انسانی جان کی حرمت اور قومیت کے بت پر قربانی کا بیانیہ
از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
یہ ایک مسلّمہ ہے کہ انسانی جان دنیا کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ اس کے خالق نے ایک انسانی جان کی قیمت پوری انسانیت کی قیمت کے برابر قرار دی ہے۔ اس نے بتایا ہےکہ جس نے ایک جان کو بچایا، اس نے گویا پوری انسانیت کو بچایا، اور جس نے ایک جان کو نا حق قتل کیا، اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خدا کا یہ ارشاد کہ جس نے نا حق ایک انسان کو قتل کیا، اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا،جیسا مہیب ارشاد ایک کلیشے بن کر رہ گیا ہے۔ ساری انسانیت کے قتل پر ہمارا جو رد عمل ہو سکتا ہے، اس کا تصور کیجیے، یہی تصور ایک خون ناحق پر ہمارا ہونا چاہیے تھا۔
انسانی جان کی اس قیمتی متاع کو قومیت کے غیر معقول اور بے بنیاد لیکن مقبول عام بیانیےکے لیے کیسے سستا کیا جاتا ہے، زیر نظر مضمون میں اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ایک نظر زبان زد عام ان نعروں اور اشعار پرڈالیے:
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
سینے پہ گولی کھائیں گے
پاکستان بنائیں گے
قائد تیرا ایک اشارہ
حاضر حاضر لہو ہمارا
یہ بازی خون کی بازی ہے یہ بازی تم ہی ہارو گے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو مارو گے
اس تحریر میں ہمارا محل تنقید وہ بے ضمیر ظالم نہیں جو انسانوں کا قتل اپنی درندگی کی پیاس مٹانے یا اپنے ذاتی مقاصد کے لیے کرتے ہیں، ان کی مذمت تو سبھی کرتے ہیں، یہاں اس مضمون میں میرا ہدفِ تنقید انسانیت اور انسانی اقدار کے وہ پرچارک اور رہنما ہیں جو اپنے خود ساختہ “ارفع نظریات” اور “اعلی مقاصد” کو انسانی جان پر فوقیت دیتے ہیں جس کا کوئی اختیار اور جواز ان کے پاس نہیں ہوتا۔ ان خود ساختہ نظریات اور مقاصد کی خاطر وہ اپنے پیروکاروں کی جانیں ایسے بے دریغ قربان کرواتے ہیں جیسے یہ ان کا ادھار تھا جس کا چکانا ان اندھے مقلدین پر فرض تھا۔
اپنے پیروکاروں کی ان رائیگاں قربانیوں پر ان مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کے ماتم اور مذمت کے پیچھے بھی ان کا اطمینان کارفرماہوتا ہے کہ جس را ہ پر انھوں نے نے لوگوں کو لگا رکھا ہے وہ پھر بھی درست ہے۔،مزید برآں وہ بغیر کسی خدائی اختیار کے ان ضائع ہونے والی جانوں کے لیے شھادت جیسا مقدس خطاب بھی اختیار کرتے ہیں اور یوں دوسرے کارکنوں اور پیروکاروں کے لیے مزید ترغیب کا انتظام کرتے ہیں۔جان قربان کرانے کی ان ترغیبات کے پیچھے دین کا کوئی حکم اگر نہیں ہے تو ایسی ترغیبات انسانی جان کےقتل کی ترغیبات ہیں۔
