حب میں ہندو نوجوان پر توہین مذہب کے الزام کی اندرونی کہانی
(حال حوال)
جمعرات کے روز بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں ایک ہندو نوجوان پر توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتاری اور بعد ازاں ایک مشتعل ہجوم کی جانب سے مظاہرہ اور اسے سرعام پھانسی دینے کے واقعے کے مختلف نئے تناظر سامنے آ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ مذکورہ نوجوان پر ایک واٹس گروپ میں مبینہ طور پر ایک توہین آمیز تصویر شیئر کرنے کا الزام ہے، جس کی بنیاد پر اسے توہینِ مذہب کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔
حب کے مقامی ذرائع کے مطابق اس تصویر میں ایک آدمی کو جوتوں سمیت روضہ رسول کی چھت پر چڑھا ہوا دکھایا گیا. جس کے نیچے کیپشن میں لکھا ہے کہ یہ ایک ہندو ہے، جو روضہ رسول کی چھت پر چڑھ کر اس کی توہین کر رہا ہے. ساتھ ہی ایک مختصر آڈیو لنک کی گئی ہے، جس میں مذکورہ شخص کو ماں بہن کی گالیاں دیتے ہوئے کوئی نہایت جذباتی ہو کر مسلمانوں سے کہہ رہا ہے کہ اس پیغام کو سوشل میڈیا میں خوب پھیلا کر اس شخص کو تلاش کیا جائے، اور جہنم واصل کیا جائے۔
بیلہ کے ایک صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے بقول یہ تصویر اور آڈیو لسبیلہ کے کئی لوگوں کے ذاتی نمبروں پہ بھیجی جا چکی تھی. مذکورہ نوجوان نے بھی اسے آگے ایک گروپ میں شیئر کر دیا. جہاں گروپ اراکین نے احتجاج کیا کہ ایسی تصویر شیئر کر کے وہ توہینِ مذہب کا مرتکب ہوا ہے. بعدازاں یہ شکایت گروپ میں موجود مقامی موبائل ایسوسی ایشن کے سربراہ (مذکورہ ہندو نوجوان بھی موبائل کے کاروبار سے وابستہ ہے)، سے کی گئی اور اس کا تدارک کرنے کا بھی کہا گیا۔
موبائل ایسوسی ایشن کے سربراہ سلیم شہزاد سولنگی جو مسلم لیگ ن کے یوتھ ونگ کے صوبائی جوائنٹ سیکریٹری بھی ہیں، نے حال حوال سے بات چیت کرتے ہوئے اس بابت اپنا واضح مؤقف دیا اور کہا کہ منگل کی صبح مجھے موبائل مارکیٹ کے اراکین نے واقعہ کی اطلاع دی اور کہا کہ ہم اس ہندو کو ماریں گے. جس پر میں نے ان سے صبر کرنے کو کہا. میں خود وہاں پہنچا. پرکاش کا موبائل لے کر مذکورہ تصویر بھی دیکھی اور اُس سے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا، جس پر اُس نے کہا کہ میں نے اس لیے شیئر کی کہ تاکہ لوگ اس سے آگاہ ہوں اور مزید اسے نہ پھیلائیں. مجمع اس کے جواب سے مطمئن نہیں ہوا تو میں نے اُن سے کہا کہ ہم اسے پولیس کے حوالے کریں گے، وہ اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کریں گے۔
سلیم شہزاد کے بقول ہم نے فسادِ عامہ کے ممکنہ امکان سے بچنے کے لیے ہندو برادری سے باہمی بات چیت کر کے نوجوان کو رضاکارانہ پولیس کے حوالے کرنے کو کہا. یوں منگل کے روز ان کی ایما پر پولیس نے ایف آئی آر درج کر کے نوجوان کو اپنی حراست میں لے لیا. اسی روز شام کو ایک شادی میں شرکت کے سلسلے میں سلیم کو جعفرآباد آنا پڑا. اس سے اگلے روز یہ سانحہ رونما ہو گیا. جس کی اطلاع، سلیم کے بقول انہیں فیس بک کے ذریعے ملی۔
مقامی ذرائع کے مطابق بعد ازاں یہ خبر مزید گروپس میں اور عوامی حلقوں تک پہنچی. جس کے بعد جمعرات کو پہلے چند افراد کے گروہ نے مقامی پولیس تھانے کا گھیراؤ کیا. اور نوجوان کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا. شہر میں خبر کے پھیلتے ہی، دیکھتے ہی دیکھتے اس گروہ نے ہجوم کی شکل اختیار کر لی. جسے سنبھالنے کے لیے بعدازاں ایف سی کو بلانا پڑا۔
متعلقہ تحریر: الزام لگ جانے کا جرم کبیرہ
حب کے ایک مقامی صحافی نے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کے شرط پر حال حوال کو بتایا کہ آج کے واقعہ میں ہجوم کو منظم کرنے کے پیچھے ایک مخصوص کمیونٹی کا ہاتھ پویشدہ ہے. ایک ہزار کے مجمعے میں بمشکل سو مقامی لوگ شامل ہوں گے. اکثریت ان لوگوں کی تھی جو حب کے مقامی نہیں، اور گزشتہ کچھ برسوں میں یہاں آباد ہوئے ہیں. صحافی کے بقول اس کمیونٹی نے گزشتہ کچھ عرصے سے مقامی کاروبار میں نہایت تیزی سے نفوذ کیا ہے۔
واضح رہے کہ حب سمیت پورے ضلع لسبیلہ میں مقامی کاروبار کے 70 فیصد سے زائد ذرائع ہندو برادری کے ہاتھ میں ہیں. لیکن اس سے قبل یہاں کی تاریخ میں ہندو مسلم تنازع کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
ایک مقامی سیاسی کارکن کا کہنا ہے کہ غیرقانونی طور پر حب میں رہائش پذیر کمیونٹی کی جانب سے ہندو برادری کو ہراساں کرنا نئی بات نہیں. ایک دہائی قبل جب بلوچستان میں سیاسی حالات کشیدہ ہوئے اور حب کے ہندو تاجروں کو دھمکی آمیز پرچیاں موصول ہونے لگیں، جس کے باعث کئی ہندو اپنا کاروبار فروخت کر کے یہاں سے انڈیا یا سندھ ہجرت کر گئے تو ان کا کاروبار خریدنے والی یہی کمیونٹی تھی۔
ان کے بقول، اس لیے اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس واقعے کو ہوا دینے کے پیچھے یہی لوگ شامل ہوں. خصوصاََ تب جب، مظاہرین کی جانب سے یہ مطالبہ زور و شور سے سامنا آیا کہ ہندو تاجروں کی دکانیں بند کر دی جائیں اور انہیں شہر بدر کیا جائے۔
بشکریہ: حال احوال ڈاٹ کام