اپنے ہی شہر میں ہوٹل کا کمرہ نہیں ملے گا

Naeem Baig

اپنے ہی شہر میں ہوٹل کا کمرہ نہیں ملے گا

از، نعیم بیگ

آج اتفاق سے اخبار کے مطالعے کے دوران ایک چھوٹی سی خبر نے مجھے روک لیا۔ اخبار جنگ لاہور 21 مارچ کی ایک کالمی سرخی “اپنے ہی شہر میں ہوٹل کا کمرہ نہیں ملے گا۔” تفصیل اس اِجمال کی یہ کہ اب کوئی شخص اپنے شہر میں قائم ہوٹل یا گیسٹ ہاؤس میں کمرہ نہیں لے سکے گا۔ پنجاب پولیس نے اس ضمن میں نئے ضوابط کار طے کر دیے ہیں۔

سوال یہ کہ جرائم کی روک تھام کے لیے سرکارِ مدار کے پاس آخری حربہ یہی کیوں رہ جاتا ہے کہ اگر کوئی جرم ہو رہا ہے تو بجائے مجرم کو جرم سے روکنے کے قانون میں پکڑے جانے یا جرم ہونے کے بعد قانونی ضابطوں کے تحت سزا دی جانے کے، سرے سے وہ کام ہی بند کر دیا جائے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ بہترین حل ہے کہ انسانی جرم کو روکنے کے لیے انسان ہی کو ختم کر دیا جائے، جرم خود بخود ختم ہوجائے گا۔

یہ بات ممکن ہے یوں سمجھ نہ آئے، راقم کچھ تفصیل عرض کرتا ہے۔ چند برس پہلے اس شہر نا پرسان لاہور میں احقر پیدائش سے بسنت مناتا آ رہا ہے۔ کبھی چھوٹا موٹا کوٹھوں سے پتنگ لوٹتے وقت کوئی بچہ گر گیا یا کوئی اور حادثہ ہو گیا تو الگ بات۔ اِس بسنتی عمل میں خوشیاں تھیں، جو میلہ ٹھیلا تھا، محبتیں تھیں، لوگوں کے ملنے جلنے سے سماجی برائیوں پر قابو پایا جاتا تھا اور ایک ایسے معاشرے کی نشونما اور بنیادیں مضبوط ہوتی تھیں جو امن، سکون، پیار و شانتی پر مبنی تھا، لیکن جرم نہیں ہوتا تھا۔ پھر یار لوگوں نے تندی یا دھاتی ڈور ایجاد کر لی اور جانی حادثات بڑھ گئے۔ اب معتلقہ سرکاری محکموں نے اس تندی یا دھاتی کیمیکل ڈور کو بند کرنے کی بجائے سرے سے بسنت ہی بند کردی۔صاف ظاہر ہے کہ متعلقہ ادارے اپنی نااہلی کی وجہ سے اس جرم کو روک نہیں سکے۔ وجہ کوئی بھی ہو راقم کو اِس سے سر و کار نہیں۔

پچھلی حکومت میں لاہور میں ایک میوزک کنسرٹ ختم ہونے پر تنگ خارجی دروازوں کی وجہ سے نکلتے ہوئے دو لڑکیاں کچلی گئیں۔ وجہ یہ تھی کہ کنسرٹ ختم ہونے پر داخلی بڑے گیٹ بند تھے اور نکلنے کے لیے چھوٹا دروازہ کھولا گیا، جس میں بیک وقت ہجوم کا نکلنا ناممکن تھا۔ یہ بات ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ داخلی آمد رفتہ رفتہ ہوتی ہے اور پروگرام کے ختم ہونے پر اخراج بیکوقت ہوتا ہے۔اب یہ انتظام مقامی پولیس و سیکورٹی انتظامیہ کے حوالے تھا، جنھوں نے بالکل الٹ کیا۔ اب بجائے اس کے حادثہ کے ذمہ داروں کو سزا دی جاتی۔ ہمیشہ کے لیے ایک شاہی حکمنامہ کے تحت میوزک کنسرٹ پورے پنجاب میں بند کر دیے گئے، جو شاید آج بھی بند ہیں۔ ان دونوں معاملات میں جو بات نمایاں ہے کہ کاروبار حکومت دراصل سرکاری افسران چلاتے ہیں۔ اوپر حکومت کوئی بھی ہو ان افسران کی ذہنی اپج اسی تسلسل کا نمایاں اظہار ہوتا ہے۔

