حسین شہید سہروردی ، بھٹو اور نواز
(ملک تنویر احمد)
پانامہ لیکس پر بننے والی جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز نے جو اودھم مچارکھا ہے اس میں جھوٹ اور سچ کی تمیز تو ختم ہوتی ہی چلی جا رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کسی انقلابِ زمانہ سے کم نہیں ہے کہ حکمران جماعت کے وزراء سے لے کر اس کے درباری تر جمانوں نے میاں نواز شریف کو حسین شہید سہروردی اور ذوالفقار علی بھٹو سے جا ملایا۔
چشمَِ فلک نے ایسا تقابل تو شاید ہی کبھی دیکھا ہو لیکن اس پر حسین شہید سہروردی اور ذوالفقار علی بھٹو کی روحیں بھی یقیناً مضطرب ہوں گی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھٹو صاحب کا دفاع کرنے کے لیے ہمہ وقت سر گرم ہے کیونکہ آج بھی بھٹو کے سیاسی ورثے پر یہ جماعت زندہ ہے۔
پی پی پی کے رہنماؤں نے نواز لیگ پر جو پھبتیاں کسیں اور طنز کے جو تیر چلائے اس سے نواز لیگی وزراء اور ترجمانوں کو قطعاً کوئی خجالت اور شرمندگی محسوس نہیں ہوئی ہوگی کیونکہ جو جماعت تحقیقاتی رپورٹ میں اپنی قیادت کی مبینہ کرپشن اور بد عنوانی کے انکشافات پر پر پشیمانی اور شرمندگی سے دوچار نہ ہوئی ہو اس کی صحت پر سیاسی حریف کے طنز کیا اثر ڈال سکتے ہیں۔
جب حکومتی وزراء نے نواز شریف کے معاملے پر حسین شہید سہروردی کو گھسیٹا تو تاریخ کے وہ دریچے وا ہو گئے جس میں حسین شہید سہروردی اپنی پوری فہم و فراست اور قوت کے ساتھ متحرک تھے۔ حسین شہید سہروردی ہماری تاریخ کا وہ ہیرو ہے جسے شاید ہم نے بنگالی ہونے کی بناء پر وہ مقام عطا نہیں کیا جس کے وہ حقدار تھے۔
حسین شہید سہروردی اگر نہ ہوتے تو شاید پاکستان کا حصول اس قدر آسان نہ ہوتا۔ یہ حسین شہید سہروردی ہی تھے جنہوں نے بنگال میں تحریک پاکستان کو اس منظم اور پر جوش انداز سے چلایا کہ دوسرے مسلم اکثریتی صوبے اس کا پاسنگ تک نہ تھے۔ یہ حسین شہید سہروردی ہی تھے جنہوں نے 1946 کے انتخابات کے بعد قائد اعظم کو بنگال میں مسلم لیگی حکومت کے تحفے سے نوازا۔ قائد اعظم کے ہاتھ میں حسین شہید سہروردی کی شبانہ روز محنت سے حاصل کی گئی وہ مسلم لیگی حکومت تھی جس نے کانگریس کو ملک کی تقسیم پر مجبور کی۔
بنگال میں مسلم لیگ کے پیغام کو پھیلانے اور اسے قبولیت عام دلانے کے لئے سہروردی نے جس محنت اور جذبے سے کام کیا اس کا اظہار قائد اعظم کی سہروردی سے محبت اور خلوص سے ملتا ہے جس کا اظہار انہوں نے متعد د مواقع پر کیا تھا۔ یہ حسین شہید سہروردی ہی تھے جنہوں نے مغربی بنگال کے مسلمانوں کو فرقہ وارانہ فسادات میں محفوظ رکھنے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
سہروردی بجا طور پر بنگال کے شیر تھے وگرنہ بنگال میں برپا ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کی جان و مال کے تحفظ کے لئے اپنی جان یوں نہ لڑا دیتے۔ گاندھی جی کے ساتھ مل کر سہروردی نے مغربی بنگال کے مسلمانوں کو ان ہندو جنونیوں سے تحفظ دلایا جو مسلمانوں کے خون کے درپے تھے۔
اس خدشے کے باوجود کہ جنونی اور انتہا پسند ہندو سہروردی کی جان کے بھی درپے تھے وہ گاندھی جی کے ساتھ مل کر کلکتہ کی ان گلیوں اور کوچوں میں گئے جہاں مسلمان محصور تھے اور انہیں محفوظ مقامات پر پہنچانے کے لیے اپنے رضا کاروں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ ایک بار گاندھی جی نے کہا تھا کہ جناح صاحب ایک حقیقی اسٹیٹس مین، لیاقت علی خان ایک سیاست دان اور سہروردی ایک لیڈر ہے۔
