(حسن جعفر زیدی)
اس مضمون کا دوسرا اور آخری حصہ یہاں پر کلک کرکے پڑھا جا سکتا ہے۔
تاریخ نویسی کے بارے میں بہت سی باتیں کہی جا سکتی ہیں۔ قدیم داستان گوئی سے لے کر مذہبی اور الہامی کتابوں تک کو انسان کے ابتدائی تاریخی مآخذ قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ بائبل کا عہد نامہ عتیق و جدید ہو یا رامائن اور مہا بھارت یا قرآن مجید، ان میں روایات و حکایات کو خیر اور شر کی قوتوں کے مابین ٹکراؤ کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ اور ان سے سبق لینے اور ہدایت پانے کی باتیں کی گئی ہیں۔ گویا تاریخ نویسی کا آغاز خیر اور شر کی جدلیات کے بیان سے ہوا جسے انسان کے حال اور مستقبل کی بہتری کے لیے ہدایت پانے کا ذریعہ بتایا گیا۔
معروف معنوں میں تاریخ نویسی کا آغاز یونانیوں اوررومیوں نے کیا۔ ھیروڈوٹس جسے تاریخ نویسی کا باواآدم کہا جاتا ہے اوردیو جانس ، پلوٹارک اور جوزفس باقاعدہ تاریخ نویسی کے بانی کہے جا سکتے ہیں۔ قدیم تاریخ نویسی حکمران خاندانوں کے بارے میں روایات و حکایات کو یکجا کرنے کا کام تھا۔ یہ ان علاقوں کی بات تھی جہاں زرعی انقلاب ہو چکے تھے ۔زرعی معاشروں نے وافر دولت پیدا کرکے باقاعدہ ریاست کی صورت اختیار کرلی تھی۔ مگر وہ علاقے جہاں بیاباں جنگل اور ریگستان تھے اور وافر دولت نے جنم نہیں لیا تھا وہاں معاشرے قبائلی تھے اور ریاست وجود میں نہیں آتی تھی۔ وہاں قبائل کے حسب نسب، باہمی لڑائیاں اور عشقیہ داستانیں منظوم قصوں کی شکل میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوا کرتی تھیں اور یہی ان کی تاریخ کہی جا سکتی تھی۔
سلطنتوں کے باہمی جنگ وجدال، حکمرانوں کی رقابتیں واقتدار کی رسہ کشی، محلاتی سازشیں اور قتل و غارت گری کی حکایات و روایات کو یکجا کرنے کے کام میں ان قدیم مورخین کا عقیدہ اور تعصب ضرور اثر انداز ہوتا تھا لیکن وہ زیادہ سے زیادہ واقعات کو قلمبند کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان میں حکمرانوں کا ذکر زیادہ اور رعیت یا عوام کا ذکرکم ہوتا تھا ۔تاہم وہ کسی نظریہ سازی کا کام نہیں کرتے تھے۔ واقعات من و عن بیان کرنے کی کوشش کرتے تھے۔اس سے یونانیوں، ایرانیوں، مصریوں اور رومیوں، اسیر یوں اور نبطیوں ہندوستانیوں اور چینیوں کی قدیم تہذیبوں کے ارتقا کی تاریخ قلمبند ہو گئی جو بعد میں آنے والوں کے لیے اخبار کے مآخذ کی طرح کارآمدثابت ہوئی۔
یونانی اور رومی مؤرخین کے بعد مسلمان مؤرخین بھی اسی روایت پر کاربند رہے۔ اگرچہ انہوں نے ان علاقوں کی تاریخ قلمبند کی جہاں مسلمان حکمران رہے لیکن مسلمانوں سے پیشتر عجم، یونان، مصر اور ہندوستان کے غیر مسلم حکمرانوں کا بھی مختصر تذکرہ شامل کیا۔ ان کی تواریخ ہمارے آج کے مورخین کی و ضع کردہ تاریخ کی طرح محمد بن قاسم یا طارق بن زیاد سے شروع نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ اس سے پیشتر کی مختصر تاریخ بھی بیان کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی تواریخ کے عنوانات میں اسلام یا مسلمان کی اضافت بھی استعمال نہیں کی بلکہ ان کے عنوانات بالکل سیکولر نوعیت کے ہیں۔ طبری، بلاذری، مسعودی، واقدی، ابن سعد، ابن اثیر، ابوالفدا ابن کثیر، ابن مسکویہ، علامہ مقری اور ابن خلدون تک کسی نے اپنی تصنیف کے عنوان کو اسلام سے مسلک نہیں کیا۔ اسی طرح اُس زمانے کے ہندوستان کے مسلمان مورخین کی تصانیف یا تو ان مورخین کے ناموں سے موسوم ہو گئیں یا ان کے ہم عصر بادشاہوں کے ناموں سے موسوم ہوئیں۔ مگر کسی کی تصنیف اسلام کی اضافت کے ساتھ موسوم نہیں ہوئی۔
قرون وسطیٰ کے مسلمان مؤرخین نے مسلمان حکمران طبقات کی باہمی سیاسی کشمکش، سیاسی رقابت، قتل و غارت اور استبدادیت، عیاشی، شراب نوشی، لواطت و دیگر شرعی عیوب بے لاگ ہو کر لکھ ڈالے ہیں، اور کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ انہوں نے اسلام کے عہد زریں پر کیچڑ اُچھالا یا کردار کشی کی ہے یا ان کی تحریریں خلاف اسلام ہیں۔ انہوں نے دراصل بے لاگ تاریخ لکھی ہے اور جو کچھ ہوا یا ان کے علم میں آیا وہ انہوں نے بلاروک ٹوک لکھ دیا۔ چونکہ اس وقت کی ہم عصر سیاست اور خلاقیات میں وہ سب کچھ جائز اور روا سمجھا جاتا تھا جو اسبتداد کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے اور اسے مستحکم کرنے کے لیے کیا جاتا تھا، اس لیے یہ مورخین ان حقائق کے بیان پر کوئی معذرت خواہانہ رویہ بھی اختیار نہیں کرتے تھے۔ دراصل دنیا کی ہم عصر مروجہ اخلاقیات کسی دوسرے سیاسی یا اخلاقی نظام سے واقف ہی نہیں تھی۔ علمائے دین ان حکمرانوں کے نام کا خطبہ پڑھتے تھے اور ان کی اطاعت اور احترام کو واجب گردانتے تھے۔ بادشاہ ان کو وظیفہ، تنخواہیں اور انعامات دیتے تھے۔ عدلیہ اور تدریس کے شعبے انہی علمائے دین کے پاس ہوتے تھے۔ اور یوں وہ خود اس مروجہ استبدادی مورثی حکومتی ڈھانچے میں ایک کل پرزے کی حیثیت بھی رکھتے تھے۔ کبھی کسی نے اس دستور حکومت کو غیر اسلامی قرار نہیں دیا تھا اور نہ ہی ’’اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات‘‘ کے نفاذ کی کوئی تحریک کسی نے چلائی تھی۔
ویں اور سولہویں صدی میں یورپ میں تحریک احیائے علوم Renaissance کا آغاز ہوا تو اس میں جس چیز نے سب سے اہم کردار ادا کیا وہ تھا 1440ء میں ایک جرمن سنارجوہانس گٹنبرگ ( Johannes Guttenberg )کا ایجاد کردہ پرنٹنگ پریس۔ وہ جو کچھ حکایات و روایات کی شکل میں تحریر کردہ تاریخ چند مخصوص طبقات تک محدود ہوا کرتی تھی اب اس کی عام آدمی کی رسائی میں آنے کی شکل پیدا ہو گئی۔ قدیم تصورات اور خیالات کا بھانڈا پھوٹنے لگا۔1620ء میں Francis Baken نے لکھا کہ دنیا کا چہرہ اور ہیئت بالکل بدل چکی ہے۔ اسی تحریک
