انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت (قسط یاز دہم)
ترجمہ از، نصیر احمد
فوکو: اچھا ہے لیکن کیا جواب دینے کے لیے میرے پاس سمے ہے؟
ایلدڑز: جی ہاں۔
فوکو: کتنا؟ کیوں کہ…
ایلڈرز: دو منٹ (فوکو ہنستے ہیں)
فوکو: میں کہتا ہوں کہ یہ نا انصافی ہے (سب ہنستے ہیں)
چومسکی: جی بالکل۔
فوکو: جی نہیں مگر میں اس کا جواب اتنے کم وقت میں نہیں دوں گا۔ بس اتنا ہی کہوں گا کہ حتمی طور پر انسانی فطرت کے اس مسئلے کو جب نظریاتی اصطلاحوں میں پیش کیا گیا تو یہ مسئلہ ہمارے درمیان بحث کا باعث نہیں بنا۔
بالآخر ہم ایک دوسرے کو نظریاتی مسائل کے معاملے پر اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
دوسری طرف جب ہم انسانی فطرت اور سیاسی مسائل پر گفتگو کر رہے تھے تب ہمارے درمیان اختلافات ابھرے۔
آپ مجھے اپنی تفہیم کے بر عکس سوچنے سے روک نہیں پائیں گے کہ مجھے یقین ہے کہ انسانی فطرت کے، انصاف کے، انسانی جوہر کی یافت کے تصورات ایسے تصورات اور خیالات ہیں جن کی تشکیل ہماری تہذیب (مغربی تہذیب) میں ہوئی ہے۔
ہماری طرز کے علم میں ہوئی ہے اور فلسفے کی ہماری صورت میں ہوئی ہے اور ہمارے طبقاتی نظام کے ایک حصے کے نتیجے کے طور پر ہوئی ہے۔ اور یہ کتنی ہی افسوس ناک بات کیوں نہ ہو، کوئی ایسے تصورات سامنے نہیں لا سکتا جو ایسی جد و جہد کو بیان کرے، یا اس کے جواز بنائے جو اصولی طور پر ہمارے معاشرے کی بنیادیں اکھاڑ دے۔
یہ ایسی تخمین کاری ہے جس کے لیے میں کوئی تاریخی جواز نہیں ڈھونڈ پایا۔ تو یہ بات ہے…
چومسکی: ظاہر ہے۔
ایلڈرز: مسٹر فوکو، اگر آپ سے یہ کہا جائے کہ آپ ہمارے حقیقی معاشرے کو عارضوں کی اصطلاحوں میں بیان کریں تو جنون کی کون سی اقسام آپ کے ذہن میں آئیں گی؟
فوکو: ہمارے معاصر معاشرے میں؟
ایلڈرز: جی ہاں۔
فوکو: یعنی اگر میں یہ کہنا چاہوں کہ ہمارا معاصر معاشرہ کس عارضے میں مبتلا ہے؟
ایلڈرز: جی ہاں۔
فوکو: عارضے اور پگلے کی تعریف اور پگلے کی درجہ بندی کچھ اس طور پر کی گئی ہے کہ لوگوں کی ایک خاص تعداد تعریف کی حدود سے باہر رکھی جا سکے۔ اگر ہمارا معاشرہ اپنا کردار بَہ طور پاگل کے متعین کرے تو اپنے آپ کو تعین کے بیرون رکھے گا۔
یہ ایسی بناوٹ اندرونی اصلاحات کی وجوہات پر کرتا ہے۔ ان لوگوں سے زیادہ کوئی بھی قدامت پسند نہیں ہے جو آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ جدید معاشرہ اعصابی پریشانی اور سکِیٹزوفرینیا میں مبتلا ہے۔ یہ در اصل ایک مکاری ہے جو کچھ خاص لوگوں اور رویوں کے کچھ خاص پیٹَرنز کو شامل نہیں ہونے دیتی۔
اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ استعارے اور مسخری کے سوا کوئی واضح طور پر یہ کہہ سکتا ہے ہمارا معاشرہ جنونی اور خوف زدہ ہے جب تک وہ اسے نان سائیکٹرک معانی نہیں دیتا۔
اگر آپ مجھے بہت زیادہ مجبور کرتے ہیں تو میں یہ کہوں گا کہ ہمارا معاشرہ ایک عجیب اور مخمصاتی عارضے میں مبتلا ہے جس کے لیے ہم ابھی نام نہیں ڈھونڈ سکے ہیں؛ اور اس دماغی عارضےکی ایک عجیب علامت ہے کہ یہ علامت ہی عارضے کو وجود میں لائی ہے۔ یہ ہے بات۔
ایلڈرز: شان دار، تو ہم سوال جواب شروع کرتے ہیں۔