انسانی جانوں کی قربانی کے لیے اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں یورپ میں ایک خود ساختہ بت قومیت کے نام سے تشکیل دیا گیا جو پھر باقی دنیا میں پھیل گیا۔ عام لوگوں کو باور کرایا گیا کہ ایک خاص جغرافیہ میں یکساں تاریخ اور ثقافت رکھنے والے ایک قوم ہیں۔ ان پر اسی جغرافیے کےہم نسل، ہم وطن لوگوں کی حکمرانی بہت ہی ضروری قسم کی چیز ہے، غیر قوم حکمران ہوگی تو یہ غلامی ہو گی، لیکن ہم وطن حکمران ہوں گے تو یہ غلامی نہیں ہوگی۔ اور غلامی ایسی ذلت ہے کہ انسان مر جائے مگر غلامی قبول نہ کرے۔
قوم پرستی کا صور اس بلند آہنگی سے پھونکا گیا کہ کھیت کھلیانوں اور دھوبی گھاٹ پر کپڑے دھونے والے بھی اپنی قوم کو حق حکم رانی دلانے جان ہتھیلی پر لے کر نکل کھڑے ہوئے۔ ان لوگوں نے لیکن یہ بنیادی سوال پوچھے بغیر کہ غیر قوم کے زیرِ حکومت رہنا اگر غلامی ہے تو اپنے لوگوں کے زیرِ حکومت رہنا غلامی کیوں نہیں، اور اگر اپنوں کے زیر حکومت رہنا غلامی نہیں تو غیر قوم کے زیر حکومت رہنا غلامی کیوں ہے، اپنی جانوں کے نذرانے لے کر غیر قوموں کی بندوقوں کے آگے کھڑے اور ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے۔ پھر جب وہ غیر قومیں ان کو چھوڑ کر اپنے ملک چلی گئی تو یہ خود روزی روٹی کی خاطر جو ان کے ہم قوم رہنما بھی انھیں مناسب طور پر مہیا نہیں کر رہے تھے، اپنا ملک چھوڑ کر انھی غیر قوموں کے ملک میں ان کی غلامی کرنے جا پہنچے۔
اب وہاں رہنا اور ان کی غلامی میں رہنا ان کے لیے اعزاز بن گیا۔ یعنی اپنی مٹی پانی سے بنی ایک جغرافیائی سرحد جسے وطن کہا گیا اس پر کوئی غیر قوم حکمران ہو تو یہ غلامی ہے، ذلت ہے، لیکن خود یہ اپنے جسموں پر غیر ملک غیروں کی حکومت قبول کر لیں تو یہ اعزاز ہے! چنانچہ غیروں کو اپنے ملک سے نکالنے کے لیے بھگت سندھ، منگل پانڈے اور اشفاق (اور اب برہانی وانی جیسے نوجوان) کو بتایا گیا کہ اپنی جان دے کر انھیں یہاں سے نکالو۔ وہ جانیں ہتھیلی پر لے کر نکل پڑے۔ عوام نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ اگر حکومت ان کے ہم نسلوں کے ہاتھ میں آجائے گی تو کیا ہو جائے گا۔ کیا طاقت ور کمزور کا استحصال کرنا بند کر دے گا؟
قومیت پرستی کے اس شور میں حقیقت نظر سے اوجھل ہو گئی کہ اصل مسئلہ طاقت ور اور کمزور کا ہے، با اختیار اور زیرِ اختیار کا ہے۔ یہ دو فریق ہر نظام میں ہوں گے۔ غلطی یہ ہوئی ہے کہ طاقت ور کے استحصال کی وجہ اس کی طاقت باور کرانے کی بجائے اس کا مذھب یا قومیت وغیرہ بنا دی گئی۔ چنانچہ استحصال شدہ طبقات بجائے قانون اور اخلاق کی مدد سے طاقت ور کو راہ راست پر لانے کے، طاقت ور کے مذھب یا قومیت سے جان چھڑانے میں اپنے مسئلے کا حل دیکھنے لگے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے ہم مذھب اور ہم قوم اقتدار میں آ کر اس کا استحصال کرنے لگے۔ نتیجہ وہی رہا۔