نواز لیگی اپنے قائد کی ایک جرات و بہادری کی داستان کسی کونے کھدرے سے نکالنے کے بعد سہروردی سے تقابل کرنے کے بارے میں سوچیں۔ میاں نواز شریف کسی صورت اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں اس کے لیے وہ ہر حربہ اور ہتھکنڈہ اپنانے پر تلے ہوئے ہیں اب سہروردی کو ہی یاد کر لیتے ہیں کہ قیام پاکستان کے مشرقی بنگال کے لئے وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں انہوں نے کس طرح اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے سے انکار کیا تھا۔
جب خواجہ نظام الدین سے مشرقی بنگال کی وزارت اعلیٰ کے لئے سہروردی صاحب کا مقابلہ ہونے لگا تو کچھ اراکین اسمبلی نے وفاداریاں تبدیل کر کے خواجہ نظام الدین کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا دیا۔ سہروردی صاحب کے دوستوں نے پیسے کے ذریعے وفاداریاں خریدنے کی تجویز دی تو انہوں نے جواباً کہا:
’’ہم نے پاکستان حاصل کر لیا ہے اور میرا کوئی ایسا ارادہ نہیں کہ اس کی سیاسی فضا کو رشوت کے ذریعے آلودہ کروں۔ میں ایسا اقتدار قطعی طور پر قبول نہ کروں گا جو ناجائز ذرائع استعمال کر کے حاصل کیا جائے۔‘‘
اب میاں نواز شریف اور ان کی سیاسی جماعت کی تاریخ میں کوئی ایسا سنہرا اور درخشاں باب نہیں ہے کہ انسان سہروردی کے ساتھ ان کے تقابل کے لئے مجبور ہو جائے۔ نواز لیگ کی تاریخ آمروں کے گود میں پل کر جوان ہونے اور اقتدار کے لئے جائز و ناجائز حربوں سے اس قدر بھری ہوئی ہے کہ اس کا ذکر تعفن زدہ پانی میں پتھر مار نے کے مترادف ہو گا۔
حسین شہید سہروردی مغربی پاکستا ن اور مشرقی پاکستان کے درمیان ایک مضبوط پل تھے جو ان کی موت کے بعد اس طرح کمزور ہوا کہ فقط سات برسوں میں تاریخ کے سمندر میں غرقاب ہو گیا۔ اپنے کالموں پر مشتمل تصنیف Calling a spade a spade میں سہروردی صاحب پر ایک مضمون میں سابقہ رکن اسمبلی ایم ۔پی۔ بھنڈارا رقم طراز ہیں:
’’سہروردی صاحب کا ایک معروف جملہ تھا کہ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان انگریزی زبان اور پی آئی اے کے علاوہ تیسرا رابطہ میں ہوں۔‘‘
دوسری جانب میاں نواز شریف کے دور اقتدار میں چھوٹے صوبوں اور وفاق کے درمیان جو آویزش جنم لیتی ہے وہ ان کے نوے کی دہائی کے ادوار سے بھی آشکار ہے اور آج بھی ان کے دور اقتدار میں وفاق اور چھوٹے صوبوں کے درمیان کوئی ایسا مثالی تعلق نہیں ہے جس کا کریڈٹ میاں صاحب کی ذات کو دیا جا سکے۔
اس دور اقتدار میں وہ عملی طور پر پنجاب کے وزیر اعظم دکھائی دیتے ہیں۔ اب سہروردی سے تقابل فقط زبانی جمع خرچ سے تو پورا نہیں ہو پاتا اس کے لئے عمل کے بھاری پتھر کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش کے بر عکس اگر وہ سہروردی اور بھٹو کی طرح تاریخ میں جینا چاہتے ہیں تو انہیں درباریوں اور خوشامدیوں کی چکنی چپڑی باتوں کی بجائے کچھ اپنے ذہن کو بھی سوچ و بچار کے لق و دق صحرا میں دوڑانا چاہیے کہ آپ کی ضد کی وجہ سے خاکم بدہن ملک انتشار اور افراتفری کی نذر نہ ہو جائے۔