گند صاف کرنے کی پھلجڑیاں
تنویر احمد
اندرونی محاذ پر بلاشبہ ہمیں معاشرے کو تطہیر کرنے کی جتنی ضرورت ہے آج ہے اس سے پہلے شاید کبھی نہ تھی۔ عشروں سے تزویراتی گہرائی اور اثاثوں کے نام پر ہماری گردنوں لدے مسلح جتھے اور جہادی گروہ ہمارے سماجی تاروپود کو بگاڑنے کے لیے جس قدر مہلک ہیں اس کے مقابلے میں بیرونی خطرات اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ گزشتہ دو تین عشروں میں ہمیں کسی بیرونی دشمن کے مقابلے میں ان مسلح جتھوں اور گروہوں نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا جو افغان جہاد کے دوران اور اس کے بعد اس ملک میں سرگرم رہے۔
فقط اس صدی کی شروعات سے لے کر پاکستان میں جانی و مالی نقصانات کے تخمینوں کا جائزہ لیا جائے تو کئی سو ارب ڈالر کے مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ پچاس ہزار سے زائد انسانی جانوں کا ضیاع ایک ایسا ناقابل تلافی نقصان ہے جس نے کئی گھروں کے چراغ گل کر دیے۔ یہ گھاٹے کا سودا تھا جو ہم نے خود خریدا۔ اول تو افغان جہاد کے نام پر پرائی جنگ کو اپنے گھر کی راہ دکھانا ہی سب سے بڑی عاقبت نا اندیشی تھی جس کا ارتکاب اس وقت کے ہمارے دفاعی بزر جمہروں نے بین الاقوامی سطح پر ڈیزائن کردہ ایک گریٹ گیم کا حصہ بن کرکیا تھا اور پھر ان مسلح گروہوں کو پراکسیز کے طور پر زندہ رکھ کر خطے میں طویل المدتی عزائم کی تکمیل کی ایک نابکار کوشش تھی جس کے مضمرات خطے سے زیادہ ہمارے ملکی وجود کے لیے منفی ٹھہرے۔
خطے سے زیادہ ہمارے اپنے وجود کی بقا اور سلامتی کے لیے اسے مسلح جتھوں اور گروپوں کی بیخ کنی ہماری ترجیحات میں سر فہرست ہونی چاہیے۔ اس فریضے کی انجام دہی کے لیے سول حکومت اور ملٹری ہیئت مقتدرہ کو باہم مشاور ت سے پالیسی اور حکمت عملی وضع کرنی ہو گی تاکہ پاکستان کی سرزمین سے ایسے عناصر کی بیخ کنی کی جا سکے جو نا صرف اندرونی طور پر بلکہ خطے میں آتشیں صورت حال کو جنم دینے کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں۔
اندرونی محاذ پر اس نیک کام کی انجام دہی کے لیے سویلین حکومت اور فوج کے ادارے کو خاموشی سے کام کرنا ہوگا نا کہ موجودہ حکومت کے وزرائے کرام کی طرح جو ببانگ دہل ایسے بیانات دیتے پھر رہے ہیں کہ ہمیں پہلے اپنے گھر کی گند صاف کرنا ہو گی۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کو جو بیان داغا اس کی تائید کرتے ہوئے وزیر داخلہ احسن اقبال نے بھی کچھ اس قسم کا ارشاد فرمایا کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہوگا۔
ان معزز وزرائے کرام سے دست بستہ گذارش ہے کہ اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کی ان کی فلاسفی سے کسی ذی شعور اور ذی عقل پاکستانی کو انکار نہیں لیکن گھر میں موجود گند کا دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹنا کہاں کی دانشمندی ٹھہری۔ بین الاقوامی فورمز پر آپ کو پاکستان کا کیس لڑنا ہے یا اسے بگاڑنے کا آپ نے قصد کر رکھا ہے۔ گھر میں موجود گند کو صاف کرنے کا یہ کونسا طریقہ اور قرینہ ہے جو وزرائے کرام نے اپنایا رکھا ہے۔خارجہ پالیسی کا محاذ نزاکتوں اور حساسیت کی بارودی سرنگوں سے پر ہوتا ہے جس پر پھونک پھونک کا قدم رکھنا ہوتا ہے۔
