انسانی المیوں پر رسمی اظہاریے
از، نسترن احسن فتیحی
قانون، انصاف، اصول، انسانیت اور امن یہ سارے الفاظ ملکی اور عالمی سطح پر آج کل جتنے برتے جا رہے ہیں، شاید ہی کبھی پہلے اس طرح برتے گئے ہوں۔ کیوں کہ پہلے یہ، الفاظ سے زیادہ عمل میں رائج تھے، معاشرے اور ملک کے کردار کا امین تھے یہ الفاظ۔ مگر اب صورت حال بالکل مختلف ہے۔
یہ سارے الفاظ آج کے تناظر میں بڑے کھوکھلے اور بے جان ہو چکے ہیں۔ کیوں کہ انہیں استعمال کرنے والے بڑے بڑے لوگ، ادارے اور ملک جتنی زور سے اس کا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ اتنی ہی شدت اور بے شرمی سے پس پردہ اس کی دھجیاں اڑا رہے ہوتے ہیں۔ کیوں کہ وہ خود کو ان سب سے اوپر سمجھنے لگتے ہیں۔
مساوات پر مبنی کوئی بھی معاشرہ اپنے اندر مشکلات سے مقابلہ کرنے کی بھر پُور صلاحیت رکھتا ہے، اور ایسے ہی معاشرے ترقی کرتے ہیں جن میں زندگی پھلتی پھولتی ہے۔ مگر افسوس کہ آج ایسے معاشرے کی خواہش رکھنا اور اس کا خواب دیکھنا ایک نا قابلِ معافی گناہ ہے۔ اس لیے پہ در پہ گوری لنکیش، سبین محمود، مشال،کیروانا گیلیزیا یا بلال خان جیسے لوگوں کی قاتلانہ سازش کا المیہ ہمارے سامنے آتا رہتا ہے۔ ان کی شہادت کی وجہ، حالات، ملک اور طریقہ الگ الگ ضرور ہے مگر سب کا مقصد ایک ہی ہے۔
اب تو خون نا حق کا یہ سلسلہ اس تواتر سے سامنے آنے لگا ہے کہ ہمارے حافظے میں ابھی ایک نام دھندلا بھی نہیں پڑتا کہ ایک دوسرا نام اس میں جڑ جاتا ہے اور یہ فہرست طویل ہوتی چلی جاتی ہے۔
کتنی عجیب بات ہے نا کہ جن کے پاس طاقت ہے، دولت ہے، چال بازیاں ہیں جھوٹ ہے اور جو جمہوریت کے سارے ستون کی خرید و فروخت میں لگے ہوئے ہیں، وہ اپنے مفاد کے لیے اتنے حریص ہو چکے ہیں کہ اپنے سامنے ایک معمولی، کمزور اور ہاتھ میں قلم تھامے ہوئے انسان سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ اس سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیتے ہیں۔
یہ صرف ایک ملک کی کہانی نہیں ہے بل کہ اب عالمی کردار یہی بن چکا ہے۔ جو جتنا امن کی دہائی دیتا ہے وہ اتنی زیادہ بمباری کرتا ہے یا اسلحے کی تجارت کرتا ہے۔ جو قانون کا رکھوالا ہے وہی اس کی حد بھول رہا ہے، جس نے انصاف کا بیڑا ٹھایا ہے اس نے اپنے ضمیر کو فروخت کر دیا ہے۔ اور جب اتنا سب کچھ کھلے عام ہو رہا ہے تو اس ماحول میں اپنی ذمہ داری کے لیے ایمان دار شخص دیوانہ ہی کہا جا سکتا ہے جس کے لیے موت کا فرمان جاری کر دینا معمولی بات ہے۔
مالٹا بحیرۂِ روم میں کے جزیرہ پر مشتمل یورپی اتحاد کا رکن ملک ہے۔ وہاں اکتوبر ۲۰۱۷ میں مشہور صحافی کیروانا گیلیزیا کو ایک کار بم دھماکے سے ۵۳ سال کی عمر میں ہلاک کر دیا گیا۔ وہ تیس سال سے صحافت کر رہی تھیں اور ایک نڈر خاتون تھیں۔ ان کی ہلاکت کے بعد حکومت کے حمایتی اس قاتلانہ حملے پر کھلے عام جشن مناتے رہے۔
ہندوستان میں گوری لنکیش ایک معتبر صحافی اور بے باک نڈر خاتون تھیں، انہیں دن دیہاڑے قتل کیا گیا اور قاتل اپنے اس عمل پر فخریہ سرخ رو قرار پائے۔ قانون اور انصاف کی دہائی دینے والے اور مسلم خواتین کے لیے تین طلاق کے نام پر ان کے حق کی لڑائی لڑنے والے گوری لنکیش کے حق کے لیے سامنے نہ آئے۔
سبین محمود کے نام اور کام سے کون واقف نہیں ان کا انجام بھی ایک المیے کی صورت سامنے آیا۔
