غلامی اور اس کا پس منظر
(آصف اکبر)
انسان کی غلامی صدیوں سے موضوعِ گفتگو رہی ہے۔ اس ضمن میں اسلام اور غلامی کی بات بھی سامنے آتی ہے۔ پھر کنیزوں کے ساتھ جسمانی ربط کی بات بھی کی جاتی ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ یہاں تفصیل سے ان باتوں پر گفتگو کریں۔
غلامی فی نفسہٖ جائز ہے یا ناجائز یہ بات بہت عرصے سے موضوعِ گفتگو رہی ہے۔ مفکرّین عموماً اس کے خلاف رہے ہیں جبکہ حکمراں اور قانون ساز سو سال پہلے تک بڑی حد تک اس کے حق میں تھے۔ اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے ہم یہ دیکھنا پسند کریں گے کہ انسان کو غلام بنانے کے ذرائع کیا ہیں تاکہ جواز یا عدم جواز پر اس کے حوالے سے بات کی جاسکے۔
کسی انسان کو غلام بنانے کے پانچ طریقے ہو سکتے ہیں۔
۱۔ جنگ میں قیدی بناکر غلام بنانا
۲۔ کسی پر امن شخص کو زبردستی پکڑ کر یا اغوا کر کےیا لوٹ مار کے ذریعے غلام بنانا
۳۔ غلام کی اولاد کو پیدائشی غلام بنانا
۴۔ کسی شخص کو اس کی اپنی مرضی یا اس کے گھر والوں کی مرضی یا بااثر لوگوں کی مرضی سے کسی رقم یا فائدے یا ہرجانے یا قرض کے عوض غلام بنانا
٥- کسی مفسد، ڈاکو یا باغی کو گرفتار کر کے غلام بنانا
کسی نتیجہ خیز جنگ میں، خصوصاً اگر وہ قبائلی جنگ ہو ،جیتنے والا قبیلہ عموماً ہارنے والے کی زمینوں بستیوں اور دیگر املاک پر قابض ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں مفتوح قبیلے کے بچے کھچے افراد بے گھر اور بے زمین ہو جاتے ہیں۔ ان کے لیےجو صورتیں ہو سکتی ہیں وہ یہ ہیں۔
• قتل کر دیے جائیں
• قید میں رکھے جائیں
• غلام بنا لیے جائیں
• اپنا علاقہ چھوڑ کر کسی اور علاقے میں نکل جائیں
• اپنی جداگانہ حیثیت برقرار رکھتے ہوئے فاتح کے زیر نگیں رہیں
• فاتح کے ساتھ مدغم ہو جائیں
جنگ کے اسباب اور اس میں کون حق پر ہے اور کون ظالم، اسے نظر انداز کرتے ہوئے ہم صرف زمینی حقائق پر بات کریں گے۔
• جہاں تک قتل کیے جانے کا تعلّق ہے تو بنی اسرائیل کی شریعت یہی کہتی ہے کہ تمام مردوں، عورتوں، بچّوں، یہاں تک کہ مویشیوں کو بھی قتل کر دیا جائے۔ لیکن جیتنے والے کو قیدیوں کو قتل کرنے میں عموماً فائدہ نظر نہیں آتا۔ ان کے لیے زیادہ فائدہ مند یہ بات ہے کہ ان لوگوں کو زندہ رکھ کر محنت مشقت کے کاموں میں استعمال کیا جائے، یا دولت کے عوض بیچ دیا جائے۔
• قید میں رکھنا، ایک بے فائدہ اور مہنگا امر ہے۔ کچھ لوگوں کو یا اہم لوگوں کو تو قید میں رکھا جاسکتا ہے، جیسے انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو رکھا تھا لیکن ساری آبادی کو لامتناہی مدّت کے لیے قید میں نہیں رکھا جا سکتا۔ آخرکار انہیں قید سے نکالنا ہی پڑتا ہے۔ بھارت نے پاکستان کی فوج کو قیدی بنایا لیکن بالآخر چھوڑنا پڑا۔ قبائلی ماحول میں یا چھوٹی ریاستوں میں ، بلکہ درحقیقت کسی بھی معاشرے میں دشمن کو آزاد چھوڑنا پریشانی سے خالی نہیں ہو سکتا اس لیے قید ختم کرتے ہوئے باقی کسی صورت کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔
• غلام بنا لیا جانا ایک ایسا حل ہے جو طویل عرصے تک عمل میں لایا جاتا رہا ہے۔ مرد، عورتیں اور بچّے، افراد کے غلام بنا لیے جاتے تھے۔ یہ افراد ان غلاموں کے ایسے ہی مالک ہوتے تھے جیسے مویشیوں کے۔ یہ غلام قطعی طور پر اپنے مالک کے رحم و کرم پر ہوتے تھے، انہیں خریدا اور بیچا جا سکتا تھا اور مالک کو ان کی جان لینے کی بھی اجازت ہوتی تھی۔ مالک اپنی غلام عورتوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے میں بھی آزاد ہوتے تھے۔
• اپنا علاقہ چھوڑ کر کسی اور علاقے میں نکل جانا ایک حل تھا۔ ساری دنیا میں ایسا ہوتا آیا ہے۔ ہند کے قدیم دراوڑ باشندے آریاؤں کی آمد پر اسی طرح اپنے علاقے چھوڑ کر جنوب کی طرف سمٹتے گئے۔ لیکن اس طریقے پر عملدرآمد کے لیے ضروری تھا کہ پہلے تو فاتح انہیں نکلنے دیں اور پھر کوئی ایسا علاقہ ملے جہاں زندگی گزاری جا سکے۔
• فاتح کے زیر نگیں زندگی گزارنا انفرادی غلامی کی جگہ اجتماعی غلامی ہوتی ہے۔ فرعون کے زیرِ نگیں مصر میں بنی اسرائیل دو سو سال سے زائد ایسی ہی زندگی گزارتے رہے۔ افریقہ میں یورپی نو آبادیات میں مقامی آبادی نے ایک طویل عرصے تک ایسی ہی زندگی گزاری ہے۔ خود برّ صغیر پاک و ہند میں انگریز کے زیرِ حکومت مقامی آبادی بہرحال غلام ہی تھی۔
• فاتح کے ساتھ مدغم ہو جانا ایک سست اور طویل عمل ہے لیکن ایسا ہوتا بھی آیا ہے۔ یورپ کی تاریخ اس کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
اسی موضوع پر: دور غلامی اور آسمانی مذاہب
جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کے علاوہ لوگوں کو لوٹ مار یا اغوا کے ذریعے بھی غلام بنایا جاتا رہا ہے۔ پرانے زمانے میں یہ بات بہت عام تھی کہ ڈاکو قافلوں پر حملہ کردیتے تھے اور زندہ بچ جانے والے مسافروں کو غلام بنا لیتے تھے، جنہیں قریبی شہروں میں لےجا کر فروخت کردیا جاتا تھا۔ کچھ جنگجو قبائل دور و نزدیک کی بستیوں پر حملہ کر کے بھی لوگوں کو پکڑ لے جاتے تھے۔ امریکہ پر یورپی قوموں کے قبضے کے بعد یورپی افراد کسی بھی افریقی ساحل پر اترجاتے تھے اور جو مقامی آبادی میں سے جو بھی ہاتھ آجائے اس کو پکڑ کرغلام بنا لیتے تھے اور امریکہ لے جاتے تھے۔
جن افراد کو ایک بار غلام بنا لیا جاتا تھا ان کی اولاد بھی غلام بن جاتی تھی اور انہیں بھی دوسرے غلاموں کی طرح خریدا اور بیچا جا سکتا تھا۔
ایک اور طریقہ غلام بنانے کا یہ رہا ہے کہ کسی شخص کو، خصوصاً عورت کو، اس کے گھر والےقیمتاً یا تحفتاً کسی کو بطور غلام دے دیں۔ راجاؤں اور بادشاہوں کو لوگ اپنی بیٹیاں یا بیٹے اسی طرح پیش کردیتے تھے۔ کسی علاقے میں قحط کے نتیجے میں بھی لوگ اپنی اولاد بیچ دیتے تھے۔ امراء کے گھروں کے ملازم عملی حیثیت سے ان کے غلام ہی ہوتے تھے۔