کے نتیجے میں 18ویں اور 19ویں صدی میں یورپ بھرپور صنعتی انقلاب کرنے میں کامیاب ہوا جس میں وہاں کے صنعتی کارکنوں نے اہم کردار ادا کیا اور ایک بہت بڑی تعداد درمیانے طبقے کی اُبھر کر سامنے آگئی۔ بورژوا کے ساتھ ساتھ پیٹی بورژوا نے بھی تاریخ کردار ادا کرنا شروع کیا۔ عقائد کی جگہ سائنس نے لے لی ۔اس سے تاریخ نویسی اور تاریخ کے بارے میں نظریات میں بہت بڑی تبدیلی آگئی۔ اور چونکہ تاریخ اب سب کی رسائی میں آگئی تھی اس لیے معاشرے میں جاری و ساری طبقاتی کشمکش کی وجہ سے تاریخ نویسی بھی طبقاتی مفادات کے نظریات کے تابع ہو گئی۔ جمہوری اداروں کے قیام نے بورژوا قوتوں کو دوام بخشا اور بورژوا حقیقت نگاری Realism نے جنم لیا۔ سائینسی علوم تاریخ کا حصہ بننے لگے۔ 19ویں صدی کے اواخر میں ایچ۔جی۔ویلز( H.G. Wells )نے دنیا کی تاریخ قلمبند کی جو انسان کے کیمیائی اور حیاتیاتی ارتقا اسے شروع ہو کر 19 ویں صدی تک آتی تھی۔ اس بورژوا حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ مارکسی نظریہ تاریخ نے بھی جنم لیا جو تاریخی جدلیات اور مادی جدلیات پر مبنی تھا۔ بورژوا حقیقت نگاری میں سب کچھ تھا مگر معاشرے کی قوتوں کے مابین طبقاتی کشمکش کا ذکر نہیں کیا جاتا تھا جسے مارکس نے اجاگر گیا اور مارکسی تاریخ نویسی کا آغاز ہوا۔
عالمی سطح پر یورپ کا صنعتی انقلاب سرمایہ داری کی معراج استعماریت اور سامراجیت تک جاپہنچا اور یورپ والے دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گئے۔ نئی دنیا امریکہ بھی دریافت کر لی اور آسٹریلیا کے علاوہ زیریں صحرا افریقہ Sub Saharan Africa کے جنگلوں تک پہنچ گئے۔ اس دوران یورپی مستشرقین کی بھی بہت بڑی کھیپ ہندوستان، ایران، عرب، سلطنت عثمانیہ اور شمالی افریقہ میں پہنچ گئی۔ انہوں نے یہاں کے حالات کی تفصیلی رپورٹیں قلمبند کیں جو ان کی استعماری حکومتوں کے لیے ان علاقوں پر قبضہ جمانے کے عمل میں مددگار ثابت ہوئیں۔ برصغیر کے حوالے سے برنیر، ٹیورنیئر اور منوچی قابل ذکر ہیں۔ جب ان علاقوں پر استعمار کا غلبہ ہوا اور یہاں کی کرم خوردہ بادشاہتیں اور سلطنتیں زمیں بوسں ہوئیں او ان کی جگہ یورپی استعمار کی ضروریات کے مطابق انتظامی ڈھانچہ کھڑا کیا گیا تو اس میں علمائے دین کے پاس موجود عدلیہ اور درس و تدریس کے دونوں شعبوں سے ان کو ہمیشہ کے لیے بے دخل کر دیا گیا۔ ملاؤں نے اپنے اقتدار کے احیا کو احیائے اسلام کے نام سے منسوب کرکے تحریکیں شروع کر دیں۔ یہ سلسلہ سید احمد اور سید اسمعٰیل کی وھابی تحریک، جمال الدین افغانی کی پان اسلام ازم کی تحریک، تحریک خلافت، تحریک ہجرت، تحریک ختم نبوت تک پہنچ کیا۔ انڈونیشیا سے مراکش تک دوسرے مسلمان ملکوں میں بھی بالخصوص مصر میں ایسی ہی تحریکوں نے جنم لیا جن میں حسن البناء کی اخوان المسلمین بھی شامل تھی۔ اسلامی احیاء کی تحریکوں کے زیر اثر مسلمان ملکوں میں تاریخ نویسی مذہبی عقیدے کا حصہ بن گئی۔ گویا صنعتی انقلاب کے جومثبت نتائج یورپ میں تاریخ نویسی پر ہوئے اس کے بالکل الٹ منفی اثرات مسلمان ملکوں میں تاریخ نویسی پر ہوئے۔ تاریخ عقیدے کے ماتحت ہو گئی۔ انگریزوں نے اپنے سامراجی مقاصد کی خاطر اس مذہبی احیاء کی سرپرستی کی۔سید احمد شہد کی وھابی تحریک کو انگریزوں نے زوال پذیر سکھ ریاست کے خلاف کارروائیاں کرنے اور ہندوستان سے مسلمان نوجوانوں کے جہادی جتھے بھرتی کرکے لے جانے کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔ مگر سکھ ریاست کے خاتمے کے بعد جب وھابی تحریک نے انگریزوں کے خلاف کارروائیاں شروع کیں تو انگریزوں نے انہیں کچل دیا۔ انہی دنوں1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی سے برائے نام مغلیہ تاجدار کا خاتمہ ہوا۔ اسلامی احیاء پسندوں نے جہاد کے محاذ پر کچلے جانے کے بعد تصنیف و تالیف اور درس و تدریس کے مراکز قائم کر لیے۔ ان کے بڑے مراکز ندوہ اور دیوبند میں قائم ہوئے۔ یہاں سے تاریخ نویسی کی جس روایت کا آغاز کیا گیا وہ ماضی کے دور عروج کے مسلمان مورخین کے اندازے سے قطعی مختلف تھا۔ انہوں نے دور عروج کی مسلمانوں کی سیاسی تاریخ کو ’’اسلامی تاریخ‘‘ یا ’’تاریخ اسلام‘‘ کا نام دے دیا اور اسے مذہبی لٹریچر بنادیا۔ زوال پذیر جاگیر دار طبقہ نے ان کی سرپرستی کی اور پھر جہاں کہیں اس کے مفاد میں تھا مغربی سامراج نے بھی ان کی سرپرستی کی۔ یہ سلسلہ شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، مولانا ابوالکلام آزاد سے ہوتا ہوا نجیب اکبر آبادی، اسلم جیراج پوری اور سید ابوالاعلیٰ مودودی تک پہنچا۔ انہوں نے تاریخ کو انشاء پردازی اور لفاظی سے مزین کرکے وعظ میں تبدیل کر دیا۔ خوبصورت الفاظ سے طوطا مینا، کی کہانیاں بنائی گئیں جبکہ قرون وسطیٰ کا مورخ صرف حقائق اور واقعات کی تفصیلات جمع کرنے اور من وعن بیان کر دینے پر توجہ مرکوز رکھتا تھا۔ شبلی، ندوی اور ابوالکلام آزاد نے تاریخ لکھنے والوں کو ایک ایسا اسلو ب مہیا کیا جس سے گزشتہ ایک سوسال کے دوران لکھی گئی تواریخ خواہ وہ عام قاری کے لیے لکھی گئیں یا تعلیمی نصاب کے لیے محض، خطابت، شعلہ بیانی، لفاظی اور انشاء پردازی بن کر رہ گئی۔ان احیاء پسند مورخین نے کوشش کی کہ مسلمانوں کی تاریخ کا وہ بہت بڑا حصہ بیان ہی نہ کیا جائے جسے آج کے زمانے میں Rationlizeنہیں کیا جا سکتا یا پھر وہ معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرکے توجیہات بیان کرتے ہیں۔ وہ صرف چند ایسے واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں جن سے مسلمان حکمران اور سپہ سالار فرشتہ سیرت ثابت ہوں کہ نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی ان کا مقصد تھا ، نہ ملک گیری، وہ تو بس اسلام اور دین کی سربلندی کی خاطر حملہ آور ہوئے اور اپنے اسلامی سیرت و کردار کی بدولت فتح یاب ہوئے۔ اور غلبہ پانے کے بعد مفتوح غیر مسلموں پر کوئی ظلم نہیں کیا ، انہیں تاخت و تاراج نہیں کیا، ان کا مال و اسباب نہیں لوٹا، ان کی عورتیں اور بچے لونڈی غلام نہیں بنائے وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ قرون وسطیٰ کا کوئی مورخ ان حکمرانوں اور ان کی فتوحات کو اس طرح پیش نہیں کرتا اور نہ ان کے سیرت و کردار کو اسلامی بنا کر پیش کرتا ہے۔ اور نہ ہی غیر مسلم مفتوحین پر ان کے ظلم و جور کے بارے میں کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتا ہے۔ کیونکہ یہ سب کچھ اس وقت کی مروجہ استبدادی سیاست میں جائز ور وا سمجھا جاتا تھا۔ مسلمان مفتوحین کے ساتھ بھی استبدادیت کا مظاہرہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جاتی تھی اور وہ مورخین ان زیادتیوں کی بھی پوری تفصیلات مہیا کرتے تھے۔ شبلی، ندوی اور آزاد جیسے احیاء پسندوں کی اور ان کے اسلوب میں لکھی گئی ’’اسلامی تواریخ‘‘ پر مزید ملمع کاری کا عمل اسلامی ناول نگاری نے کیا اور ’’اسلامی تاریخی رومانی ناول‘‘ لکھے گئے۔ جن کا سلسلہ رئیس احمدجعفری، نسیم حجازی اور ایم اسلم وغیرہ تک پہنچا۔ انہوں نے عارضہ یا دایام (Nostalgia) میں مذہبی جنون کی آمیزش کی اور عام سادہ لوح نیم پڑھا لکھا مسلمان ان ’’اسلامی ہیروز‘‘ کو مذہبی دیوتا سمجھنے لگا۔ یہ بات سادہ لوح دلوں میں اتار دی گئی کہ ان اسلام ہیروز نے جو کچھ کیا وہ مذہبی جذبہ و جوش سے سرشار ہو کر کیا اور اگر آج بھی ویسا ہی مذہبی جوش و جنون پیدا ہو جائے تو مسلمان پھرے غرناطہ سے دھلی کے لال قلعہ تک اپنا غلبہ قائم کرسکتے ہیں۔ اس سوچ کو علامہ اقبال نے بھی بہت فروغ دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے قرون وسطیٰ کے ابتدائی مآخذوں یعنی طبری، ابن اثیر، بلاذری، ابن خلدون وغیرہ کا مطالعہ نہیں کیا تھا۔ انہوں نے تاریخ کے بارے میں علم شبلی، ندوی اور ابوالکلام آزاد اور اس قبیل کے مورخوں کی تحریروں سے حاصل کیا تھا اور اس کی بنیاد پر انہوں نے مسلمانوں کے احیاء کو جدید ترقی پسندانہ تقاضوں سے مربوط کرنے کے بجائے مذہبی جوش و جذبہ اور مرد مومن کے تصور کے ساتھ مربوط کر دیا جو ’’بے تیغ‘‘ بھی لڑنے کے لیے میدان میں کود پڑتا ہے۔ ان کی نظموں شکوہ اور جواب شکوہ کا لب لباب بھی یہی ہے کہ قرون وسطیٰ کا مسلمان مرد مومن تھا جبکہ آج کا مسلمان ایمان سے دور ہو کر دانش فرنگ سے خیرہ ہو چکا ہے۔ وہ ترقی کا راستہ قرون وسطیٰ کی تصوراتی راسخ العقیدگی کے ذریعے سے تلاش کرتے ہیں۔