ہم مذھب اور ہم قوم لیڈر اپنے عوام کو اس غلط راہ پر اس لیے ڈالتا ہے تاکہ خود اس کے لیے اقتدار کا راستہ ہم وار ہو۔ اس کے لیے لیکن استعمال بھی یہ غریب کمزور ہی ہوتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ انبیا بھی غیر قوموں کے زیرِ حکومت رہے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے بادشاہ کے زیرِ حکومت تھے۔ قرآن میں سورہ یوسف میں لکھا ہے کہ وہ بادشاہ کے قانون کے خلاف کوئی اقدام نہیں کر سکتے تھے۔ تو کیا یہ غلامی تھی، ذلت تھی؟
قومیت کے نام پر انسانوں کی سیاسی تقسیم کا سلسلہ ایک بار شروع ہوا تو پھررکا نہیں۔ غیر قوم کی تعریف پھر غیر زبان اور غیر مذھب کی تعریف میں سمٹ آئی۔ غیر نسل والوں سے نجات پا کر اب ایک بار پھر انسانوں سے کہا گیا کہ پھر اپنی جانوں کو سستا کریں کہ غیر زبان اور غیر مذہب کی حکمرانی بھی دراصل غلامی ہوتی ہے، اس سے جان چھڑانے کے لیے بھی “جہاد” کریں، اور ہم مذہب اور ہم زبان کی غلامی اخیتار کریں کہ وہ غلامی نہیں ہوتی۔ لوگ پھر جانیں دینے چل پڑے، پھر نہیں پوچھا کہ ہم مذہب اور ہم زبان کو حکومت مل جائے گی تو کیا ہو جائے گا؟ کہا گیا کہ غیر قوم، غیر مذہب، اور غیر زبان والے تمھارا استحصال کرتے ہیں، لیکن یہ نہیں پوچھا گیا کہ اس کی کیا ضمانت ہے ہم قوم، ہم زبان اور ہم مذہب حکمران استحصال نہیں کریں گے۔
کہا گیا کہ غیر تمھارے حقوق نہیں دیں گے۔ غریب نے پوچھا ہی نہیں کہ کون سے حقوق۔ روزی روٹی تو میسر وسائل میں اسے خود پیدا کرنی تھی، نماز اور مورتی پوجا، حج اور گنگا یاترا، مندر اور مسجد جانے کی اجازت تو سب دے رہے تھے، تعلیم اور صحت کے مواقع بقدر وسائل سب کو ملتے تھے، تو کون سے حقوق تھے جو غیر نے نہیں دینے تھے۔ کہا گیا کہ در اصل پارلیمنٹ میں تمھیں مناسب نمائندگی نہیں ملے گی۔
غریب مگر سمجھا نہیں کہ یہ اس کا مسئلہ تھا ہی نہیں، پارلیمنٹ کی نمائندگی کا ڈھونگ اقتدار کے حصول کے لیے اس کے ہم قوم، ہم زبان اور ہم مذہب اشرافیہ کا اقتدار کے حصول کے لیے گھڑا ہوا ہتھکنڈا تھا۔ انھوں نے اپنا مسئلہ عام آدمی کا مسئلہ بنا دیا تا کہ عوام کی طاقت اور اس کی قربانیوں کی ناؤ پر بیٹھ کر ایوان اقتدارتک پہنچ سکیں۔ عام آدمی خواہ مخواہ، خوشی خوشی جان دینے کے لیے تیار ہو گیا ۔ اس نے اپنے ہم قوم، ہم مذہب اور ہم زبان اشراف کو اپنی لاش کے کاندھوں پر بیٹھا کر اپنے خون کی ندی میں سے گزر کر اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھایا اور خود پھر اپنے حقوق کے حصول کے لیے لائن میں کھڑا ہوگیا۔