غلامی کے بارے میں مختلف اندازِ فکر ہر دور میں رہے ہیں۔ کچھ لوگ اسے قطعی ناقابلِ برداشت کہتے ہیں۔ کچھ لوگ اس میں کوئی برائی نہیں دیکھتے۔
اصولی طور پر تو کسی انسان کو غلام نہیں بنایا جانا چاہیے مگر آج کے دور میں بھی انسان کو مختلف وجوہ سے غلام بنایا جاتا ہے، چاہے اسے قانونی طور پر غلام کا نام نہ بھی دیا جائے اور قیدی کہا جائے۔ غلام اور قیدی میں فرق یہ ہے کہ غلام کسی ایک فردِ واحد کی ملکیّت ہوتا ہے اور قیدی حکومت کے قابو میں ہوتا ہے، گو اسے ملکیّت قرار دے کر خریدا اور بیچا نہیں جاتا مگر ایک حکومت سے دوسری کو دیا جاسکتا ہے۔ قیدی اور غلام دونوں کو اپنے آقا کی مرضی کے مطابق ہی کام کرنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا اور رہنا ہوتا ہے۔ بسا اوقت قیدیوں سے مشقّت بھی لی جاتی ہے تاکہ ان کے قید میں رکھنے کے اخراجات کو کسی حد تک پورا کیا جاسکے۔
ان غلاموں میں سرِ فہرست یہ لوگ ہیں۔
• خرکار کیمپوں میں کام کرنے والے لوگ، جنہیں مختلف علاقوں سے اغوا کر کے لایا جاتا ہے۔ انہیں ناکافی خوراک دی جاتی ہے اور غیر انسانی ماحول میں رکھا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو شہروں سے دور تعمیراتی کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
• شہروں میں بھیک مانگنے والے لوگ۔ یہ زیادہ تر کسی طاقتور گروہ کے غلام ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اغوا کرکے معذور بنا دیا جاتا ہے اور پھر ان سے گداگری کروائی جاتی ہے۔
• اینٹوں کے بھٹّوں پر اور کھیتوں میں کام کرنے والے لوگ۔ یہ لوگ انتہائی معمولی اجرت پاتے ہیں۔ عام طور پرکہا جاتا ہے کہ ان کے باپ دادا نے زمیندار یا ٹھیکیدار سے کچھ رقم پیشگی لی تھی جو آنے والی نسلوں کو چکانی ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ لوگ اپنا کام چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتے۔ کبھی کبھار کوئی غیر سرکاری ادارہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یہ قرض اتار کر ان کو آزاد بھی کروا لیتا ہے۔
• اغوا کر کے لائی جانے والی عورتیں یا گھروں سے بھاگ کر آنے والی عورتیں، جن سے جبراً پیشہ کروایا جاتا ہے۔
• گھروں سے بھاگ کر یا اغوا کر کے لائے جانے والے لڑکے جن سے ہوٹلوں، ورکشاپوں، کارخانوں میں جبری مشقّت لی جاتی ہے۔
• مہاجر کیمپوں میں رکھّے جانے والے لوگ جن کو اپنے کیمپوں سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
• مارشل لاء کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور افراد۔
• مذہبی یا نسلی اقلیّتیں جن کو اکثریت کے ظلم و ستم کے تحت زندگی گزارنی پڑتی ہے اور ان کو ان کے سیاسی، معاشرتی اور مذہبی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔
• ذات پات کے نظام کے تحت نیچ ذات سمجھے جانے والے افراد۔ یہ زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جو