ایک اور الم ناک مثال سعودی عرب کے مرتضیٰ کی ہے۔ جس نے دس سال کی عمر میں ۲۰۱۱ میں سعودی گورنمنٹ کے خلاف مزاحمت میں سائیکل ریلی کی۔ اس گناہ کے پاداش میں اسے ۲۰۱۴ میں حراست میں لے لیا گیا اس وقت وہ صرف تیرہ سال کا تھا۔ اور اب یہ فیصلہ آیا ہے کہ اسے سزائے موت نہیں دی جائے گی۔ یہ خبر راحت بھری ہے مگر اسے ۲۰۲۲ میں رہا کیا جائے گا۔ اس بچے کا جرم دیکھیے اور سزا دیکھیے۔ اس کا بچپن کیا کبھی لوٹ کر دو بارہ آ سکے گا۔ اس معصوم کو نہ جانے کس نے اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا صرف دس سال کی عمر میں شاید اس لیے کہ ایک بچے کو کوئی سزا نہ ہو اور مزاحمت کا مقصد بھی پورا ہو جائے۔
آخر دس سال کی عمر میں دنیا کی سمجھ ہی کتنی ہو سکتی ہے مگر حکم رانی کا نشہ ہے کہ پھر بھی اسے ایک طویل قید جھیلنی پڑ رہی ہے۔ یہاں پر قانون میں کوئی رعایت موجود نہیں۔
جب کہ ہندوستان میں کئی خطرناک ریپسٹ اپنی عمر ۱۸ سال سے کم دکھا کر معمولی سزا کے بعد رہا ہو گئے ہیں۔ آصفہ کے کیس کے فیصلے میں سات میں سے چھ کو سزا ہوئی اور ایک مجرم کو نا بالغ ہونے کی بنیاد پر سزا نہیں ہوئی۔ دلی کےنربھیا کیس میں بھی سب سے خطرناک اور سفاک مجرم اسی بنیاد پر رہا ہوا۔ یہ دونوں ملک اور اس کے قوانین الگ الگ ہیں مگر سچ یہ بھی ہے کہ ہر جگہ یہ قانون طاقت اور دولت کے ہاتھ کا کھلونا بن چکا ہے۔
جب معاشرے میں اور دنیا میں ایسی بے اصولی رائج ہوتو با ضمیر انسان خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتا۔ اور صحافیوں کے کام کی بنیادی خصوصیت حقائق اور خیالات کی آزادانہ نشر و اشاعت ہے۔ جس سے ایک منصفانہ اور مضبوط معاشرے کا جنم ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جو عوام کے دل کی آواز بن جاتے ہیں، جو نا انصافیوں پر انگلی اٹھانے کی ہمت کرتے ہیں، جو جھوٹ کا پردہ چاک کر دیتے ہیں۔ اور اپنے مفاد اور اپنی ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر معاشرے کی فلاح کے لیے اپنی زندگی تج دیتے ہیں۔ آج تنہا پڑ چکے ہیں۔ انسانی کمزوریوں ا ور اخلاقی پستی کے شکار لوگوں کو نفرت کی آگ میں جھونک کر انہیں طبقوں میں بانٹ کر کمزور کر دیا گیا ہے۔
ہم گونگے بہرے بن کر سب کچھ ہوتا ہوا دیکھتے رہتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ ہم نے اپنے شعور اور دانش کو ایک بے حسی کی چادر میں لپیٹ دیا ہے۔ جس سے ہم خود کو یہ دھوکا دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ یہ ہمارا یا ہمارے طبقے کا یا ہمارے ملک کا مسئلہ نہیں ہے۔ اور یہ کہ ہم ابھی محفوظ ہیں۔ اس لیے ہم اپنے دامن تک پہنچتی ہوئی آگ نہیں دیکھ پاتے اور کسی بھی نا انصافی کے خلاف ایک مضبوط آواز نہیں بن پاتے۔
صحافیوں کے کام کی بنیادی خصوصیت حقائق اور خیالات کی آزادانہ اشاعت ہے۔ جس سے ایک منصفانہ اور آزاد معاشرے کی داغ بیل پڑتی ہے۔ ایسے بے باک اور نڈر لوگ جو نہ خریدے جا سکتے ہوں نہ ڈرائے جا سکتے ہیں عام بے کس اور بے بس عوام کی آواز بن جاتے ہیں اور اس آواز کی دھمک کے خیال سے ہی مفاد پرستوں کو خوف آنے لگتا ہے۔ اس لیے انہیں مار دیا جاتا ہے۔ اور ہم ایسی نا انصافیوں، جرائم اور قانون شکنی کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ان المیوں پر صرف کچھ رسمی اظہار اور افسوس کر کے اپنی اپنی مصروفیت میں منہمک ہو جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا وقتی ہنگامہ بالکل ایسا ہوتا ہے جیسے تالاب میں کوئی کنکری گری ہو۔ وقتی ہلچل پھر گہری خاموشی۔