عام آدمی نے اپنا اتنا سارا قتل محض اس لیے کرایا کہ اس کا استحصال غیر نہیں اپنا ہم قوم، ہم مذہب اور ہم زبان حکمران کر سکے۔ اس نے سمجھا ہی نہیں یہ جنگ اس کی تھی ہی نہیں جس کے لیے اس کا خون بہایا گیا۔ منگل پانڈے، بھگت سنگھ، اشفاق، ان سے پہلے اور ان کے بعد آج تک یہ سب حریت کے لڑاکے اپنی نہیں اپنے اشراف کی جنگ اپنے خرچ اور اپنے جان کے خرچ پر لڑ رہے ہیں۔ وہ ایک کی غلامی سے نکل کر دوسرے کی غلامی میں جانے کے مر رہے ہیں۔
انیسویں صدی سے قومیت کے نام سے شروع ہونے والی یہ حماقت تاحال جاری ہے۔ کسی حقیقی خطرے سے دفاع اور اس میں جان قربان ہونا الگ بات ہے جو یہاں زیر بحث نہیں۔ یہ قومیت کے نام نہاد نظریے کے لیے جانیں قربان کرنے کی بات ہے۔ انسانی جانوں کو اس بت کے چرنوں میں آئے دن بڑے فخر سے قربان کیا جاتاہے۔
انیسویں صدی سے پہلے انسانی جانوں کی قربانی اس لیے مانگی جاتی تھی کہ بادشاہ کا موڈ بن جاتا تھا کہ وہ اپنے ملک سے نکل کر دیگر علاقوں کو فتح کرے۔ کبھی تو اس کا سبب بھوک، اور وسائل سے محرومی ہوتی تھی، گویا منظم ڈاکے کی یہ شکل تھی، جس کے لیے لوگ ایک بادشاہ کے جھنڈے تلے اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے ان کی روزی روٹی چھیننے کے لیے ان پر حملہ کرتے اور یوں اپنی جانیں بھی دیتے اور ان کی جانیں بھی لیتے، اور کبھی اس کی وجہ محض اپنی قوم کی ناموری ہوتی تھی کہ ہمارے بادشاہ نے اتنا علاقہ فتح کیا، اتنا خراج وصول کیا۔
اس کے لیے سپاہی اپنی ماؤں، بہنوں، بھائیوں، بیوی، بچوں اور دوستوں کے پیارے رشتے چھوڑ کر، انھیں اپنی جان کی دائمی جدائی کا دکھ دینے چل پڑتے تھے۔ اس حماقت کو بہادری کا خطاب دے کر جواز بخشا جاتا تھا، جس طرح آج اسے شھادت کا نام دیا جاتا ہے۔ سماج کی ذہنی تربیت ایسے کی جاتی تھی کہ مائیں بھی فخر سے اپنے بچوں کو ان کے باپ کی بے شعور قربانی کی داستان، بہادری کا نام دے کر سناتیں، اور بچے بھی تمنا کرتے کہ وہ بھی اسی راستے پر چلیں۔ یوں بادشاہوں کو اپنی بے مقصد فتوحات کے لیے تازہ خون مسلسل مہیا ہوتا رہتا تھا۔
یہی سلسلہ ناموں کی تبدیلی سے اب بھی جاری ہے۔ مرنا اتنا مقدس بنا دیا جاتا ہے کہ لوگ تمنا کرتے ہیں کہ کسی شہید کے ماں باپ کہلوائیں۔ وہ لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ کہ شہید ہونے سے پہلے ان کے فرزند کو کسی دوسرے کی ماں کو اس کے بیٹے کی جدائی کا غم بھی تو دینا ہوگا، کسی دوسرے کی بیوی کو بیوگی اور اس کے معصوم بچوں کو یتیمی کے داغ دینے ہوں گے، جن کی دکھن سے نفرت اور بدلے کے الاؤ سلگائے جاتے رہیں گے، جن کے شعلوں میں نئی نسلوں کو پھر سے جان دینے کے لیے تیار کیا جاتا رہے گا۔
شاعر ان کی بہادری پر نغمے لکھیں گے، اور گلوکار ان کو گا کر ہمارا لہو گرمائیں گے۔ مگر یہ چراغ جن کے لہو سے جلیں گے، انھیں بھی جینا تھا، انھیں بھی اپنے ماں باپ کے بڑھاپے کا سہارا بننا تھا، اپنی بیوی کے ساتھ جوانی کی لطف اٹھانے تھے، غیر کی نظر بد سے اس حفاظت کرنی تھی، اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنا تھا، اور کبھی جو وہ ڈر جاتے تو انھیں اپنے مضبوط بازوؤں کی پناہ کا یقین دلانا تھا۔ لیکن کسی طالع آزما کے مزاج کا اضطراب زندگی کا یہ سارا جوبن چھین لیتا ہے۔