ان کے علاوہ بھی مختلف قسم کے غلام ہوتے ہیں جنہیں خود اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ غلام ہیں، مگر ان کی حالت غلاموں والی ہی ہوتی ہے۔
• ایسی عورتیں جن کے گھر والوں نے پیسے کے عوض ان کانکاح کر دیا ہو۔
• ایسے گھرانوں میں شادی کرنے والی عورتیں جہاں عورتوں کو کوئی حقوق حاصل نہیں ہوتے، یہاں تک کہ انہیں اپنے گھر والوں سے آزادانہ ملنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔
• دینی مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے والے وہ بچّے بچیّاں جو اپنے ماں باپ اور علاقوں سے دور بھیج دیےجاتے ہیں۔
• کسی ایسی جگہ ملازمت کرنے والے لوگ جہاں ملازم کو اپنی مرضی سے ملازمت چھوڑنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ ان میں مسلّح افواج اور اسی قسم کے حسّاس اداروں کے علاوہ وہ ادارے بھی ہیں جہاں ملازمت کرنے والے کو اتنی بھاری رقم کا بونڈ دینا پڑتا ہے، جو وہ آسانی سے اتار نہیں سکتا۔
• متعدد غیر ممالک میں جانے والے ایسے ملازمین جہاں ان کے آجر ان کے پاسپورٹ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں، اور وہ ان کی مرضی کے خلاف کہیں جا نہیں سکتے۔
• زمینداروں وغیرہ کے خاندانی ملازم جو مالک کی مرضی کے خلاف کہیں آ جا نہیں سکتے۔
• قبائلی افراد جو سردار کی اجازت کے بغیر کوئی کام نہیں کرسکتے نہ ہی اپنے علاقے سے باہر جا سکتے ہیں۔
• خاندانی نظام میں جکڑے ہوئے افراد جو برادری کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کر سکتے۔
• وہ لوگ جو اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر نہ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں نہ کوئی پیشہ اختیار کر سکتے ہیں، نہ اپنی مرضی سے شادی کر سکتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو قانونی طور پر تو آزاد ہیں مگر عملی طور پر غلام ہوتے ہیں۔
• وہ لوگ جنہیں جبراً فوج میں مستقل یا ایک مدت کے لیے بھرتی کیا جائے۔
اس کے علاوہ غلامی کی ایک قسم ذہنی غلامی بھی ہے جہاں ایک طبقہ کسی دوسرے طبقے کے طور طریقے اور رسوم و رواج کو بغیر سوچے سمجھے اختیار کر لیتا ہے یا اس کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیتا ہے اور ایک طبقہ خود کو نیچ اور دوسرے کو اونچا اور اعلیٰ مان لیتا ہے۔ یہ طبقے ایک ہی ملک کے بھی ہو سکتے ہیں، فاتح اور مفتوح بھی ہو سکتے ہیں یا مختلف ملکوں کے لوگ بھی ہو سکتے ہیں۔ ہندوستان میں یہ ذہنی غلامی ذات پات کی شکل میں ہزاروں سال سے جاری ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں بھی عوام پیروں اور مذہبی طبقات کی ذہنی غلامی میں مبتلا ہیں۔ یورپ جیسے معاشرے میں بھی عوام شاہی خاندانوں کے ذہنی غلام ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا، فنکاروں، گلوکاروں، اداکاروں اور نامور افراد کی ذہنی غلامی بھی بہت عام چیز ہے۔ تیسری دنیا کے زیادہ تر حکمرانوں کی طرح پاکستان کا حکمراں طبقہ بھی مغرب کا ذہنی غلام ہے اور اس کی نظر میں مغرب کی زبان، ان کا رہن سہن، ان کا طریقہ معاش سب بغیر سوچے سمجھے اختیار کرنا ہی ترقّی کی علامت ہے۔