سوال: مسٹر چومسکی، میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہوں گا۔ اپنی بات چیت کے دوران آپ نے ایک اصطلاح پرولتاریہ استعمال کی ہے۔ ایک انتہائی ترقی یافتہ اور ٹیکنالوجیکل معاشرہ میں پرولتاریہ سے آپ کی کیا مراد ہے؟ میرے خیال میں یہ ایک مارکسی تصور ہے جو معاشرتی حالات کی درست نمائندگی نہیں کرتا۔
چومسکی: جی ہاں، میرے خیال میں آپ درست کہہ رہے ہیں، اور یہ ایک وجہ ہے اس معاملے پر میں اپنے آپ کو سنبھالے رکھتا ہوں اور کہتا ہوں اس خیال کے بارے میں مجھے شک ہے کیوں کہ اگر ہم پرولتاریہ کے تصور کو استعمال کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کی نئی تفسیر کرنی پڑے گی جو ہمارے موجودہ معاشرتی حالات میں فٹ ہو جائے۔ ہاں ناں، میں تو یہ لفظ ہی چھوڑ دوں، کیوں کہ یہ تاریخی مفاہیم سے لدا پھندا ہے اور اس کی بَہ جائے ان لوگوں کے بارے میں سوچوں جو معاشرے کا پیداواری کام کرتے ہیں، ہاتھ پاؤں کی مزدوری اور دانش وری کا کام۔
میں چاہتا ہوں کہ یہ لوگ ایسی پوزیشن میں ہوں کہ اپنے کام کے حالات، شرائط، اپنے کام کا مآل اور استعمال منظم کر سکیں۔ اور پھر میرے انسانی فطرت کا تصور بھی ہے جس کے مطابق جزوی طور پر ہر کوئی اس میں شامل ہو جاتا ہے۔
میرے خیال میں کوئی بھی انسان جو ذہنی اور جسمانی بگاڑ میں مبتلا نہیں ہے، اور یہاں میں پھر موسیو فوکو سے سہمت نہیں ہوں اور اپنے یقین کا اظہار کرتا ہوں ذہنی عارضے کا تصور شاید ایک مکمل کردار کا حامل ہے اور کچھ حد تک ہر انسان اگر موقع ملے تو نہ صرف پیداواری اور تخلیقی کام کی صلاحیت رکھتا ہے بل کہ اس پیداواری اور تخلیقی کام پر مصر بھی ہے۔
میں ابھی ایسے کسی طفل سے ملا نہیں ہوں جو بلاکس سے کچھ بنا نہ سکتا ہو، کچھ نیا سیکھ نہ سکتا ہو اور اگلے ٹاسک کے لیے کوشش نہ کرتا ہو۔ اور اگر بالغان ایسے نہیں ہیں تو اس کی یہی وجہ مجھے سمجھ آتی ہے کہ انھیں سکول اور دیگر جابرانہ اداروں میں بھیج دیا گیا تھا جس نے نیا کرنے کی صلاحیت ہی ان بالغوں کے ذہن سے جھاڑ دی۔
اب اگر یہ صورتِ حال ہے تو پرولتاریہ یا جو کچھ بھی آپ اسے کہنا چاہیں عالمی ہو سکتی ہے اور اس میں وہ سارے انسان شامل ہو سکتے ہیں جن کے ہاں وہ لگن ہے جس کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ وہ بنیادی انسانی ضرورت ہے، اپنا آپ ہونے کی لگن جس کے معنی ہیں تخلیقی، دریافتی اور تحقیقی ہونے کی لگن۔
سوال: قطعِ کلامی معاف…
چومسکی: مفید کام کرنے کی لگ… آپ جانتے ہیں…
سوال: اگر آپ یہ صیغہ استعمال کرتے ہیں جس کے ایک مارکسی سوچ میں اور مطالب…
چومسکی: اسی لیے شاید اس تصور سے مجھے دست بردار ہونا چاہیے…
سوال: کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ آپ کوئی اور اصطلاح استعمال کریں؟ ایسے میں میں آپ سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ آپ کے خیال میں کون سے گروہ انقلاب لائیں گے؟
چومسکی: جی ہاں۔ مگر یہ مختلف سوال ہے۔
سوال: یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ موجودہ دور میں اونچے اور درمیانے طبقوں سے آنے والے نو جوان دانش ور خود کو پرولتاری کہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم پرولتاریوں کو جوائن کریں، مگر میں کوئی طبقاتی شعور کے حامل پرولتاری نہیں دیکھتا۔ اور یہ مہان دبدھا ہے۔