جب کبھی شہروں میں سیکورٹی معاملات درپیش آتے ہیں۔ موٹر سائکل ڈبل سواری بند کر دی جاتی ہے۔ شہری حقوق سے انحراف۔

جب کبھی شہری حالات کنٹرول میں نہ آتے ہوں موبائل فون، انٹرنیٹ، ٹی وی اور دیگر معلومات کے ذرائع بند کر دیے جاتے ہیں۔ شہری حقوق سے انکار، وہ بھی ایسے جس سروس کی ادائیگی وصول کی جاتی ہے۔ بھئی آخر یہ کیوں؟۔۔۔ آپ اپنی پروفیشنل نااہلی و جرم کو روکنے کی نالائقی کو چھپانے کے لیے غیر قانونی اقدامات کیوں کرتے ہیں؟ کیا اس کی کوئی مثال دنیا بھر میں ہے۔

احقر ایسی کئی ایک دیگر امثال بھی پیش کر سکتا ہے،جن سے ماضی میں حکومتی اہل کاروں یا پولیس/ سیکورٹی اداروں کی اَن پروفیشنل سوچ کی بنیاد پر شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کیا گیا۔ اس ضمن میں اہم بات یہ کہ ایسے شہری قانون اور ضوابط یا تو شہری بلدیاتی ادارے اپنی اسمبلیوں میں پاس کرتے ہیں یا پھر صوبائی حکومتیں اپنی اسمبلیوں میں ان شہری معاملات پر گفتگو کریں اور بعد از مکالمہ ایسی پابندیاں لگائی جائیں۔ یہ کیون کر ممکن ہے کہ ایک وزیر/ مشیر یا کوئی بیس/ اکیس گریڈ کا افسر اپنی ناقص سوچ کو قانون کی حیثیت دے اور پورے شہری معاشرے پر لاگو کردے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ جمہوریت ہے؟ کیا جمہوری حکومتوں میں قانون سازی افسران بالا کرتے ہیں یا عوامی نمائندے؟

ہو سکتا ہے کہ کچھ ریڈیکل قارئین کو میری سوچ سے اتفاق نہ ہو، لیکن عرض داشت کا واضح مطلب دو اہم پہلوؤں کی طرف توجہ دلانا ہے۔ اولاً کہ جمہوری حکومتوں میں کسی بھی قانون سازی میں قانون ساز ادارے بعد از مکالمہ/ ڈیبیٹ اپنا فرض ادا کرتے ہیں اور متعلقہ قانون کے اچھے بڑے پہلوؤں پر سیر حاصل بحث ہوتی ہے پھر ایک متفقہ طور پر قانون نافذ کیا جاتا ہے۔ لیکن کسی قیمت پر سرکاری اہلکاروں یا وزیروں/ مشیروں کو یک طرفہ پر یہ اختیار حاصل نہیں دیا جا سکتا کہ وہ من مانے قانون بنائیں۔ ثانیاً رولز آف بزنس کے لیے انسانی حقوق کی پامالی کسی قیمت پر متاثر ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ مندرجہ بالا خبر میں اِن دونوں اہم پہلوؤں کی طرف توجہ نہ دی گئی ہے۔ اِس متذکرہ فیصلے میں ان دونوں پہلوؤں سے انحراف برتا گیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ فیصلہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

مجھے اس سے کوئی غرض نہیں، کہ کون ان فیصلوں سے افادہ حاصل کرتا ہے یا اِن فیصلوں سے ذاتی طور پر متاثر ہوتا ہے، لیکن ایک ادیب کی حیثیت سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ پریکٹس احسن نہیں، اس سے معاشرے کمزور اور یک طرفہ طور پر ریڈیکلائز اور متشدد ہوتے ہیں، جِس کے خلاف ہم آج ہم جنگ کر رہے ہیں۔ خدا را معاشرے کو سپیس دیں، لوگوں کو بلا وجہ محرومیت کا شکار نہ ہونے دیں۔ ہوٹلوں یا گیسٹ ہاوسسز میں صرف ایک ہی مقصد کے لیے نہیں جایا جاتا۔ اس سوچ کو ذہن سے نکالا جائے۔ یہ منہ سونگھنے اور گیسٹ ہاؤسسز پر پابندیاں لگا کر حکومتی پالیسی کے تحت اندرونِ ملک غیر ملکی سیاحت کو فروغ نہیں دیا جا سکتا۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