ذہنی غلامی کی ہی ایک قسم رسوم و رواج کی غلامی ہے۔ لوگ اپنے قدیم طور طریقوں پر بغیر سوچے سمجھے عمل کرتے ہیں چاہے وہ کتنے ہی نقصان دہ کیوں نہ ہوں۔ اس کی ایک مثال خوشی کے موقع پر فائرنگ یا بسنت کے موقع پر پتنگ بازی ہے۔ جہیز کی رسم بھی ایسی ہی ایک غلامانہ ذہنیت کی نشانی ہے۔ اسی طرح کسی کے مرنے پر لوگوں کو کھانا کھلانا۔
یہاں ہم زیادہ گفتگو اس غلامی کی کریں گے جس میں انسان جسمانی طور پر کسی دوسرے انسان یا کسی خاندان کا غلام ہوتا ہے۔
یہ بات مانے بغیر چارہ نہیں، اور عقلِ سلیم بھی یہی کہتی ہے کہ ایک انسان کو دوسرے انسان کا غلام نہیں ہونا چاہیے۔ مگر بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ ایک شخص کے پاس ایک گھریلو ملازم یا ڈرائیور ہے اور وہ آپ سے کہتا ہے کہ مجھے ایک لاکھ روپے کی اشد ضرورت ہے، کسی کی زندگی کا سوال ہے، آپ ایک سال کی تنخواہ پیشگی دے دیجیے۔ اس کو ایک سال کی تنخواہ ازراہِ ہمدردی پیشگی دے دی گئی۔ کیا اب آپ ، بطور منصف اس ملازم کو یہ اختیار دے سکتے ہیں کہ وہ جہاں چاہے چلا جائے۔ اگر ہاں تو کیا آپ اس مالک کو ہمدردی کرنے کی سزا دے رہے ہیں، اور اگر نہیں تو کیا آپ غلامی کو قانونی شکل نہیں دے رہے ہیں۔
اب چلتے ہیں ہزار پانچ سو سال پہلے کے زمانے میں۔ ایک بستی پر کچھ لوگ لوٹ مار کرنے کے لیے حملہ کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو مار دیتے ہیں، بہت سے لوگوں کو زخمی کردیتے ہیں اور املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ بستی کے لوگ بہادری سے ان کا مقابلہ کر کے جیت جاتے ہیں اور ان میں سے کچھ کو زندہ پکڑ لیتے ہیں، جن میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ آپ بستی کے سردار ہیں۔ آپ کیا فیصلہ کریں گے؟
• قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے، اس امکان کے ساتھ کہ وہ دوبارہ زیادہ تیّاری کے ساتھ آپ کی بستی پر یا کسی اور بستی پر حملہ کریں اور لوگوں کو نقصان پہنچائیں۔
• قتل کردیا جائے۔
• اگر کوئی معاوضہ دینے والا ہو تو ان کو معاوضہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔
• ہاتھ پاؤں کاٹ کر یا کسی اور طرح سے جسمانی طور پر ایسا معذور کرکے چھوڑدیا جائے کہ وہ دوبارہ حملہ نہ کر سکیں۔
• قید میں رکھا جائے یہاں تک کہ وہ یا تو مر جائیں یا ضعیف ہوجائیں۔ اور ان کو قید میں رکھنے پر اٹھنے والے اخراجات بستی والے مل جل کر ادا کریں۔
• اپنی بستی میں آزاد رکھا جائے اور ان پر نظر رکھی جائے کہ بھاگنے نہ پائیں۔ ان کی نگرانی کے اخراجات بستی والے ادا کریں۔ ساتھ ہی اس بات کے لیے تیّار رہا جائے کہ یہ لوگ بستی کے لوگوں کو کوئی نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔
• ہر قیدی کو عمر بھر کے لیےکسی ایسے فرد کے سپرد کردیا جائے جو ان سے کام لے، ان کے رہنے سہنے اور کھانے پینے اور دوا علاج کی ذمّہ داری لے، اور ان کی نگرانی کرے کہ وہ نہ تو فرار ہو سکیں اور نہ کسی کو نقصان پہنچا سکیں۔ ایسا کوئی شخص اگر فرار ہو جائے تو معاشرہ اور حکومت ان کو پکڑ کر دوبارہ اس شخص کے حوالے کر دے۔ اور اگر وہ خطرناک ہو جائے تو اس کی زندگی چھین لی جائے۔ چونکہ ان سے کام لینے کے خواہشمندافراد کی تعداد زیادہ ہوسکتی ہے، اس لیے ان قیدیوں کو ان کے حوالے کرنے کے بدلے معاوضہ لیا جائے، اور اس رقم سے ان لوگوں کے نقصان کی کچھ تلافی کی جائے جن کی جان و مال کو ان حملہ کرنے والوں نے نقصان پہنچایا ہے۔ ان قیدیوں کو عبد، غلام، سلیو،مملوک، بندہ، کنیز، باندی ، داسی، میں سے کوئی بھی نام دیا جاسکتا ہو۔
• یا آپ کے ذہن میں کوئی اور صورت آتی ہے؟
مجھے تو یہی لگتا ہے کہ کچھ لوگ قیدیوں کو قتل کرنے کا فیصلہ کریں گے اور باقی لوگ ان کو غلام بنانے کے حق میں ہوں گے۔
ساتھ ہی ہر صحتمند سوچ رکھنے والا معاشرہ یہی چاہے گا کہ آہستہ آہستہ ان لوگوں کو آزاد حیثیت میں اپنے معاشرے میں ضم کرلیا جائے۔ کیونکہ بنیادی طور پر تو ہر انسان آزاد ہی پیدا ہوتا ہے اور اس کو اس وقت تک آزاد رہنے کا پورا حق ہے جب تک وہ ، یا اسکی قوم من حیث المجموع، دوسروں کے جان و مال اور آزادی کے لیے خطرہ نہ بن جائے، اور اس کی اس آزادی کو اسی وقت تک سلب کیا جاسکتا ہے جب تک وہ ضرر رساں رہے۔
اب ہم آتے ہیں دو اہم سوالات کی طرف
• اسلام میں غلام عورتوں سے بغیر نکاح جسمانی تعلق کی اجازت
• موجودہ دور میں غلامی کی قانونی حیثیت
یہ سوال بہت سے لوگوں کے ذہن میں چبھتا ہےکہ اسلام نے مرد مالکوں کو اپنی غلام عورتوں کے ساتھ بغیر نکاح کے جسمانی تعلّق قایم کرنے کی اجازت کیوں دی ہے۔ یہ سوال دین سے برگشتہ لوگ اعتراض کے طور پر کرتے ہیں جبکہ دیندار لوگ حیرت سے کرتے ہیں۔ یہاں ہم اس موضوع پر فقہی یا شرعی اعتبار سے بات کرنے کو چھوڑتے ہوئے، صرف معاشرتی اور انسانی نقطہء نظر سے بات کریں گے۔
فرض کیجیے ہمارے سامنے ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں غلامی کو قانونی شکل حاصل ہے، جیسے رومن ایمپائر کا کوئی شہر۔ ایک امیر تاجر ہے جس کے پاس بیسیوں کی تعداد میں غلام ہیں، جن میں عورتیں بھی ہیں مرد بھی۔نوجوان بھی اور عمر رسیدہ بھی یا ایک بہت امیر عورت ہے جس کے پاس اسی طرح کے غلام ہیں۔ ایسے معاشرے میں غلاموں کی ازدواجی حیثیت کی شکلیں کیا کیا ہو سکتی ہیں۔
ان کو کسی قسم کے جسمانی تعلق کی اجازت نہ دی جائے اور اگر کوئی غلام کسی دوسرے غلام یا آزاد کے ساتھ ایسا تعلق قائم کرے تو اسے سزا دی جائے۔ ایسی صورت میں غلاموں کو ساری زندگی غیر فطری انداز میں گزارنی ہو گی اور زندگی میں ان کے لیے دلچسپی کم ہو گی۔ عمر رسیدہ غلاموں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوگا، ماسوا اس کے کہ دوسرے غلاموں کو ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری دی جائے۔