غیروں کی حکومت کو غلامی باور کرا کر انسانوں کے خون بہانے کی ہر رہنما نے حوصلہ افزائی کی۔ موہن داس گاندھی اس سلسلے میں اس لحاظ سے بہتر تھے کہ قومیت کے بت کی پوجا تو انھوں نے بھی کرائی لیکن اس میں وہ عدم تشدد کے قائل تھے۔
وہ اپنے پیروکاروں کے ہاتھ میں ڈنڈا اور بندوق تو نہیں پکڑاتے تھے، لیکن انھیں بندوقوں اور ڈنڈوں کے آگے نہتا کھڑا کر دینا جائز سمجھتے تھے۔ ان کے طریقہ احتجاج میں انسانی جانوں کے قتل کرنے کے لیے حکومت کے پاس اخلاقی جواز نہیں بن سکتا تھا، مگر لوگوں کو غیر قوم کی حکومت سے نکال کر، ہم نسل اور ہم وطنوں کے زیر حکومت لانا کوئی اتنا بڑا انسانی مسئلہ نہیں تھا کہ نہتے لوگوں کو ڈنڈوں اور بندوقوں کے آگے ڈال دیا جاتا۔ غریب نے جو انگریز کے دور میں بھاڑ جھونکتا تھا اس نے اپنے ہم قوم، ہم مذہب، ہم زبان کے زیر حکومت بھی بھاڑ ہی جھونکنا تھا۔
قومیت کی بنیاد پر جمہوری جہدوجہد کے پیچھے ہم قوم اور ہم مذہب اشرافیہ کا سیاسی یا روحانی حکمران بننے کا خواب پنہاں ہوتا ہے۔ جمہوریت کے دور سے پہلے یہ مقصد اپنے قبیلے اپنی قوم کی تلواروں کی طاقت سے حاصل کرنے کی سعی کی جاتی تھی، جمہوریت میں یہی مقصد ان کے ووٹ کی طاقت سے حاصل کیا جاتا ہے۔ جس طرح اس وقت کے رہنماؤں کا ایک ذاتی ایجنڈا ہوتا تھا جس کی خاطر عام آدمی کا جانیں دینا کارِعبث تھا، اسی طرح آج کسی کے اقتدار کی خاطر جانیں دینا لایعنی ہے۔
یہاں سیاسی جدوجہد کی نفی ہرگز نہیں کی جارہی، اگر کسی کو شوق ہے کہ اپنے ملک کی حکومت میں اپنی جلد کے رنگ والے لوگوں کو بیٹھا دیکھے، کسی اور کو شوق ہے کہ وہ اپنے ہم زبان کو ایوان اقتدر میں براجمان دیکھے، اور اسی طرح کسی تیسرے کو شوق ہے کہ وہ اپنے ہم مذہب ہی نہیں بلکہ ہم مسلک کو حکومت چلاتا دیکھے تو وہ اپنےشوق سے ان کے اقتدار کے لیے جدوجہد کرے، مگر اس کے لیے انسانی جان کی قربانی مانگنا، اور ایسے حالات پیدا کرنا کہ انسانی جانیں ضائع ہو کر رہیں، اس کا کوئی جواز نہیں۔ دین کےنمائندےقرار دے کر جن افراد کو اقتدار میں لانے کے لیے جانوں کی قربانیاں مانگی جاتی ہیں کیا وہ یہ ضمانت دے سکتے ہیں یہ نمایندے کرپشن نہیں کریں گے؟ اسلامی نظام قانون لاگو ہو گیا تو بے انصافی نہیں کریں گے، اپنا ضمیر نہیں بیچیں گے؟