برصغیر میں ہندو احیاء پسندوں نے بھی پورے برصغیر پر بلاشرکت غیرے اپنے اقتدار کے قیام کے لیے انڈین نیشنلزم کے نظریے کو ترویج دینے کی خاطر تاریخ نویسی شروع کی۔ بنگال کے بنکم چندرا چیٹر جی نے انند مٹھ ناول لکھا اور اس میں ہندوسنیاسیوں کی مسلمان جاگیر داروں کے خلاف بغاوت کو مو ضوع بنایا گیا اور اسکے ترانے بند ماترم کو بعد میں انڈین نیشنل کانگریس نے اپنا سرکاری ترانہ قرار دے دیا۔ بال گنگا دھر تلک، دیا نند سرسوتی، سریندر ناتھ بنر جی، لالہ جپت رائے اور دیگر ہندو احیاء پسندوں نے ہندوستان کی تاریخ کی وہ تعبیرکی جس میں مسلمانوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ یہاں تک کہ جواہر لال نہرو جیسے لبرل ازم کے دعوے دار نے Discovery of India میں ایک ایسے ہندوستان کے احیاء کا تصور دیا جس کا غلبہ انڈونیشیا سے خلیج فارس تک تھا اور تاریخ کو اپنے اس خود ساختہ تصور کے جواز کے لیے استعمال کیا۔ تاریخ نویسی مخصوص مفادات کے فروغ کے لیے نظریہ سازی کا اوزار بن گئی۔ اس سے ہندو، مسلمان، عیسائی، یہودی کوئی بھی مبرا نہیں ہے۔
کہا جاسکتا ہے۔ کہ برصغیر میں اسلامی احیاء پسندوں کی جانب سے اس قسم کی Nostalgic تاریخ نویسی اور شاعری کی ایک وجہ برصغیر کا ہندو، مسلم تضاد بھی تھا۔ ہندو احیاء پسند جس طریقے سے برصغیر کی تاریخ کو مذہب سے وابستہ کرکے یہاں کے ازمنہ قدیم اور قرون وسطیٰ کے ہندو راجاؤں کو مذہبی تقدس دے کر مذہبی ہیرو اور نیشنل ہیرو بنا کر پیش کر رہے تھے، اس کے جواب میں مسلمان بھی ایسا کرنے پر مجبور ہوئے۔ تاہم ماضی پرستی کی یہ لہر برصغیر کے مسلمان عوام الناس کے مسائل حل نہ کر سکی۔ ان کے مسائل جدت پسندی کی لہر نے حل کئے۔ جس کا آغاز سرسید احمد خان، سید امیر علی اور انواب لطیف نے کیا اور محمد علی جناح نے انجام تک پہنچایا۔ علی گڑھ تحریک اور جدت پسندی کی ہم عصر تحریکوں نے مسلمانوں کے پاؤں میں پڑی ماضی کی بوجھل بیڑیوں کو کاٹنے کی کوشش کی اور انہیں عہد حاضر کے جدید تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے اور روشن مستقبل میں زقند لگانے کا راستہ دکھایا۔ سرسید نے مورثی جاگیر دارانہ حکمرانوں پر کڑی تنقید کی۔ سید امیر علی نے مسلمانوں کے دور عروج کی تاریخ لکھی مگر اس کا نام ’’اسلامی تاریخ‘‘ رکھنے کے بجائے ’’سرسانیوں کی تاریخ ‘‘ یعنی History of Saracens رکھا، سرسید کے دست راست مولانا محمد حسین آزاد نے اپنی تصنیف ’’دربارِ اکبری‘‘ میں اکبر کے سنہرے دور پر احیاء پسندوں کی جانب سے کئے گئے حملوں کا بھرپور جواب دیا اور تاریخ کو عقیدے سے جدا کرکے پیش کیا۔ 1947 ء میں آزادی کے بعد ہندوستان اور پاکستان دونوں کی ا سٹبلشمنٹ establishment نے اپنے حکمرانوں کی ضرورت کی ضرورت کے مطابق تاریخ نویسی کو فروغ دیا۔ ہندوستان کی اسٹبلشمنٹ کا مطمع نظریہ تھا کہ تاریخ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کا کوئی نفاذ نہیں تھا اسے انگریزوں نے لڑاؤ اور حکومت کرد کی پالیسی کے تحت پیدا کیا اور پاکستان قائم کیا۔ جسے ختم کر دینا چاہیے۔ انہوں نے تحریک آزادی کی تاریخ لکھنے کے لیے ہسٹری کمشن قائم کیا۔ آرسی موجمدار اس کے سربراہ بنائے گئے۔ لیکن موجمدار کے تیار کردہ مسودے میں کانگریس کے مذکورہ نظریے کی عکاسی نہیں ہوتی تھی۔ چانچہ انہیں ہٹا کر ڈاکٹرتاراچند کو اس کا سربراہ بنایا گیا اور انہوں نے کانگرس کی فکر کے مطابق تحریک آزادی کی تاریخ رقم کی۔ آرسی موجمدار اور تار اچند دونوں کی ترتیب دی ہوئی History of Freedom Movement شائع ہوئیں اور دونوں کا نکتہ نظر مختلف ہے۔ تاریخ نویسی نظریات اور مفادات کے تابع ہو گئی ہے۔