غلاموں کو پورا اختیار دیا جائے کہ وہ جس سے چاہیں ، آزاد یا غلام، اس سے قانونی طور پر شادی کر لیں۔ ایسا کرنے کی صورت میں بہت سی عملی پیچیدگیاں سامنے آ سکتی ہیں۔
- مالک اپنے مرد غلام کی شادی کسی غلام عورت سے کردے اور دونوں اس کی خدمت کرتے رہیں۔ ان کی اولاد بھی غلام ٹھہرے یا بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد آزاد ہو جائے۔
- مالک اپنے غلام مرد کی شادی کسی آزاد عورت سے کر دے، جس کی اولاد آزاد ہو۔
- غلاموں کو اپنے مالکان کے ساتھ، ایک دوسرے کے ساتھ اور کسی بھی فرد کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرنے کی کھلی چھوٹ دی جائے۔ ان کی اولاد غلام ٹھہرے یا آزاد۔ عورت مالک کو اپنے مرد غلاموں کے ساتھ یہی آزادی حاصل ہو۔
- صرف مرد آقا اپنی غلام عورتوں کے ساتھ جسمانی تعلق رکھے۔ان تمام امکانی صورتوں کو کسی بھی معاشرے پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے معاشرے وہی صورتیں اختیار کرتے ہیں جن میں انہیں آسانی ہوتی ہے۔ غلاموں کی آپس میں شادی کرنے سے ان کی اولاد کی شکل میں غلاموں کی نئی کھیپ ملتی رہتی ہے اس لیے امریکہ میں یہ شکل بالعموم رائج تھی۔ ہندوستانی نوابی معاشرے میں باندیوں کے ساتھ لوگ بغیر روک ٹوک کے یہ تعلق رکھتے تھے۔
اس معاملے میں ایک اہم نکتہ نکاح کی اصلیت کا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں شادی معاشرتی طور پر اس بات کا اعلان ہے کہ یہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ یہ اعلان حقوق اور ذمہ داریوں کے تعین، وراثت کے تعین اور قانونی معاملات میں صراحت کے لیے ضروری ہے۔ یہ اعلان مولوی کے ذریعے نکاح پڑھا کر، پادری کے ذریعے شادی کر کے، پنڈت کو بیچ میں ڈال کر یا کورٹ میرج کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ اس تعلق کی لوگوں کو خبر ہو۔
اسلامی معاشرتی نظام میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص اگر کسی غلام عورت کا مالک بنتا ہے تو وہ بنیادی طور پر اس کا شوہر بھی ہوتا ہے۔ اور صرف اس کا قانونی مالک ہی اس کا شوہر ہوتا ہے اور کوئی دوسرا فرد نہیں، تا وقتیکہ اس کا مالک اس کا نکاح کسی اور شخص کے ساتھ نہ کر دے۔ ایسی صورت میں مالک شوہر نہیں رہ جاتا۔
اب جب مالک بننے کے ساتھ ہی معاشرتی طور پر ایک رشتہ خودبخود قائم ہو گیا اور ہر شخص کو معلوم ہے کہ یہ عورت اس مرد سے متعلق ہے تو اب نکاح کی کیا ضرورت رہ گئی؟ ہاں الگ مالک اس غلام عورت کو کسی اور کو بیچ دے یا آزاد کر دے تو یہ رشتہ خودبخود ختم ہوجاتا ہے، اس لیے طلاق کی بھی ضرورت نہیں۔ جب مالک کسی غلام عورت کو آزاد کر دیتا ہے اور پھر اس کے ساتھ تعلق رکھنا چاہتا ہے تو اب اس کو نکاح کا اعلان کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر غلام عورت اولاد پیدا کرے تو اس کی حیثیت غلام کی تو رہتی ہے مگر نہ تو مالک اس کو کسی اور کو فروخت کر سکتا ہے اور نہ مالک کے فوت ہونے کے بعد وہ غلام رہ جاتی ہے۔