دنیا میں اپنا موقف منوانے کے لیے اپنی اندرونی کمزوریوں کو یوں آشکار نہیں کیا جاتا بلکہ معقولیت کے دامن کو مضبوطی سے تھامنا ہوتا ہے۔ خواجہ آصف کو کوئی بتلائے کہ جناب والا! یہ سیالکو ٹ میں برپا ہونے والا کوئی سیاسی جلسہ نہیں کہ جہاں آپ بلا سوچے سمجھے کوئی بیان داغ دیں یا نواز لیگی متوالوں کو ہنسانے کے لیے کوئی بھی جگت اپنی پٹاری سے نکال لیں۔ یہ خارجہ پالیسی کا محاذ ہے جہاں زبان کی ذرا سی پھسلن اور اس سے نکلا ہوا ایک غیر محتا ط لفظ پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرنے کا موجب ٹھہر سکتا ہے۔
خواجہ آصف اور دوسرے وزراء اگر گھر میں موجود گند کے بارے میں اتنے ہی حساس ہیں تو پھر پہل کریں اور اس گند کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں نا کہ بین الاقوامی فورمز پر اس گند کا ڈھنڈورا پیٹ کر پاکستان کا کیس خراب کرتے پھریں۔ اس حکومت کے دور میں ایک نیشنل ایکشن پلان بنا تھا جس میں دہشت گردی کے ساتھ ساتھ معاشرے میں پنپنے والے انتہا پسندانہ رجحانات کی بیخ کنی کے اقدامات کے لیے بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے۔ فاٹا، کراچی اور ملک کے دوسرے حصو ں میں دہشت گردوں کے خلاف تو کارروائی عمل میں لائی گئی تاہم انتہا پسندانہ رجحانات اور کالعدم تنظیموں کے خلاف نواز لیگ کی حکومت کس ثابت قدمی سے لڑی اس کے تذکرے سے حکومت کے لیے سوائے شرمساری اور شرمندگی کے کچھ بر آمد نہیں ہوگا۔
اس ملک میں پڑھایا جانے والا نصاب کسی نو ع کی تشکیک، تحقیق یا ایجاد کی طرف سے دل اچاٹ کر کے انہیں انتہا پسندانہ رویوں کی طرح کس طرح دھکیلتا ہے وہ اس ملک میں پائی جانے والی انتہا پسندی سے آشکار ہے۔ اس باب میں میں حکومت نے کیا کیا؟ کالعدم تنظیموں پر کلی طور پر پابندی عائد کر کے ان کی سرگرمیوں کو تعزیر اور تادیب کے دائرے میں لایا جائے گا اس محاذ پر حکومت نے کامیابی کے کن موتیوں سے اپنے دامن کو سجایا ہے کہ یکلخت اسے بین الاقوامی سطح پر ملک میں موجود گند صاف کرنے کا مروڑ اٹھا۔
ملک میں مذہبی منافرت پر مبنی تقاریر اور لٹریچر کی بندش کے باب میں کون سی کامیابی آپ کے قدموں کو چوم رہی ہے کہ آپ دنیا کو بتا سکیں کہ ہم نے یہ کارنامہ کر دکھایا۔ مذہبی مدارس میں اصلاحات تو خیر آپ جیسوں کے بس کی بات نہیں کہ آپ اس انتہائی اہم نوعیت کے کام کو سر انجام دینے کے لیے تندہی اور جانفشانی سے جت جاتے کہ ان مدارس کو جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے ان سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء کو اکیسیویں صدی میں پیداواری معیشت کی مشینری کا کارآمد پرزہ بنایا جا سکتا۔
یہ فقط چند نکات ہیں اس نیشنل ایکشن پلان کے جو ملک میں موجود گند صاف کرنے کے لیے آپ ہی کی حکومت نے بڑے تزک و احتشام سے ملکی پارلیمان سے منظور کروایا تھا لیکن اس پر عمل درآمد ہنوزدلی دور است۔ وزرائے کرام کے سر میں اگر ملک میں موجود گند صاف کرنے کا سودا سمایا ہی ہے تو پھر بسم اللہ کریں نیشنل ایکشن پلان پر کلی عمل در آمد کر کے معاشرے کو انتہا پسندانہ رجحانات اور کالعدم تنظیموں سے چھٹکارا دلائیں جو ملک میں گند پھیلانے کے لیے کلی طور پر آزاد ہیں نا کہ بین الاقوامی سطح پر پھلجڑیاں چھوڑ کر اپنی ذمہ داری سے عہد ہ بر آ ہونے کی خام خیالی کو دل میں بسا لیں۔