلے کسی نے اختیارات کی بات کی نہ اب کوئی کر رہا ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ!
وزارت دفاع اہم وزارت ہے، ٹھاٹ باٹھ بھی پورے ہوتے ہیں، اگر کبھی بھولے بھٹکے بلاوا آ جائے تو پورے طمطراق سلامی بھی لی جاتی ہے۔ صرف اختیارات ہی تو سب کچھ نہیں ہوتے۔ آخر نہ ہونے سے کون سے کام رک جاتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو کئی وزیر اعظم تک اختیارات سے اتنے ہی فاصلے پر رہے جتنا کہ وزیر دفاع فوج سے رہتا ہے۔ اللہ جانے فوجی تو کیا کچھ سوچتے ہونگے مگر وزیر تو بہرحال وزیر ہی ہوتا ہے ناں اور وہ بھی وفاق کا، تو کبھی کبھار اس وزیر کو بھی جلال آ جاتا ہے اور جب فوج بیان دیکر فارغ ہو جاتی ہے تو ایک آدھ روز بعد تمام جانب کنکھیوں سے دیکھ بھال اور معززانہ کنکھار کے بعد ایسا دھواں دھار بیان داغتا ہے کہ پورا ملک عش عش کرتا پھرتا ہے۔
خیر وزیر دفاع اور حکومت کو تو چھوڑیں ملک عزیز میں تو اپوزیشن بھی ہر ہر مرحلے پر فوج کی جانب دیکھتی ہے، پانامہ لیکس یو یا دھرنا، کرپشن ہو یا انتخابی دھاندلی نجانے جمہوری قائدین کو فوج ہی کیوں یاد آتی ہے، صرف اتنا ہی نہیں کہیں فرشتے بینر لگا جاتے ہیں تو کہیں اعزازی خادمین فوج کو حکومت سنبھالنے کے مشورے دیتے نظر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ تاجر اور دکاندار بھی مظاہروں میں حسب توفیق تصویریں اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر فوج کو رحمت اور حکومت کو زحمت قرار دیتے ہیں۔ اب صرف یہ رہ گیا ہے کہ محلے میں نصیبن اور کریمن کے درمیان صلح صفائی کیلئے بھی فوج کی مدد طلب کی جائے۔ فوج نہ ہوئی ٹی وی پر بیٹھا سینئر تجزیہ کار ہو گیا جس کے پاس دنیا کے ہر نوع و نسل کے مسئلے کا بقراطی حل موجود ہوتا ہے۔
شرم کرو، حیا کرو والے وزیر دفاع بیچارے کریں بھی تو کیا کریں۔ حالانکہ خواجہ صفدر کے فرزند ارجمند ہیں، وہی خواجہ صفدر جو جنرل ضیاالحق کے دست راست تھے اور جنہوں نے آئی ایس آئی کے ساتھ ملکر مجلس شوریٰ کی تشکیل دی۔ پھر صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پہلی مجلس شوریٰ کے چیئرمین ہی نہیں بنے بلکہ نجانے کتنی بار جنرل ضیاالحق کی غیر موجودگی میں قائمقام صدر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔
تو جناب ایمان کی بات کریں کیا اب بھی آپ کو شوہر زیادہ با اختیار نہیں لگتا۔ ممکن ہے کچھ زوجہ گزیدہ شوہر اس موقف سے اتفاق نہ کریں تو معذرت چاہتا ہوں، وہ کہتے ہیں نہ گھائل کا دکھ گھائل جانے اور نجانے کوئی، تو ہر شریف آدمی کو بیوی اور برے وقت سے بیک وقت ڈرنا چاہیئے، دکھی شوہر برادری کیلئے ایک مجرب مشورہ حاضر ہے جب کبھی درد حد سے بڑھ جائے تو بس ایک بار وزیر دفاع کی جانب دیکھ لیا کریں۔