دوسرا سوال موجودہ دور میں غلامی کی قانونی اور شرعی حیثیت کے بارے میں ہے۔ کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب شریعت میں غلام رکھنے کی اجازت ہے تو کسی حکومت کو غلامی کو منع کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ اس سلسلے میں ہم کو اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ کیا اسلام میں حکومتوں کو غلامی کو ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ لیکن اس سے بھی پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ غلام آئے کہاں سے۔ اگر کسی شخص کے پاس کوئی ایسا /ایسی مرد یا عورت غلام ہے جسے شرعی طور پر غلام بنایا گیا ہو، یعنی کسی جنگ کے نتیجے میں تب تو ہم اس کے جواز اور عدم جواز پر بات کریں گے لیکن اگر اسے غیر شرعی طور پر غلام بنایا گیا ہو، یعنی اغوا، لوٹ مار یا جبر کے ذریعے تو اس کی غلامی ہی غیر شرعی ٹھہرے گی۔
ہاں اگر غلام قانونی طور پر بنایا گیا ہو تب ہم کو دیکھنا پڑے گا کہ غلام رکھنا مطلق شرعی حق ہے یا یہ حکومت کی اجازت سے مشروط ہے۔ بہت سے معاملات ایسے ہیں جو شرعی طور پر جائز ہونے کے باوجود حکومتوں کے اختیار میں ہوتے ہیں، جیسے بین الاقوامی سفر۔ بین الاقوامی تجارت۔ نقصان دہ اشیاء کی صنعت اور کاروبار، مختلف علاقوں میں جانے، مکان بنانے، تقریر کرنے وغیرہ کی پابندی۔ تمام ممالک نے اپنے ملک میں داخلے کے لیے پاسپورٹ کی شرط اور مقررہ راستوں سے داخلے کے ضابطے بنائے ہوئے ہیں، جو شریعت میں سفر کی مطلق اجازت ہونے کے باوجود نافذ ہوتے ہیں، یہاں تک کہ حج جیسے فریضے کی ادائیگی کے لیے بھی دونوں حکومتوں کی اجازت درکار ہوتی ہے، اور کسی نے بھی اس پابندی کو غیر شرعی نہیں کہا۔
مختلف ممالک اپنے یہاں آنے والوں پر سامان لانے پر پابندی عائد کرتے ہیں۔ جیسے سعودی عرب حج پر جانے والے پاکستانیوں کو کھانے کا سامان ساتھ لانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح ویکسین لگوانے کی پابندی ہوتی ہے۔ کچھ ممالک غیر ملکیوں سے شادی پر پابندی عائد کر دیتے ہیں۔ اس لیے غلامی پر پابندی کو بھی ہمیں حکومتوں کا شرعی حق تسلیم کرنا چاہیے۔
اس وقت قانونی طور ہر دنیا کے تقریباً تمام ملکوں میں غلامی ختم کی جا چکی ہے، مگر عملی طور پر مختلف خطوں میں اب بھی رائج ہے۔ ان میں سب سے بڑا نام ماریطانیہ کا ہے جہاں کی بیس فیصد آبادی غیر قانونی طور پر مگر عملاً غلام ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تمام انسانوں کو جسمانی، ذہنی، مذہبی، ثقافتی اور معاشی آزادی دیں اور اس بات کو اپنے ایمان کا حصہ بنائیں۔