جب اس سب کی کوئی ضمانت نہیں تو یہ پیغمبرانہ شان سے اپنے پیروکاروں کی جانوں کی قربانی کیسے مانگ سکتے ہیں؟ پیغمبر تو ایسا خدا کی اتھارٹی پر کرتے تھے، خدا کی طرف سے جہاد کرتے اور اس کی اتھارٹی پر جان کی قربانی مانگتے تھے، لیکن ان سیاسی اور مذھبی قائدین کے پاس ایسا کون سا اختیار ہے کہ وہ انسانی جان کی قربانی مانگیں؟ انسانی جان اس سے بہت بلند ہے کہ موہوم مقاصد میں ضائع کی جائے۔
یہ رہنما اس بات پر کبھی پشمان نہیں ہوتے کہ ان کے کارکنوں، پیروکاروں کو ا ن کے اقتدار کی جدوجہد میں اپنی جانیں نہیں دینی چاہیں تھیں۔ جان لینے پر ظالم کی مذمت تو کی جاتی ہے لیکن اپنی جان یوں ہتھیلی پر سجا کر بندوق کے آگے رکھنے والے کو کس بات کی شاباش دی جائے؟ وہ جان دے کس لیے رہا ہے؟ محض اس لیے کہ اس کی پارٹی کا رہنما اقتدار میں آجائے؟ کیا یہ خدا کا حکم ہے یا رسول کا فرمان؟ وہ آ بھی گیا تو کیا ہو جائے گا؟ یہی وہ سوال ہے جو کبھی نہیں پوچھا گیا، اور بڑی بڑی تحریکیں برپا کر دیں گئیں اور لاکھوں بل کہ کروڑوں لوگ مروا دیے گئے۔
انسانی جان تو کیا کسی جانور کی جان بھی صرف اس کے خالق کی حکم پر ہی لی یا دی جا سکتی ہے۔ ہم جانوروں پر بھی خدا کا نام لیے بغیر ان کی جان نہیں لے سکتے، ایسا ہم اس لیے کرتے ہیں کہ خود کو باور کرائیں کہ اس کی جان لینے پر ہمارا کوئی اختیار نہ تھا، یہ جان خدا کی اجازت سے لی گئی ہے۔
جب کہ یہاں معاملہ انسانی جان کا ہے، جس کی حرمت تمام انسانیت کی جان کے برابر ہے۔ اس کی جان ہم خدا کے حکم اور اس کے اصولوں کے بغیر کیسے لے سکتے ہیں؟ طاقت و اقتدار کی طاقت کے نشے میں چور وہ ظالم جو سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کی برین واشنگ کے شکار انسانوں کی جان لیتے ہیں، وہ تو ظالم ہیں ہی، لیکن درحقیقت یہ سیاسی اور مذہبی رہنما ہی ہیں جو اپنے کارکنون کا پیروکاروں کے پہلے اور حقیقی قاتل ہیں۔
قومیت کے بت کی پوجا کے نتائج سامنے آ جانے کے بعد وقت آ گیا ہے لوگوں کو قومیت کی اس فتنہ سامانی سے نجات دلائی جائے اور دور حاضر میں ایسی قومیں جو اب بھی قومیت کے نام پر، قومی آزادی کے جھانسے میں جان و مال کی قربانیاں دے رہے ہیں، سمجھایا جائے کہ بے منزل کا یہ کٹھن سفر مت کریں۔ اپنے سے مختلف قومیت اور مذھب رکھنے والے طاقت ور فریق سے مل بیٹھ کر شراکت اقتدار کا کوئی انتظام طے کریں۔
انسانی سماج میں پائے جانے والی ناانصافیوں کا حل تقسیم علیحدگی اور ہم قوم اور ہم مذھب کی حکم رانی کے مفروضوں میں نہیں سماجی انصاف کے قیام میں ہے اور اس کے لیے قانون کی بالا دستی اور اخلاقی تربیت ہی واحد راستہ ہے۔ ہم دنیا میں زندہ رہنے کے لیے آئے ہیں۔ مرنا مجبوری یا نا گریر تقاضے کے علاوہ روا نہیں۔ انسانی جان اتنی سستی نہیں کہ بلا کسی اخلاقی جواز کے انسان کے بنائے ہوئے نظریات پر اسے قربان کر دیا جائے۔ شھادت اتنا سستا منصب نہیں کہ ایسی بے شعور قربانیاں اس کی مستحق قرار پائیں۔ انسان کی قدر کیجیے۔ زندگی کی قدر کیجیے۔