پاکستان میں قیام کے بعد اسٹبلیشمنٹ کو ، جاگیردار حکمرانوں کو، فوجی جرنیلوں کو اور اینگلو امریکی سامراج کو فوری طر پر نظریہ پاکستان کی ضرورت پڑ گئی۔ اینگلو امریکی سامراج کمیونزم کی حصار بندی کے لیے مذہب کا سہارا لینا چاہتا تھا۔ اسٹبلیشمنٹ اور حکمران صوبوں کو بالخصوص مشرقی پاکستان کو حقوق سے محروم رکھ کر اپنی بالادستی برقرار رکھنا چاہتے تھے اور اس کے لیے عوام الناس کو ان کے معاشی او سماجی حقوق سے بھی محروم رکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے ایک ’’نظریہ پاکستان‘‘ گھڑا گیا اور جغرافیائی سرحدوں کی بجائے نظریاتی سرحدوں کی باتیں کی گئیں۔ پاکستان کو نظریاتی ریاست اور اسلامی نظام کی تجربہ گاہ قرار دیا گیا۔ جس کا ’’تصور علامہ اقبال نے پیش کیا اور قائداعظم نے اس خواب کی تعبیر کی‘‘۔ اس حوالے سے تاریخ کی تشکیل نو Reconstruction کی گئی جسے نہ صرف سلیبس کا حصہ بنایا گیا بلکہ سرکاری سرپرستی میں دانشوروں نے میڈیا، اخبارات و رسائل اور کتابوں کے ذریعے اس کی ترویج کی۔ اس تاریخ نویسی کو معروف مورخ کے۔کے۔ عزیز نے Murder of History سے تعبیر کیا۔ وہ مذہبی قوتیں جو قیام پاکستان کی شدید مخالف رہی تھیں وہ نظریہ پاکستان کی سب سے بڑی علمبردار بن گئیں۔ سرکاری موقف اور عقیدے سے ہٹ کر معروضی اور سائنسی بنیاد پر تاریخ نویسی کے علمبردار زاہد چوہدری نے جب تاریخ سے پردہ ہٹایا تو معلوم ہوا کہ نہ تو علامہ اقبال نے کوئی تصور پاکستان پیش کیا تھا اور نہ ہی یہ ملک کسی مذہبی تحریک کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔ زاہد چوہدری نے جن کے ساتھ راقم کو کام کرنے کا شرف حاصل رہا ، معروضی اور سائنسی بنیادوں پر تاریخ نویسی کے نتیجے میں بارہ جلدیں پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اور چار جلدیں مسلمانوں کی سیاسی تاریخ پر پیش کی ہیں اور زاہد صاحب کی اس تاریخ نویسی کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید کام جاری ہے جو آئندہ جلد پیش کیا جائے گا۔
پاکستان میں مارکسی اور سیکولر تاریخ نویسی میں جو نام سرفہرست میں ان میں سبط حسن، عبداللہ ملک، ڈاکٹر مہدی حسن، ڈاکٹر جعفر احمد، ڈاکٹر مبشر حسن، قاضی جاوید، ڈاکٹر سعید شفت اور ڈاکٹر مبارک علی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی اسٹبلشمنٹ اور عقیدہ کے بنیاد پر تاریخ نویسی کے برعکس تاریخ کو پیش کیا جو قابل تحسین ہے۔
(جاری ہے)
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.